Inquilab Logo Happiest Places to Work

چین دریائے برہم پترکا پانی نہیں روک سکتا

Updated: July 01, 2025, 8:28 AM IST | Yudhajit Shankar Das | Mumbai

دریائے برہم پترکا منبع یوں تو تبت اور ہمالیہ ہے لیکن اس کی حقیقی تشکیل آسام کے ’سدیا‘ میں ہوتی ہے،اس لئےیہ دعویٰ اور اندیشہ کہ چین اس کا پانی روک سکتا ہے بے بنیاد ہے، چین کا اس پرکوئی قابل ذکر کنٹرول نہیں ہے

Brahmaputra River
دریائے برہم پتر

یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص جو ٹرین سے گوہاٹی کاسفر کررہا ہواورجس نے سرائے گھاٹ کا پل پار کیاہو وہ  دریائے برہم پتر کی وسعت دیکھ کرمبہوت نہ رہ گیا ہو۔یہ ندی  ایک سمندر کی طرح  نظر آتی ہے۔ ہندوستانیوں کیلئے یہ تصور کرنا نا ممکن ہےکہ  یہ وسیع وعریض دریا  تبت  سے ایک نہر کی شکل میں نکلتا ہے جسے وہاں کی زبان میں’یارلنگ تسانگپو‘ کہتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہےکہ کیا چین ہندوستان کیلئے برہم پتر کا پانی روک سکتا ہے ؟ یہ خیال کہ چین دریاکے بالائی ملک ہونے کی حیثیت سے تسانگپو برہم پتر ندی کے نظام کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے قابل ہو سکتا ہے، پاکستان کی طرف سے اس وقت پیش کیا گیا  تھا جب ہندوستان نے سندھ آبی معاہد ہ معطل کر دیا تھا ۔ یہ دیکھنا ا ہم ہےکہ تحقیقی اعداد و شمار اور ماہرین اس سلسلے میں کیا تجویز دیتے ہیں ؟ کیا چین  اس ندی کے بہاؤ کو روک سکتا ہے یا اس کا رخ اس طرح  موڑ سکتا ہے کہ اس سے  ہندوستان متاثر ہو؟
 پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ایک سینئر معاون رانا احسان افضل  نے ۲۳؍مئی کو جیو نیوز کو بتایا تھا ’’اگر ہندوستان ایسا کچھ کرتا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف  دریاؤں کا بہاؤ روک دے تو چین بھی ایسا ہی کر سکتا ہے۔‘‘ان کے  اس بیان  نے اس حقیقت کے پیش نظر کچھ اضطراب پیدا کردیا تھا کہ چین  ہند -چین سرحد کے قریب برہم پتر ندی کے بڑے موڑ ’گریٹ بینڈ‘ کے مقام پر ۶۰؍ ہزار میگا واٹ کا میڈونگ ڈیم بنا رہا ہے ۔ماہرین چین کے پانی کو روکنے یا موڑنے کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہےکہ چین کی جانب سے جو بڑا ڈیم بنانے کا منصوبہ ہے جو دنیا کے بڑے ڈیموں میں سے ایک ہوگا ، وہ اصل پریشانی کا سبب ہے کیونکہ یہ چین کے زیر کنٹرول تبت  کے اس حصےمیں بنایا جارہا ہے جو اکثر قدرتی آفات کی زد میں رہتا ہے ۔ ماہر اقتصادیات نیلانجن گھوش، جنہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک  تسانگپو-برہم پترا دریا کے نظام کا مطالعہ کیا ہے، کہتے ہیں کہ چین کا یہ موقف کبھی نہیں رہا کہ وہ برہم پترکے بہاؤ کو روکے،  اس کا مقصد بس کچھ ڈیم بنانا ہے۔آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن(اوآرایف) میں ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے نائب صدر گھوش کہتے ہیں ’’ چین کی جانب سےبہاؤ کو موڑنے کی کوئی بھی کوشش غیر نتیجہ خیز ہوگی کیونکہ اس کے نتیجے میں نیچے تلچھٹ کے جمع ہونے کی وجہ سے اوپر کی طرف سیلابی صورتال پیدا ہوسکتی ہے۔ ‘‘  ان کا کہنا ہے کہ چین ندی کا بہاؤ روکنے کے قابل نہیں ہوگا کیونکہ برہم پتر بارش اورمعاون ندیوں سے بننے وا لا بڑا دریا ہے جس میں تبت کا  یارلنگ تسانگپو   دریا  پانی  کے مجموعی حجم کا  صرف ۱۰؍سے ۱۵؍ فیصد حصہ ڈالتا ہے۔گھوش کہتے ہیں’’برہم پتر جوں جوں نیچے کی طرف بڑھتا ہے، وسیع  ہوتا جاتا ہے۔‘‘اس سال جنوری میں، گھوش اور ان کے ساتھی محقق، سیانانگشو موڈک نے  ’انٹرنیشنل جرنل آف واٹر ریسورسیز ڈیولپمنٹ ‘میں ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا تھا جس میں انہوں نے  برہم پتر کے آبی نظام کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے چین کی طرف سے تشکیل دئیے گئے بیانیہ کو رد کردیا  جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ برہم پتر کے پانی کو روکنے کے قابل  ہے۔
 برسوں میں جمع کئے گئے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ تبت کے نوکسیا میں یارلنگ تسانگپو سے نکلنے والےپانی کی مقدار۳۱ء۲؍ بلین مکعب میٹر (بی  سی ایم ) سالانہ ہے جو بعد ازاں ’گریٹ بینڈ‘سے گزرنے اور چین سے باہر نکلتے ہی اندازاً ۷۸ء۱؍ بی سی ایم تک بڑھ جاتا ہے۔ گوہاٹی کے پانڈو میں پیمائشی اسٹیشن پر برہم پتر کا سالانہ اخراج ۵۲۶؍بی سی ایم تک پہنچ جاتا ہے یعنی یہاں تک پانی کے حجم میں۶؍ گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔  بنگلہ دیش کے بہادر آباد میں جو کہ ہندوستان کے ساتھ سرحد کے بالکل پار ہے، سالا نہ ۶۰۶؍ بی سی ایم  ہے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں دریائے برہم پتر کے داخل ہونے کے بعد معاون ندیوںکے اس میں ملنے سے اس کی وسعت بہت زیادہ ہوجاتی ہے ۔ صدیوں کے عرصے میں برہم پتر نے آسام جیسی ریاست کو ایک جزیرے کی شکل دے دی ہے۔ (یہی وجہ ہےکہ اس ریاست میںسیلاب کے سبب گاؤں کےگاؤں ڈوب جاتے ہیں)، لیکن اسی  دریا کے سب یہاںکی مٹی بھی زرخیز ہے۔
  ماہرین کہتے ہیںکہ برہم پترندی کی حقیقی تشکیل  آسام کے قصبے سدیا میں ہوتی ہے، یہ وہی قصبہ ہے جہاںبھوپین ہزاریکا پیدا ہوئے تھے۔ یہ علاقہ پہلے پوری طرح برہم پترندی سے گھرا ہوا تھا لیکن ۱۹۵۰ء کے زلزلے کے بعداس نے اپنا رخ بدل لیا ۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ دریائے برہم پترہمالیہ سے بھی پرانی ہے۔برہم پترخاموشی سے بہتی ہے، وہ زمینوں کو اپنالیتی ہے اورہندوستان میںاس کی جو وسعت ہے ، اس پرچین کچھ کنٹرول کر ہی نہیںسکتا ۔
  سندھ آبی معاہدہ(آئی ڈبلیو ٹی )جسے ہندوستان  نے ۲۲؍ اپریل کے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعدمعطل کر دیا تھا ، اس معاہدے سے بہت مختلف ہے جو ہندوستان نے چین کے ساتھ تسانگپو برہم پتر سسٹم پر کیا ہے۔اگرچہ سندھ آبی معاہدہ پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہے جس کے تحت ہندوستان نے مغربی دریاؤں کے پانی کے استعمال کے حقوق  پاکستان کو  دئیے ہیں، چین کے ساتھ یارلنگ تسانگپو برہم پتر معاہدہ صرف معلومات کے  تبادلے کیلئے  ہے، پانی کی تقسیم سے اس کا تعلق نہیں ہے۔
 گھوش  نےکہا ’’ سندھ آبی معاہدہ اوربرہم پترپر چین کے ساتھ معاہدہ کی نوعیت میں فرق ہے۔ دریائے سندھ  کے پانی میں گلیشیر اور برف کے پگھلنے کا بڑاحصہ ہے،اس میں۴۵؍ سے ۵۵؍ فیصد( جسےاین ایم آئی کہتے ہیں) پانی گلیشیر  کے پگھلنے سے شامل ہوتا ہے جبکہ گلیشیر اور برف سے  برہم پتر کو ملنے والے پانی کا فیصد ۱۰؍ سے۱۲؍ فیصد ہے ۔‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ دریائے سندھ کے نظام میں پانی کا بڑا حصہ  بالائی سطح سے ملتا ہے جبکہ برہم پتر کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ سندھ کے نظام  میں ہندوستان کو بالائی  ملک ہونے کی حیثیت سے جو فائدہ حاصل ہے وہ برہم پترکے معاملے میں چین کو حاصل نہیں ہے ۔ گھوش کے مطابق پاکستان  زراعت اور بجلی کی پیداوار کیلئے   پوری طرح  دریائے سندھ کے نظام پر  انحصار کرتا ہےجبکہ ہندوستان کا اس مقصد کیلئے برہم پتر کے پانی پر انحصار صرف  ۲۵؍ فیصد ہے۔لہٰذا اگرچہ پاکستان یہ سمجھتا ہےکہ  اس کا اتحادی چین  برہم پترکا پانی بندکرکے ہندوستان کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو  آبی نظام کے ڈیٹا اور موسمیاتی اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ غلط  ہے۔  برہم پترندی آسام سےمنسلک ہے ، اس کی تشکیل سدیا میں ہوتی  ہے اورچین اس کے پانی کو ہتھیار کے طورپر استعمال نہیںکرسکتا ۔n
(بشکریہ انڈیا ٹوڈے )

 

china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK