Inquilab Logo

امید کا مرکز ہیں ہمارے چھوٹے شہر

Updated: January 24, 2020, 2:21 PM IST | Shamim Tariq

ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس ملک میں ممبئی، دہلی، بنگلور میں ترقیاتی پروگراموں کی رفتار سب سے تیز ہے مگر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے تیز رفتار سے ترقی کرنے والا شہر کیرالا کا ملاپورم ہے۔ ۲۰۱۵ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان یہاں ۱ء۴۴ فیصد تبدیلی ہوئی ہے۔

ملاپورم کیرالا
ملاپورم کیرالا

عالمی سطح پر جو سروے کئے جاتے ہیں یا جو عالمی ادارے ہر سال اپنی رپورٹ جاری کرتے ہیں ان سے پوری طرح اتفاق کیا جائے یا نہ کیا جائے مگر ان رپورٹس میں بیان کئے گئے حقائق سے ایک فیصلے تک پہنچنے میں مدد ضرور ملتی ہے۔ یو اے ایس نیوز، ورلڈ رپورٹ اور وارٹن اسکول نے حال ہی میں جو سروے رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق دنیا میں رہنے لائق ۷۳؍ ملکوں کی فہرست میں ہندوستان پچیسویں نمبر پر ہے۔ اس اعتبار سے یہ رپورٹ خوش کن ہے کہ پچھلے سال کی رپورٹ میں ہندوستان ستائیسویں نمبر پر تھا مگر اس کی تفصیل پر نگاہ ڈالنے سے اس رپورٹ کے خوش کن ہونے کا تاثر باقی نہیں رہتا۔ یہ رپورٹ جن سوالات کے جوابات پر مبنی ہوتی ہے وہ یہ ہیں کہ ملک کے سماجی حالات کیا ہیں؟ تشدد ہے یا امن ہے؟ تجارت اور سرمایہ کاری کے کیا امکانات ہیں؟ سیاحت کیلئے ماحول سازگار ہے یا نہیں؟ وغیرہ۔ تکلیف کی بات یہ ہے کہ بچوں کی پرورش کے سلسلے میں ہندوستان کو پچھلے سال کے مقابلے اگرچہ بہتر قرار دیا گیا ہے یعنی پچھلے سال ہندوستان ۶۵؍ ویں مقام پر تھا اور اس سال ۵۹؍ ویں مقام پر ہے مگر یہ حیثیت بھی مصر اور داخلی تشدد کا شکار کینیا کو حاصل ہونے والے مقام سے کمتر ہے۔
 ہندوستان میں عصمت دری اور عورتوں کے خلاف تشدد کے جو واقعات مسلسل رونما ہوتے رہتے ہیں ان سے ہندوستان کی ساکھ کا متاثر ہونا ضروری تھا جو متاثر ہوا ہے۔ ان ملکوں میں عورتوں کی سیاست میں شرکت تو دور سماجی امور اور انتظامیہ میں شرکت بھی ایک خواب ہے اور ہندوستان میں تو ایک عورت وزیر اعظم رہ چکی ہے وہ بھی ایسی کے اس نے پورے ایشیا میں اپنا دبدبہ قائم کیا تھا۔ ۲۰۱۸ء میں تھامسن رائٹرس فائونڈیشن نے ہندوستان کو عورتوں کے تحفظ کے معاملے میں سب سے خراب ملک قرار دیا تھا۔ آج بھی یہاں دو چار مہینے پر کوئی ایسا واقعہ منظر عام پر آجاتا ہے جس سے ہر حساس شخص کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ حکومت نے کئی اچھے منصوبے بنائے ہیں۔ لڑکیوں کو آرائش فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، تعلیم اور صحت کیلئے کافی بڑی رقم مختص کی ہے اور تجارت کو فروغ دینے کے سلسلے میں ایسے اقدامات کئے ہیں جن کا استقبال کیا جانا چاہئے اس کے باوجود معیار زندگی، خواتین کے تحفظ، بچوں کی تعلیم جیسے امور میں حالات اب بھی ایسے نہیں ہیں جن پر اطمینان کا اظہار کیا جاسکے۔ سماج میں عدم رواداری کے بعد برے اثرات دیکھے جارہے ہیں۔ ملکی سماج دن بہ دن مختلف حصوں میں تقسیم ہوتا جارہا ہے۔ یہی نہیں مختلف طبقے اور حصے ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے بجائے کشمکش کو ہوا دینے میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ ایسے میں وہی نتیجہ اخذ کیا جانا تھا جو رپورٹ میں اخذ کیا گیا ہے۔ مگر ملک میں کچھ ایسے علاقے اور شہر بھی ہیں جہاں سے اچھی خبریں موصول ہوئی ہیں مثلاً برٹش ملٹی نیشنل میڈیا ’’ دی اکنامسٹ گروپ ‘‘ سے متعلق ’اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ‘ کے سروے کے مطابق ہندوستان کے ۳؍ شہروں میں ترقی اور تبدیلی کی رفتار بہت اچھی ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس ملک میں ممبئی، دہلی، بنگلور میں ترقیاتی پروگراموں کی رفتار سب سے تیز ہے مگر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے تیز رفتار سے ترقی کرنے والا شہر کیرالا کا ملاپورم ہے۔ ۲۰۱۵ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان یہاں ۴۴ء۱؍ فیصد تبدیلی ہوئی ہے۔ اسی ریاست کے کوزی کوڈ اور کولم ۳۴ء۵؍ اور ۳۱ء۱؍ فیصد تبدیلی کیساتھ چوتھے اور دسویں مقام پر رہے۔ گجرات کے سورت اور تمل ناڈو کے تروپور کو چھبیسواں اور تیسواں مقام حاصل ہے۔
 مختلف ماہرین نے اس رپورٹ پر الگ الگ انداز سے رد عمل ظاہر کیا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ چھوٹے شہروں میں ترقی کی رفتار کا تیز تر ہونا اچھی علامت ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان شہروں میں آمد و رفت، تجارت اور رہائش کے علاوہ دوسری سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ واقعہ یہ بھی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب اور معاشی آزادی کی پالیسی پر گامزن ہونے کے بعد چھوٹے شہروں میں ترقی کی رفتار بھی بڑھی ہے اور آئندہ مزید ترقی کے امکانات میں بھی بہتری آئی ہے۔ شہروں کی ترقی کا انحصار اس پر بھی ہے کہ تعلیم، تجارت، ملازمت اور دوسرے کاموں کے سلسلے میں خاص طور پر نوجوان اپنا ذہن اور رویہ کس طرح تبدیل کرتے ہیں۔
 گاندھی جی چاہتے تھے کہ ملک میں دیہاتوں کی ترقی ہو مگر آزادی کے بعد شہروں کو جس رفتار سے ترقی دی گئی اسی رفتار سے اوّل تو دیہاتوں کو ترقی نہیں دی گئی دوم یہ کہ ملازمت، تجارت، تعلیم کے ذرائع مفقود ہونے کے سبب دیہاتوں کے لوگ شہر کی طرف بڑھتے گئے۔ دور دراز کے سفر کئے اور اس طرح شہروں کا بوجھ بڑھتا گیا۔ اس سے گائوں سے شہر میں منتقل ہونے والے کافی لوگوں کو روزی روٹی تو حاصل ہوئی مگر شہر والوں کی زندگی پیچیدگیوں کا شکار ہوتی گئی۔ ۱۹۵۱ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کے ۸۳ء۷؍ فیصد لوگ دیہاتوں میں یا دیہی علاقوں میں رہتے تھے مگر ۲۰۰۱ء آتے آتے دیہی علاقوں کی آبادی گھٹ کر ۷۲ء۱۹ فیصد ہی رہ گئی مگر شہری علاقوں کی آبادی تقریباً پونے دو گنا بڑھ کر ۲۷ء۸۱ فیصد ہوگئی۔ معاشی آزاد روی کا دور شروع ہوا تو دیہی علاقوں کی آبادی مزید کم ہوکر ۶۸ء۸۴ فیصد ہی رہ گئی جبکہ شہری آبادی بڑھتے بڑھتے ۳۱ء۱۶ فیصد ہوگئی۔ آج کا ایک مسئلہ شہری اور دیہی علاقوں کی آبادی کا عدم تناسب بھی ہے۔ موجودہ حکومت نے ’’اسمارٹ شہر ‘‘ کا تصور دیا تھا، اعلانات ہوئے تھے بڑی رقم مختص ہوئی تھی مگر اس کی عملی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں ہے مگر شہروں کا معائنہ کیجئے تو شہر میں بعض ایسے علاقے آباد ہوئے ہیں اور وہاں ایسی تعمیرات ہوئی ہیں جو عصری ضرورتوں کی تکمیل کیلئے ضروری ہیں مگر یہاں مسلمانوں کی تعداد اکا دکا ہے۔ پرانے مسلم محلوں میں ذہن اور گلیاں دونوں تنگ ہوتے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کی جو نئی بستیاں بسائی گئی ہیں وہ قانون کی منظوری کی جگہ اصحابِ اقتدار اور اصحابِ اقتدار کی دلالی کرنے والوں کے رابطے کا نتیجہ ہیں ان کو Regularise کرانے کی اجتماعی جدوجہد نہیں کی گئی ہے۔ سارا معاملہ ’’ فی سلیب ‘‘ اتنے روپے پر چل رہا ہے۔
 مذکورہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کس حال میں رہتے ہیں اس پر دنیا کی توجہ ہے۔ بحیثیت ہندوستانی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے رہنے سہنے کے طریقے میں بہتری پیدا کریں ساتھ ہی حکومت سے بھی مطالبہ کریں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ ملاپورم کی مثال یہ یاد دہانی کراتی ہے کہ امیدکا مرکز بناسکتے ہیں ہم اپنی چھوٹی بستیوں کو اور چھوٹے شہروں کو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK