۲۰۱۰ء سے بہار میںمردوں کے مقابلے خواتین رائے دہندگان کے ووٹوں کا فیصد لگاتار بڑھ رہا ہے، ریاست میںخواتین اور نوجوانوں کیلئے کئی اسکیمیںنافذ ہیں ، پارٹیاںبھی انہیں راغب کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہیں۔
بہار میں خواتین ووٹروں میں کافی بیداری آئی ہے۔ تصویر: آئی این این
دونوں بڑے اتحاد’ انڈیا ‘اور’این ڈی اے‘ بہار انتخابات میں خواتین اور نوجوانوں کے ووٹوں کی اہمیت سے واقف ہیں۔ تاہم حکمراں اتحاد نے خواتین ووٹروں کو لبھانے میںبازی مار لی ہے۔ ’چیف منسٹر ویمن ایمپلائمنٹ اسکیم‘ کے تحت، ریاست کی کل خواتین رائے دہندگان کے تقریباً۲۲؍ فیصد کو ۱۰؍ ہزار روپے کی رقم دی جاچکی ہے۔ اس اسکیم کا مقصد ریاست کی ایک کروڑ ۲۱؍ لاکھ خواتین کو فائدہ پہنچانا ہے۔
کیا مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کی تاریخ جمہوریت کی مادر وطن بہار میں دہرائی جانے والی ہے؟ ماضی کے تجربات اور حکمراں اتحاد کی حکمت عملی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ووٹر کسے اقتدار سونپیں گے، یہ تو ۱۴؍ نومبر کو ہی سامنے آئے گا لیکن یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہےکہ خواتین رائے دہندگان کا ٹرن آؤٹ بہار کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کا تعین کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا ۔ علاوہ ازیں نوجوان بالخصوص پہلی بار ووٹ دینے والے بھی اس میں اہم کردار ادا کریں گے۔
اگرچہ بی جے پی نے پہلے اپوزیشن کی حکمرانی والی ریاستوں میں اس طرح کی اسکیموں کو مفت کی ریوڑی بتا کر ان کی مخالفت کی تھی لیکن اب وہ خود ایسی ہی اسکیمیں لا رہی ہیں۔ چھتیس گڑھ کی جیت میں ’مہتاری وندن یوجنا‘ اور مدھیہ پردیش کی جیت میں ’لاڈلی بہن یوجنا‘ کے کردار سے شاید ہی کوئی پارٹی انکار کر سکے۔ ان اسکیموں کا متعلقہ ریاستوں کے علاوہ ملک بھر چرچا رہا ہےاور اس کے نتائج دیکھے گئے ہیں۔ لاڈلی بہن اسکیم نے دیگر عوامل کے ساتھ مہاراشٹر میں بھی بی جے پی اتحاد کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ ’وزیر اعلیٰ مئیاسمان یوجنا‘ نے جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین حکومت کی واپسی میں اہم کردار ادا کیا۔
گزشتہ چند انتخابات میں خواتین نے ووٹنگ میں مردوں کی پیروی کرنے کے تصور کو نہ صرف توڑا ہے بلکہ وہ بڑھ چڑھ کر انتخابات اورانتخابی سرگرمیوں اور بالخصوص رائے دہی میں حصہ لے رہی ہیں ۔ بہار میں گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران ۵۹ء۶۹؍فیصد خواتین ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا جب کہ مرد ووٹر ٹرن آؤٹ صرف ۵۴ء۴۵؍فیصد رہا۔ بہار جیسی ریاست میں جہاں خواتین کی شرح خواندگی کم ہے، ایسی سیاسی بیداری واقعی قابل ستائش ہے۔ بہار میں۲۰۱۰ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد سے خواتین توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ اس وقت ۵۱ء۱۲؍فیصد مرد رائے دہند گان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ ۵۴ء۴۹؍فیصد خواتین ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
