ملک کے مشہور سنت تکڑوجی مہاراج کا تحریر کردہ یہ گیت امرائوتی یونیورسٹی کا گیت بھی ہے۔ مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی سیریز کی چھٹی قسط
EPAPER
Updated: August 14, 2023, 1:58 PM IST | Pradeep Niphadkar | Mumbai
ملک کے مشہور سنت تکڑوجی مہاراج کا تحریر کردہ یہ گیت امرائوتی یونیورسٹی کا گیت بھی ہے۔ مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی سیریز کی چھٹی قسط
مہاراشٹر میں بہت سے سنت ہوئے ہیں ۔ ان میں ایک سے نام ہے تکڑوجی مہاراج کا ،جن کی عظمت اور خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان کا اصل نام مانک بانڈوجی اِنگلے تھا ۔ وہ مہاراشٹر کے عظیم سنتوں میں سے ایک تھے۔ ان کی پیدائش ۱۹۰۹ء میں جبکہ موت ۱۹۶۸ء میں ہوئی ۔ تکڑوجی مہاراج کوملک کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے۱۹۵۵ء میں ’راشٹریہ سنت ‘ کا خطاب دیا تھا ۔ تکڑوجی مہاراج نے اجتماعی اور کثیر مذہبی دعائیہ مجلسوں کے انعقاد پر کافی زو ر دیا ۔ اس کے ذریعے انہوں نے سماج میں بھائی چارہ کو فروغ دینے کی کوشش کی ۔
سنت تکڑوجی مہاراج کی عبادت کا طریقہ واقعی منفرد تھا اور اسی وجہ سے وہ تمام مذاہب کےماننے والوں کے درمیان نہایت عقیدت سے دیکھے جاتے تھے۔ اجتماعی دعائیہ مجلسوں کے تعلق سے ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ معاشرے کومحبت کی زنجیروں میں باندھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے ملک سے فرقہ پرستی اور نفرت کے زہر کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی معاشرے میں بھائی چارہ بڑھ سکتا ہے اور میل ملاپ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سنت تکڑوجی مہاراج نے مراٹھی اور ہندی دونوں ہی زبانوں میں ۳؍ ہزار بھجن ، دو ہزار ابھنگ اور متعدد دیگر اصناف میں مشق سخن کے علاوہ مذہبی ، سماجی ، قومی اور تعلیمی موضوعات پر۶؍ سو سے زائد مضامین تحریر کئے۔ کل ۱۵؍اگست یعنی ہمارا یوم آزادی ہے اور اسی مناسبت سے ہم ان کا تحریر کردہ ایک گیت سنتے ہیں جو وطن پرستی اور قومی یکجہتی کے جذبے سے سرشار خصوصی دعا ہے اور پورے ملک میں مشہور ہے۔یہ گیت بعد میں امرائوتی میں واقع مشہور سنت تکڑوجی مہاراج یونیورسٹی نے بھی ’یونیورسٹی گیت ‘ کے طور پر اختیار کیا ۔گیت ملاحظہ کریں :
یا بھارتات بندھو بھائو نرتیہ وسو دے، دے ورچی اَسا دے
ہے سرو پنتھ ،سمپرادائے ایک دِسو دے مت بھید نسو دے
(اس ملک میں یکجہتی ،بھائی چارہ ہمیشہ قائم رکھ ۔ محبت میں اضافہ کر۔ ملک کےتمام فرقوں کو ایک نظر آنا چاہئےاوران میں کوئی آپسی اختلاف نہ ہو۔)
ناندوت سکھے غریب امیر ایک متانی
مگ ہندو اَسو ،کرسچن و ا ہو اِسلامی
سواتنتریہ سُکھا یا سنکلا ماجی وسو دے
دے ورچی اسا دے
(یہاں غریب اور امیر خوشی اور امن سے رہیں ۔ سب ہمیشہ مضبوط اور متفق رہیں ۔ چاہے وہ ہندو ہوں ، عیسائی ہوں یا مسلمان۔ آزادی کی خوشی سب میں رہے ۔ یہی نعمت عطا کیجئے۔ )
سکڑانس کڑو ،مانوتا راشٹر بھائونا
ہو سرواستھلی مڑون سمودائے پرارتھنا
ادیوگی ترون ویرشیلوان اتھے اسودے
دے ورچی اسا دے
یہ بھی پڑھئے: اس عاشقانہ گیت کا انداز فلمی مگر گلوکاری اور موسیقی لاجواب ہے
(انسانیت اوروطن دوستی سے ہر خاص و عام مغلوب ہو،پیار محبت بڑھے، ہر جگہ اجتماعی دعا ہوتی رہے۔ اپنے اپنے کاموں میں مصرو ف بہادر نوجوانوں کو اچھے کردار عطا کردے۔ یہی نعمت عطا فرمائیے۔)
جاتی بھائو وِسرونیا ایک ہو آمہی
اَسیر شیتا سموڑ نشٹ ہو جگاتونی
کھل نندکا منیہی ستیہ نیائے وسو دے
دے ورچی اسا دے
(یہ ذات پرستی بھول کر ہم ایک ہوجائیں ۔نفرت کو چھوڑ کر ایک ہو جائیں ۔دنیا سے چھو اچھوت کو ختم کردے۔ دشمن کے دماغ میں بھی حق اور انصاف بسنے دے۔ ایسی ہی نعمت عطا فرمائیے۔)
سوندریہ رمو گھرگھرانت سورگیاپری
ہی نشٹ ہوئو دے وپتّی ، بھیتی باوَری
تکڑیاس سدایا سیوے ماجی وسودے
دے ورچی اسا دے
(ہر گھر میں خوبصورتی اور محبت کو جنت کی طرح رہنے دے۔ غیرملکیوں کا ڈر اور یہ آفت تباہ ہو جائے۔ ملک کو ترقی ملے ۔ یہاں ’تکڑیاس‘ کا مطلب سنت تکڑوجی نے اپنے تخلص کا استعمال کیا ہے۔ وہ خود سے مخاطب ہیں ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تکڑیا ہر روز ، ہر دن آپ کی خدمت میں ، آپ کی سیوا میں محنت کرتا رہے، ایسی ہی نعمت عطا فرمائیے۔