مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی اس سیریز کی ۵؍ ویں قسط میںمشہور شاعر اور نغمہ نگار منگیش پڈگائونکر کا ایک اور دل میں اتر جانے والا گیت پڑھیں
EPAPER
Updated: August 07, 2023, 10:48 AM IST | Pradeep Niphadkar | Mumbai
مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی اس سیریز کی ۵؍ ویں قسط میںمشہور شاعر اور نغمہ نگار منگیش پڈگائونکر کا ایک اور دل میں اتر جانے والا گیت پڑھیں
تمام اہل اُردو اور دوستوں کو میرا آداب۔ گزشتہ ہفتے ہم نے مراٹھی کے غالبؔ کہلانے والے مشہور شاعر و نغمہ نگار سریش بھٹ کا تحریر کردہ نغمہ ملاحظہ کیا تھا۔ انہوں نے ویسے تو بے شمار مشہورنغمے لکھے اور شاعری کے دیگر فارم میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے لیکن نغمہ نگاری میں انہیں جو ملکہ حاصل تھا وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔ اس ہفتے ہم مراٹھی کے معروف شاعر منگیش پڈگائونکر کا لکھا ہوا ایک اور شاندار گیت آپ تک پہنچائیں گے ۔ یہ گیت بچپن کے کھیل اور اس دوران ہونے والی معصوم محبت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ یاد رہے کہ منگیش پڈگائونکر کا ایک مشہور گیت ۲۴؍ جولائی کو بھی ہمارے قارئین نے ملاحظہ کیا تھا جس کے بول تھے :
شراونات برسلا رم جھم، ریشم دھارا۔
ہاں !تو بات کرتے ہیں اس گیت کی جس میں بچپن کے کھیل اور بچپن کی معصوم محبت کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔بچپن کے دن بڑے لبھائونےہوتے ہیں۔ ’’بچپن کے دن بھلانہ دینا، آج ہنسے کل رُلا نہ دینا ‘‘ یہ گیت مشہور شاعر شکیل بدایونی لکھ چکے ہیں لیکن بچپن کا پیار کبھی عمر بھر نہیں رہتا۔ بچپن میں جو وعدے کئے جاتے ہیں جو قسمیں کھائی جاتی ہیں اسے بہت کم لوگ نبھاپاتے ہیں اور پھر رونا تو نصیب میں لکھا ہی ہے۔ ایسا ہی کچھ منگیش کیشو پڈگائونکرنے اپنے اس گیت میں لکھا ہے۔ منگیش پڈگائونکر کے بارے میں ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ وہ مراٹھی کے مشہور شاعر، گیت کار اور مصنف تھے۔ انہیں مراٹھی ادب کی اُن قد آور شخصیتوں میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے مراٹھی ادب کو منّور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ مارچ ۱۹۲۹ء میں مہاراشٹر کے خطۂ کوکن کے سندھو درگ ضلع کے مشہور گائوں وینگورلا میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی وینگورلا ہے جہاں کے ساحل سیاحوں کو گوا کے ساحلوں سے بھی زیادہ خوبصورت لگتے ہیں۔ منگیش پڈگائونکر کے گیت الفاظ اور خیال کی سادگی لیکن معنی کی گہرائی کے لئے یاد کئے جاتے ہیں۔ ان کے مشہور گیتوں میں ’ یا جنما ور یا جگنیاور شتدا پریم کراوے‘،’سندر چاکلیٹ چا بنگلہ‘ اور’ بھاتکولی چیا کھیڑا مدھلی راجا آنیک رانی ‘ شامل ہیں۔ منگیش جی کوملک کے اعلیٰ ترین شہری اعزازات میں سے ایک پدم شری سے نوازا جاچکا ہے جبکہ انکے شعری مجموعے ’سلام ‘ کے لئے انہیں ۱۹۸۰ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ۔ ۲۰۱۵ء میں ممبئی میں منگیش پڈگائونکر کا انتقال ہوا۔
یہ بھی پڑھئے: یوم آزادی پر ملاحظہ کریں قومی یکجہتی کے رنگ میں ڈوبا ہوا گیت
’بھاتکولی چیا کھیڑا مدھلی راجا آنیک رانی ‘ گیت کو یشونت دیوجی نے موسیقی سے سجایا ہے اور ارون داتے نے اسے اپنی آواز دی ہے۔ یہ گانا ورنداونی سارنگ راگ میں ہے۔ موسیقی کا یہ معروف راگ بالی ووڈ کی فلموں میں بھی کافی استعمال ہوا ہے۔ عظیم موسیقار نوشاد صاحب نے اسے ’’آجا میرے برباد محبت کے سہارے‘‘، اور ’’ساون آئے یا نہ آئے‘‘ جیسے گیتوں میں بہترین طریقے سے استعمال کیا ہے۔ ’’جادوگر سیّاں چھوڑو موری بیّاں ‘‘، اس گیت میں ہیمنت کمار نے اسی راگ ورنداونی کا استعمال بخوبی کیا ہے۔ آئیے سنتے ہیں ’’بھاتکولی چیا ....‘‘
بھاتکولی چیا کھیڑا مدھلی راجا آنیک رانی
اردھیا ورتی ڈائو موڑلا ، ادھوی ایک کہانی
بھاتکولی کا مطلب ہے بچپن میں لڑکیوں کے لئے رسوئی گھر کے جو کھلونے بنائے جاتے ہیں ۔ یہ کھیل اور کھلونے کھانے پکانے اورگھر سنبھالنے کی تربیت کی درمیان کھیلے جاتے ہیں۔ ایسی بھاتکولی کھیلنے والوں کی یہ کہانی ہے۔ ایسے کھیل میں ایک راجا تھا اور ایک رانی تھی ۔ ان کا کھیل بھی ادھورا رہ گیا اور ان کی کہانی بھی ادھوری رہ گئی ۔
راجا ودلا ملا سمج لی ،شبدا واچون بھاشا
ماجھیا نشیبا سوے بولتی تجھیا ہاتاچیا ریشا
کا ،رانی چا ڈولا تیہوا داٹونی آلے پانی
راجا نے کہہ دیا تھا ، مجھے بغیر لفظوں کا تمہارا طریقہ ، تمہاری زبان سمجھ آگئی ہے۔ میرے نصیب کے ساتھ تیرے ہاتھ کی لکیریں بول رہی ہیں۔ تمہارے ہاتھوں کی ریکھائیں میرے بھاگیہ سے جڑی ہوئی ہیں۔ یعنی ہمارے نصیب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت رانی کی آنکھوں میں آنسو کیوں بھر آئے؟ پتہ نہیں شائد اسے اپنی قسمت کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔
رانی ودلی بگھت ایک ٹک دور دور چا تارا
’’ادیا پہاٹے دوسریا واٹا ، دوجچیا گاوچا وارا ‘‘
پن راجا لا اشیرا کڑلی گوڈ اٹل ہی وانی
پھر رانی نے بہت دور کا ایک تارا دیکھ کر اور سوچ کر جواب دیا۔ کل صبح ہمارا راستہ الگ ہو گا اور آپ کا بھی ۔ ہماری راہیں الگ ہوں گی۔ لیکن راجا کو اس کا یہ کہنا اس وقت سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔ رانی کے لفظوں میں جو ٹیس تھی وہ اس وقت سمجھ نہیں پایا۔ مگر راجا نے اس بات کا مطلب سمجھنے میں بہت دیر کردی ۔ راجا کو اس بات کا تب پتہ چلا جب وقت نکل گیا تھا ۔
تِلا وچاری راجا ’’کا ہے چیو اسے جوڑاوے؟‘‘
کا ،دَیوانے فلنیا آدھی پھول اسے توڑا وے؟
یا پرشنالا اتّر نوہتے ،رانی کیول وانی
اسے راجا نے پوچھا’’ کیوں یہ دل لگانا ہو تا ہے ؟ ، دو دل کیوں جڑ جاتے ہیں؟ کیسا نصیب ہے جو محبت کا پھول کھلنے سے پہلے توڑ دیتا ہے۔ کیوں ؟ راجا پوچھتا ہے کہ خدا نے وقت سے پہلے اس رشتے کو کیوں توڑ دیا۔ رانی غمگین ہے کیوں کہ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ رانی بے چاری بس چپ چاپ اور اداس بیٹھی رہی ۔
کا، رانی نے مٹلے ڈوڑے دور دور جاتانا ؟
کا ، راجا چا شواس کونڈلا گیت تیچے گاتانا ؟
واریاورتی ورِون گیلی ایک اداس ویرانی
دور جاتے وقت رانی نے آنکھیں کیوں موند لیں؟ گیت گاتے وقت راجا کی سانس کیوں اٹک رہی تھی ؟ راجا کا دَم کیوں گھٹ گیا ؟ راجا اپنے سپنے ٹوٹتے ہوئے دیکھ کر یہ صدمہ سہ سکا؟ وقت کے ساتھ ہوا میں ایک اداس ویرانی پھیل گئی ۔ غمگین ماحول بناکر کہانی ختم ہوئی ۔ وقت کے ساتھ یہ نہ جانے کہاں کھوگئی۔
یہ بھی پڑھئے: اس عاشقانہ گیت کا انداز فلمی مگر گلوکاری اور موسیقی لاجواب ہے