اسی طرح۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخابات میں ۵۳ء۳۲؍ فیصد مردجبکہ ۶۰ء۴۸؍ فیصد خواتین نے حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔ اس بار، بہار میں تقریباً۳۵؍ ملین خواتین ووٹر ہیں جبکہ مردووٹروں کی تعداد ۳۹ء۲؍ملین ہے ۔ بہار میں جہاں نقل مکانی کا مسئلہ ہے، مرد را ئے دہندگان دراصل اقلیت میں ہیں۔ یہاں تک کہ ووٹر لسٹ میں درج افراد بھی بیرون ریاست یا ملک روزی کمانے پر مجبور ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہار کی اگلی حکومت کی تشکیل میں خواتین کا اہم کردار ہوگا۔ نتیش کمار نے خواتین کے مطالبے پر ہی ریاست میں شراب بندی نافذ کی تھی ۔ تنقید کے باوجود اگر نتیش اس اسکیم کو جاری رکھے ہوئے ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیںخواتین ووٹروں پر بہت زیادہ اعتماد ہے۔
اس بار بہار میں ۱۴؍لاکھ ووٹر پہلی بار اپنا ووٹ ڈالیں گے ۔ اسی سبب تیجسوی یادو نوجوانوں کی بے روزگاری کا مسئلہ بار بار اٹھا رہے ہیں ۔ وہ اپنی حکومت بننے پر بڑی تعداد میں نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ بھی کر رہے ہیں۔ اپنے آپ کو نوجوانوں کا حامی ثابت کرنے کیلئے تیجسوی ان ملازمتوں کے دستاویزات کا حوالہ دینے کا موقع نہیں گنوا رہے ہیں جو ا نہوں نے نتیش کمار کے ساتھ اپنے دور حکومت میں میں تقسیم کیے تھے۔ نقل مکانی بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جو نوجوانوں سے زیادہ متعلق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کیمپ اسے ایشو بنانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے ۔ پرشانت کشور ووٹنگ میں نوجوانوں کی طاقت کو سمجھتے ہیں، شاید اسی لیے وہ بار بار اس مسئلے کو اٹھا رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہار کی سیاست بھی دبی زبان میں سہی ، اب انہی مسائل کے پیچھے کھڑی ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس لیے اس الیکشن میں خواتین کے ساتھ ساتھ نقل مکانی بھی اہم ترین موضوع ہے جس پر دونو ں پارٹیوں کی نظریں ہیںاور بہار کے ووٹروں کے بیرون ریاست روزگار کیلئے جانے کا معاملہ ایس آئی آر میں صاف نظر آیا ۔
الیکشن کمیشن نے بہار میں اپنی اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر) مہم شروع کی ہے۔ کانگریس سمیت پورا اپوزیشن اس کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ راہل گاندھی نے اس مہم کے ذریعے’ ووٹ چوری‘کاتصور پیش کیا ۔ اپوزیشن کیمپ اس معاملے کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ اس کا مقصد اسے بے مقصد قراردینا ہے۔ اپوزیشن بھی خواتین کے احترام کے بہانے نتیش کمار حکومت کو گھیر کر عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ جہاں تک حکمراں جماعت کا معاملہ ہے تو وہ اسے اپوزیشن کا پروپیگنڈہ قرار دے کر اسے حاشیہ پر کرنے کی شدت سے کوشش کر رہی ہے۔ انتخابات نہ صرف سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کیلئے بلکہ ان کے حامیوں کے لیے بھی کئی طرح کی امیدیں لے کرآتے ہیں۔ ان امیدوں کو پورا کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں پولنگ کے دن تک اپنے بنیادی ووٹروں کو راغب کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گی۔ اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گزشتہ تین انتخابات کی طرح خواتین ووٹرس ہی فیصلہ کن کردار ادا کریں گی اور اس میں اب نوجوان بھی ان کا ساتھ دیں گے۔
(بشکریہ پربھات خبر)