Inquilab Logo

بچوں کا کھیل کود: اسلامی اُصول اور ہمارا رُجحان

Updated: June 19, 2020, 4:14 AM IST | Mudassir Ahmed Qasmi

کھیل کود بچوں کے لئے شجرممنوعہ نہیں بلکہ ان کے ذہنی و جسمانی ارتقاء کے لئے ناگزیر ہے؛ لیکن اس کا خیال رکھا جائے کہ یہ شرعی و اخلاقی اعتبار سے درست ہو۔

Children Playing - Pic : INN
بچے کھیلتے ہوئے ۔ تصویر : آئی این این

شریعت ِ اسلامیہ کی رہنمائی انسانی زندگی کے تمام شعبوںکو جامع ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شعبے میں بے اعتدالی، گمراہی، افراط و تفریط ایک بامراد و با مقصد زندگی کے خلاف ہے؛ جس کا حتمی نتیجہ دونوں جہانوں میں تباہی و بربادی ہے۔ اِ س نقطہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ رحمۃ اللعالمین محمد ﷺ کے ذریعے جس دین کی تبلیغ و اشاعت ہوئی اور جس کی ضیا پاش کرنوں نے دنیا کے ہر خطے کو منور کیا، وہ دین نوعِ انسانیت کے لئے محض احکامات و ہدایات کی کتاب نہیں بلکہ سراپا رحمت اور باعثِ خیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگی کے کسی بھی شعبے سے متعلق اسلامی تعلیمات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس میں خیر خواہی کا عکس صاف نظر آتا ہے۔
 مسلم شریف کی ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’طاقتور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے۔‘‘ اِ س حدیث پاک میں طاقتورسے مراد وہ مومن ہے جو ایمان و عقائد، عبادت و اعمال، علم و جسم، عزم و استقلال اور شجاعت و بہادری میں ممتاز ہو۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان کو جہاں صحت مند رہنے کے اصولوں پر کاربند رہنا چاہئے وہیں اسلام کے تمام شعبوں میں مضبوطی لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس ایک حدیث سے ہی اسلام کا مختلف الجہات پیغام ِ خیر خواہی واضح ہے۔ 
 زیرِ نظر مضمون میں ہم اسلامی نقطہ نظر سے بچوں کے کھیل کود کا جائزہ لیں گے ۔بچوں کے کھیل کود کے حوالے سے جہاںہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کھیل کود اُن کے لئے شجرممنوعہ نہیں ہے بلکہ اُن کے ذہنی و جسمانی ارتقاء کے لئے ناگزیر ہے؛ وہیں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اُن کا کھیل کود شرعی و اخلاقی اعتبار سے درست ہو۔ یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ آج کے بچے جو کھیل کھیلتے ہیں اس کی نظیر دورِ نبی ﷺ یا دورِ صحابہ ؓ  میںنہیں ملتی ہے؛ پھر یہ کیسے پتہ لگایا جائے کہ اُن کا یہ کھیل شرعی اعتبار سے درست بھی ہے یا نہیں؟ اِس سوال کا بہت آسان جواب یہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی باب میں نبی اکرم ﷺ یا صحابہ کرام ؓ کی زندگی سے جو اُصول ہمیں ملتے ہیں، اُن کی روشنی میں ہمیں ہر دور میں اپنے اعمال کے صحیح اور غلط ہونے کو طے کرنا ہے۔ چنانچہ کھیل کے حوالے سے جب ہم احادیث کا ذخیرہ کھنگالتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ اُصول نکل کر آتا ہے کہ کسی بھی کھیل کا مقصد جسمانی، ذہنی اور دینی تعمیر ہونا چاہئے اور کسی بھی قسم کے تخریبی عنصر سے اُسے با لکل پاک ہونا چاہئے۔
  ایک حدیثِ پاک میں گھوڑے سدھانے، دونشانوں کے درمیان دوڑنے اور تیراکی سیکھنے اور سکھانےکی ترغیب ملتی ہے۔ (الجامع الصغیر)  اگرچہ اِس حدیث پاک میںبڑے لوگوں کے چند کھیلوں کا تذکرہ ملتا ہے لیکن یہاں سے یہ اُصول نکلتا ہے کہ ہمارا کھیل برائے کھیل نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس سے بڑے مقاصد کے حصول کیلئے جسمانی اور دینی فائدہ بھی ہوناچاہئے۔ چنانچہ موجودہ وقت میں جو کھیل رائج ہیں یا آنے والے کسی بھی وقت میں جو کھیل وجود میں آئیں گے، اُن تمام کو اسی جسمانی اور دینی فائدے کے معیار سے پرکھا جائے گا۔ اِ س کے بر عکس اگر کسی کھیل میں وقت، پیسہ، صحت اور اخلاقی ضیاع نظر آئے تو وہ کھیل شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں غلط قرار پائے گا اور اس سے بچنا ہمارے لئے اور ہمارے بچوں کے لئے ضروری ہوگا۔ 
  غور طلب بات یہ ہے کہ موجودہ وقت میں جدید ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کی وجہ سے کھیل کا تصور بالکل ہی بدل گیا ہے؛ چنانچہ اِس حوالے سے ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ اب کھیل کی جگہ بدل گئی ہے؛ پہلے بچے میدان، گھر کے احاطے اور صحن میں کھیلا کرتے تھے لیکن اب ان بچوں کے لئے کمپیوٹر، ٹیب اور موبائل فون کے اسکرین نے میدان کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ اب بہت سارے والدین اپنے بچوں کو کمپیوٹرکے سامنے  بٹھادینے یا آئی فون پکڑا دینے ہی میں اپنے لئے عافیت سمجھتے ہیں کیونکہ اُن کے زُعم میں اس طرح انہیں اپنی مشغولیت حتیٰ کہ آرام کے لئے وقت مل جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے اِن آلات کے نشے میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ اُن کو گھر سے باہر نکالنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر آج کچھ بچے ایسے بھی ہیں کہ اگر آپ اُن سے یہ کہیں کہ چلو میدان میں فٹ بال کھیلتے ہیں تو اُن کا جواب یہ ہوگا کہ جب ہم اسکرین پر فُٹ بال کھیل سکتے ہیں تو میدان میں جانے کی ضرورت کیا ہے۔ اِس منظر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آن لائن دنیا ہی آج کے بچوں کے لئے حقیقی دنیا بن گئی ہے۔ 
 یاد رکھئے! کمپیوٹر یا موبائل پر گیم کھیلنے کے بھیانک نتائج بر آمد ہوتے ہیں؛ غیر اسلامی گیمس میں مخرب اخلاق تصاویر جہاں  بچوں کے ایمان و عقائد، دل و دماغ اور صحت کو کمزور بناتے ہیں وہیں کار ریسنگ جیسے گیم بلا ضرورت دوسروں کو پیچھے دھکیلنے کے جذبات کو تقویت عطا کرتے ہیں، اسی طرح گن فائرنگ گیم سے مدمقابل کو خطرناک حد تک زیر کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور یہیں سے گن کلچر کی بھی ابتدا ء ہوتی ہے۔ یقیناً ان گیمس سے حقیقی زندگی میں کوئی تعمیری تبدیلی نہیں آتی؛ ہاںتخریب کاری کی کہانی ضرور شروع ہوجاتی ہے۔
 حیرت ہے کہ لوگ اس حقیقت کو بھی فراموش کرگئے کہ بچے کھیلیں گے نہیں تو اُن کی جسمانی ورزش کیسے ممکن ہوگی جو اُن کی مجموعی صحت کیلئے ازحد ضروری ہے۔ گھر کے آنگن سے لے کر میدان میں کھیلنے تک، بچہ عمر کے مختلف مراحل میں الگ الگ قسم کے کھیلوں میں حصہ لیتا ہے جن سے اس کے جسم میں مضبوطی آتی ہے، نظام انہضام تقویت پاتا ہے، پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور ایسے ہی درجنوں فائدوں کے علاوہ یہ اس کی ذہنی طاقت کیلئے بھی ضروری ہے۔ انگریزی کا مقولہ ہے ’’ساؤنڈ باڈی ساؤنڈ مائنڈ‘‘ (صحتمند جسم ہی صحتمند ذہن کی ضمانت ہے)۔ ظاہر ہے کہ کمپیوٹر یا موبائل پر کھیلے جانے والے کھیل کسی بھی زاویئے سے میدان میں کھیلے جانے والے کھیلوں کا متبادل نہیں ہیں مگر ہم اپنے سماج اور معاشرہ میں دیکھ رہے ہیں کہ بچوں کو انہی کھیلوں میں زیادہ لطف آتا ہے اور ماں باپ اُنہیں عام طور پر روکتے ٹوکتے نہیں ہیں۔ 
والدین خواہ وہ پڑھے لکھے ہوں یا ناخواندہ، اپنے بچوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں مگر کم ہی لوگ اپنے بچوں کی پرورش اس انداز میں کرتے ہیں کہ حق محبت ادا ہو۔ اگر ہم صحیح معنوں میں اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اِن تخریب کار آلات سے اپنے بچوں کو لازمی طور پر بچا نا اور اُنہیں ایسے کھیل کود کی ترغیب دینی ہوگی جن سے جسمانی ورزش ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں چاہئے کہ رفتہ رفتہ ہم اُنہیں اِسکرین سے دور کریں، حقیقی زندگی میں فائدہ مند کھیلوں کی طرف اُنہیں راغب کریں اور اپنی مصاحبت، سرپرستی اور رہنمائی سے اُن کی زندگی کے ہر خلاء کو پُر کریں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK