• Thu, 16 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار اسمبلی انتخاب میں اقتدار کی تبدیلی کے امکانات

Updated: October 16, 2025, 12:30 AM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

بہار میں تین دہائیوں سے جس طرح کی جذباتی سیاست پروان چڑھی ہے اس کا خاتمہ یکبارگی تو نہیں ہوسکتا لیکن اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس بار کے اسمبلی انتخاب میںنئے امکانات روشن ہیں۔

RJD leader Tejashwi Yadav
آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو

بہارقانون ساز اسمبلی انتخاب کیلئے عملی مراحل کی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے ۔ انتخابی کمیشن کے اعلانیہ کے مطابق ریاست میں دو مرحلوں میں پولنگ ہوگی ۔ پہلا مرحلہ ۶؍نومبر کو مکمل ہوگا جب کہ دوسرا مرحلہ۱۱؍ نومبر کوطے پائے گا اور ووٹ شماری ۱۴؍ نومبر کو ہوگی۔ اس لئے دونوں ا تحادیوں یعنی قومی جمہوری اتحاد اور انڈیا اتحاد نے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور پہلے مرحلے کے لئے کئی امیدواروں نے اپنا پرچہ نامزدگی بھی داخل کردیا ہے کہ اس کی آخری تاریخ ۱۷؍ اکتوبر ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب تک قومی جمہوری اتحاد اور انڈیااتحاد دونوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کو لے کر رسہ کشی جاری ہے۔ قومی جمہوری اتحاد کی طرف سے گزشتہ دنوں یہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا کہ ان کے درمیان سیٹوں کی تقسیم ہوگئی ہے اور تمام تر غلط فہمیاں دور کرلی گئی ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل متحدہ کو ۱۰۱؍  سیٹیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو بی ۱۰۱؍  سیٹیں ملی تھیں ۔ چراغ پاسوان کو ۲۹؍  ،جیتن رام مانجھی اور اوپندر کشواہا  کو ۶؍۔۶؍ سیٹیں دی گئی تھیں لیکن نتیش کمار نے لوک جن شکتی پارٹی یعنی چراغ پاسوان کو دی گئی کئی سیٹوں پر امیدوار کھڑے کردئیے ہیں تو دوسری طرف جیتن رام مانجھی نے بھی چراغ پاسوان کے حصے کی دو سیٹوں پر اپنے امیدوار کو انتخابی نشان دے دئیے ہیں ۔ اسی طرح اوپندر کشواہا نے بھی باغیانہ تیور اپناتے ہوئے قومی جمہوری ا تحاد سے الگ ہونے کا اشارہ دیا ہے ۔عظیم اتحاد یعنی انڈیا اتحاد میں بھی رسّہ کشی جاری ہے کہ اب تک راشٹریہ جنتا دل ، کانگریس اور بایاں محاذ کے ساتھ ساتھ مکیش سہنی کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے لہٰذاان کے درمیا ن بھی رسّہ کشی جاری ہے ۔ البتہ نو تشکیل شدہ پرشانت کشور کی سیاسی جماعت جن سوراج نے پہلے مرحلے کی پولنگ کے لئے اپنے تمام امیدواروں کی فہرست جاری کردی ہے ۔غرض کہ اس بار بہار اسمبلی انتخاب میں قومی جمہوری اتحاد اور انڈیا اتحاد کے درمیان ہی بالواسطہ مقابلہ نہیں ہوگابلکہ ۲۴۳؍  سیٹوں والی اسمبلی کیلئےہونے والے انتخاب میں کم از کم ۵۰؍  سیٹوں پر سہ رخی مقابلہ ہونا طے ہے اور یہ تلخ سچائی بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ جن سوراج اور اسد الدین اویسی نے جس طرح اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں اس سے کہیں قومی جمہوری اتحاد کو نقصان ہوگا تو کہیں انڈیا اتحاد کو۔مگر یہ حقیقت عیاں ہے کہ اس بار لوگ باگ اقتدار کی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
  اس لئے بر سر اقتدار قومی جمہوری اتحاد کی نتیش کمار کی حکومت نے آخری وقت میں ریاست کی خواتین کے ساتھ ساتھ ضعیف العمراور نوجوانوں کے لئے طرح طرح کے وظائف اور امدادی رقم جاری کی ہے۔دریں اثناء افواہوں کا بازار گرم ہے کہ ایک بار پھر نتیش کمار اور لالو پرساد ہاتھ ملا سکتے ہیں لیکن ایسا اگر ہوا تو اس کا فائدہ قومی جمہوری اتحاد کو زیادہ ہو سکتا ہے کیوں کہ نتیش کمار کے ذریعہ بار بار پالا بدلنا ان کی صاف وشفاف شبیہ پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔اس لئے انڈیا اتحاد میں شامل کانگریس شاید اپنا پتّہ نہیں کھول رہا ہے اور بایاں محاذ کی پارٹیاں بھی ’’ویٹ اینڈ واچ‘‘ کی سیاست میں ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ امروز فردا میں دونوں اتحاد کے درمیان جس طرح کی رسّہ کشی ہے اس پر دونوں اتحاد قابو پاتے ہیں یا پھر جس طرح کی افواہیں ہیں وہ سچ ثابت ہوں گی اور ایک نئی سیاسی صف بندی کے ساتھ اسمبلی انتخاب ہوں گے۔اس اسمبلی انتخاب میں ایک مثبت فکر فروغ پا رہی ہے کہ بیروزگار نوجوانوں نے اپنے مسائل کے حل کے لئے اقتدار کی تبدیلی کو لازمی سمجھ رہے ہیں اور جب سے راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر تیجسوی یادو نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر انڈیا اتحاد کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو ہر ایک خاندان سے ایک نوجوان کو سرکاری ملازمت دی جائے گی۔اس لئے چوک چوراہوں پر بیروزگار نوجوان اس انتخابی عمل کو اپنے مسائل کے حل کیلئے نہ صرف بحث ومباحثہ کر رہے ہیں بلکہ وہ اقتدار کی تبدیلی بھی چاہتے ہیں ۔ریاست میں اٹھارہ فیصد مسلم اقلیت ہے اور بالخصوص شمالی بہار کے سیمانچل کے اضلاع کشن گنج،پورنیہ ، ارریہ ، سپول ، سہرسہ اور مدھے پورہ میں بھی یہ باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ اس بار ایسے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالے جائیں جو علاقائی مسائل کو حل کرنے میں معاون ہوں اور گزشتہ تین دہائی سے ریاست میں جو مذہبی جنون کی سیاست پروان چڑھی ہے اس پر بھی نکیل کسا جا سکے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں اتحادیوں کے درمیان چل رہی رسّہ کشی کے خاتمے کے بعد کس طرح کی شبیہ کے امیدوار میدان میں آتے ہیں۔اب تک دونوں اتحادی جن سوراج کو بہت ہلکے میں لے رہے تھے لیکن ان کے امیدواروں کی فہرست جاری ہونے کے بعد دونوں اتحادکیلئے ایک فکرمندی لاحق ہوگئی ہے کہ وہ داغدار امیدواروں سے پرہیز کریں۔مگر تلخ سچائی تو یہ ہے کہ بہار کی سیاست کا محور ومرکز ذات پات کی سیاست ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے امیدوار ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو رہے ہیں جن کے پاس روپے کا انبار ہے اور وہ بے دریغ  خرچ کرنے کو تیار ہیں۔ اب تک انڈیا اتحاد اور قومی جمہوری اتحاد کے ممکنہ امیدواروں کی فہرست دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کی فضا تیار تو ضرور ہو رہی ہے لیکن اگر امیدواروں کے انتخاب میں سنجیدگی نہیں برتی گئی تو نتیجہ مایوس کن بھی ہو سکتا ہے ۔
 بہر کیف!ریاست بہار میں گزشتہ تین دہائیوں سے جس طرح کی جذباتی سیاست پروان چڑھی ہے اس کا خاتمہ یکبارگی تو نہیں ہوسکتا لیکن اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس بار کے اسمبلی انتخاب میںنئے امکانات روشن ہیں، بس شرط یہ ہے کہ انڈیا اتحاد اپنے امیدواروں کے انتخاب میں علاقائی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ لیں اور اپنے اتحادی امیدواروں کے ساتھ ایماندارانہ کردار ادا کریں کیوں کہ گزشتہ اسمبلی انتخاب کے نتائج میں یہ حقیقت واضح ہوئی تھی کہ قومی جمہوری اتحاد کے مقابلے عظیم ا تحاد میں شامل سیاسی جماعتوں نے اپنے اتحادی امیدواروں کے لئے اتنی محنت نہیں کی جتنی کہ وہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لئے کی تھی۔ اگر اس اسمبلی انتخاب میں بھی اسی طرح کی غلطی ہوئی تو اس کاخمیازہ اتحادیوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے اور عوام کی اکثریت کو مایوسی ہاتھ لگ سکتی ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ امیدواروں کے انتخاب کے ساتھ ساتھ اپنے ا تحادیوں کے ساتھ ایماندارانہ کوشش بھی کریں تاکہ ریاست میںخوشگوار سیاسی فضا کا احساس ہو سکے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK