اچھی تربیت اولاد کے ساتھ انصاف کرنا ہے چنانچہ جن کو اللہ نے اولاد کی دولت عطا کی ہے اُنہیں تربیت کا فن سیکھنا اور سمجھنا چاہئے کہ وہ کیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 08, 2023, 2:58 PM IST | Kashif Ahmad Jami | Mumbai
اچھی تربیت اولاد کے ساتھ انصاف کرنا ہے چنانچہ جن کو اللہ نے اولاد کی دولت عطا کی ہے اُنہیں تربیت کا فن سیکھنا اور سمجھنا چاہئے کہ وہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد ہے۔ اگر انسان اس نعمت پر محنت کرے بصورت تربیت تو یہ نیک اولاد کی شکل میں نعمت عظمیٰ بن جاتی ہے، اگر ان کی تربیت کے حوالے سے غفلت برتی تو یہ نعمت زحمت بن جاتی ہے۔ جس طرح کمہار مٹی پر پرسکون ہو کر محنت کرتا ہے جس کے نتیجے میں عمدہ برتن سامنے آتے ہیں اور گھروں کی زینت بن جاتے ہیں ، اگر وہی کمہار اپنے کام میں بے توجہی دکھائے اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرے تو اس کے نتیجے میں آنے والا برتن معاشرہ کیلئے بے فائدہ ثابت ہوگا۔ بالکل اسی طرح اگر والدین اپنے بچوں کی تربیت پر خاص توجہ نہ دیں اور اپنی بنیادی ذمہ داری کو نہ سمجھیں تو معاشرے کا مستقبل برباد ہوجاتا ہےاور اگر بچوں کی پرورش کا پورا پورا خیال کریں ، ان کی اچھی تربیت کریں تو یہ افراد سازی کا طریق ہے، اس سے معاشرہ کا مستقبل روشن ہو جاتا ہے۔
ہر انسان پر اپنی اور اپنے اہل وعیال کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
’’ اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔‘‘(سورہ تحریم:۶)
نیز اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’سن لو! تم سب نگہبـــــان ہو اور تم سب اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہو ۔‘‘(مشکوٰۃ شریف )
قرآن و سنت سے معلوم ہوا کہ ہر شخص پر ذمہ داری ہے۔ والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری اولاد کی اعلیٰ تربیت ہے اور یہ عمل ماں باپ پر ہی سب سے زیادہ منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس انداز میں اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں کیونکہ بچے کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہیں ۔ ان پر جو بھی لکھا جائے وہ نقش ہو جاتا ہے۔ تربیت کا یہ عمل بہت ہی محنت طلب اور صبر آزما ہے لہٰذا اس حوالے سے کچھ نکات پر روشنی ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت کیسے ہو۔
تربیت کی ابتداء
ہمارے معاشرے میں یہ غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ تربیت کی ابتداء تب ہوتی ہے جب بچہ سمجھدار ہو جائے اور باتوں کو قبول کرنے والا ہو جائے۔ اس کے بعد ہی اس کی تربیت پر توجہ دی جائے ۔ یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ بچے کی تربیت تو شکم ِ مادر سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ جب حمل چار مہینے کا ہو جاتا ہے تو اس بچے میں روح ڈال دی جاتی ہے اور وہ شکم ِ مادر میں اپنی ماں کی دھڑکنوں کو سنتا ہے اور باہر کے ماحول کا اس پر اثر پڑتا ہے اگر خارج کا ماحول خوشگوار نہ رہا تو بچہ مستقبل میں چڑچڑا اور غصے والا بن جاتا ہے۔ اس فطری پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اس وقت ماحول نہایت ہی اچھا اور خوشگوار بنایا جائے تاکہ ماں بھی خوش رہے اور اس کا بچہ بھی خوشی سے پروان چڑھے۔ ماں کے لئے بہتر یہ ہے کہ قرآن کی خوب تلاوت کرتی رہے اور اس کی زبان ذکر الٰہی سے تر رہے۔
بامعنی نام رکھنا
عموماً اسماء کا اثر مسمی (جس کا نام رکھا جاتا ہے) کی ذات پر پڑتا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ بچوں کے نام اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء پر یا حضور اکرم ﷺکے القابات پر رکھیں یا پھرانبیاء کرامؑ، صحابہ کرامؓ اور بزرگان دین کے نام پر رکھیں تاکہ ان کی تمام برکتیں حاصل ہوں اور بچے اپنے نام کی طرح صفات جمیلہ کے حامل بنیں ۔ نام رکھتے وقت کسی عالم دین سے ضرور مشورہ کریں اور ’حضرت گوگل‘ سے پرہیز کریں۔
معرفت ِ الٰہی سے روشناسی
سب سے پہلے اپنے بچوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کرائیں ، انہیں بتائیں کہ ہم سب کو پیدا کرنے والا اللہ ہے، ہر چیز کو پیدا کرنے والا اللہ ہے، زمین، آسمان، چاند،سورج، ستارے، شجر و حجر حتیٰ کہ پوری کائنات کا وہی خالق ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ یہ بھی بتائیں کہ اللہ ہمارے ہر عمل سے واقف ہے اور وہ اچھے کام پر ثواب اور برے کام پر عذاب دیتا ہے لہٰذا ہمیں برے کاموں سے بچنا چاہئے۔ یہ عمل اس وقت کارآمد ہوگا جب والدین بھی اللہ سے خائف ہوں۔
موبائل سے دوری
بچوں کو اس وقت تک موبائل نہیں دینا چاہئے جب تک وہ سمجھدار نہ ہو جائیں لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ جب بچہ رونے لگتا ہے تو گھر والے اس کے ہاتھوں میں موبائل تھما دیتے ہیں ، پھر یہی اس بچے کی عادت بن جاتی ہے۔ یعنی جو چیز اس کےہاتھ میں بلوغت کے بعد آنا چاہئے تھی وہ پہلے ہی اسے دستیاب کرادی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں بچوں کی اخلاقیات پر اثر پڑتا ہے وہیں ان کی جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔
کھیل کود کا موقع
بچوں کو ہر وقت پڑھائی کے لئے مجبور نہ کیا جائے بلکہ انہیں کھیل کود کے مواقع بھی دیئے جائیں اور اس سلسلے میں اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ انسان کے لئے جسمانی ورزش بھی ضروری ہے۔ جب بچے کا ذہن تروتازہ ہوجائے گا تو پھر وہ دلجمعی سے پڑھائی کرے گا اور صحت مند اور تندرست رہے گا۔ اس عمل سے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
مشوروں میں بچوں کی شمولیت
بچوں سے مشورہ لینے کا درس ہمیں قرآن سے ملتا ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنا خواب سنایا تھا اور ان سے دریافت کیا کہ ’’ اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں ، سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ ‘‘ اس پر اسماعیل علیہ السلام نے مثبت جواب دیا کہ ’’ابّاجان! وہ کام (فوراً) کر ڈالئے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ ( سورۃ الصافات:۱۰۲) اس سے پتہ چلا کہ بچوں سے مشورہ ضرور لینا چاہئے۔ اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوگی اور انہیں احساس ہوگا کہ ان کی بھی گھر میں عزت ہے نیز اس عمل سے ان میں احساس ذمہ داری بھی پیدا ہوگا۔
زیادہ سختی اور بُری صحبت نقصان دہ
اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر ضرورت سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچے اندر ہی اندر گھٹن محسوس کرتے ہیں اور بعض دفعہ زیادہ ڈانٹنے کی وجہ سے وہ ڈھیٹ بن جاتے ہیں لہٰذا ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کے ساتھ نرم رویہ رکھیں ، بلاشبہ وقتاً فوقتاً سختی بھی دکھائیں لیکن عموماً نرمی سے ہی کام لیں ۔ اگر بچہ غلطی کرکے اس کا اقرار کرے تو اس کو ماریں نہیں بلکہ تنبیہ کریں اور سچ بولنے پر اس کی تعریف کریں ۔ اگر آپ نے اقرار جرم پر اسے مارا تو دوبارہ وہ کبھی آپ سے سچ نہیں بولے گا۔ اسی لئے والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کریں تاکہ بچے ہر بات والدین سے کھل کر کہہ سکیں ۔ یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ کسی سے اپنے بچوں کا موازنہ نہ کریں اور کوئی مہمان بیٹھا ہو یا پڑوسی سامنے ہوں یا اہل قرابت درمیان میں ہوں تو ان کے سامنے ان سے ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے یعنی جیسا اس کا دوست ہوگا ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اچھوں کی صحبت اچھا بناتی ہے اور بروں کی صحبت بُرا بنا دیتی ہے اس لئے والدین کے لئے یہ امر ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دوستی کے دائرے کا جائزہ لیتے رہیں۔
ادب و احترام
کبھی والدہ بچوں کو ان کے والد کے متعلق بتائیں کہ آپ کے والد آپ کےلئے بڑی محنت کرتے ہیں ، جو چیزیں آپ کو ملتی ہیں اس کی قدر کریں کہ وہ بڑی محنت و مشقت سے کمائی جاتی ہیں ، جو نعمتیں آپ کو حاصل ہیں ہزاروں بچے ان کی تمنا کرتے ہیں مگر انہیں وہ ملتی نہیں ہیں ، آپ کو میسر ہیں تو یہ سب آپ کے والد کی قربانیاں ہیں لہٰذا اپنے والد کا ادب و احترام کریں ۔ اسی طرح والد بھی تنہائی میں بچوں کو اپنی والدہ کا احترام کرنا سکھائیں ، انہیں بتائیں کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے، جن بچوں سے ماں باپ راضی ہوتے ہیں ان سے اللہ بھی راضی ہوتا ہے اور جن سے ماں باپ ناراض ہوتے ہیں ان سے اللہ بھی ناراض ہوتا ہے لہٰذا آپ اپنی والدہ کو کبھی ناراض نہ کریں کیونکہ وہ آپ کی ہر ممکن خدمت کرتی ہیں ، صبح سے شام تک آپ کے لئے مصروف رہتی ہے وغیرہ۔ اس طرح والد اُن میں والدہ کے احترام کی شمع روشن کریں اور والدہ، والد کے بارے میں اُن کے دلوں میں عزت کا جذبہ بیدار کریں۔
مندرجہ بالا تمام چیزیں اس وقت کارگر ثابت ہونگی جب والدین بھی ان صفات سے متصف ہوں گے۔ اگر والدین خود کاذب اور غیر امین ہیں تو ان کی یہ تمنا لغو ہے کہ ان کی اولاد صادق و امین ہوگی۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ رزق حلال ہی کو اختیار کریں اور حرام سے محفوظ رہیں۔ ہم اپنےبچوں کی کتنی ہی اچھی تربیت کر لیں لیکن رزق حرام سے نہ بچ سکے تو اولاد میں اس کمی کی جھلک نظر آہی جائےگی۔
حاصل کلام
اولاد کی اچھی تربیت انہیں والدین کیلئے صدقہ جاریہ بھی بناتی ہے جیسا کہ اس حدیث شریف سے واضح ہے: ’’ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین کاموں کے سوال اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے: (۱)صدقہ جاریہ(۲)وہ علم جس سے استفادہ کیاجائے اور (۳)نیک اولاد جو اس کیلئے دُعا کرے۔ (مسلم شریف، مشکوۃ شریف)