Inquilab Logo Happiest Places to Work

چین:عوامی مزاحمت کے سامنے تاناشاہ جھکتا ہے

Updated: December 07, 2022, 9:18 AM IST | Pravez Hafeez | Mumbai

شی جن پنگ کی زیرو کووڈ پالیسی نے عام چینیوں کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ اس لئے ارومچی ٹریجڈی کی خبر پھیلتے ہی عوام سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے نکل آئے۔

China; Photo: INN
چین;تصویر :آئی این این

 تاریخ گواہ ہے کہ جب جب طاقت کے نشے میں چورکسی جابر تاناشاہ کو یہ لگتا ہے کہ اب وہ ناقابل تسخیر ہو گیا ہے تب تب اس کی آمریت کو اسی عوام سے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسے وہ حقیر اور کمزور تصور کرتا ہے۔ ۲۳؍اکتوبر کوچین کی کمیونسٹ پارٹی کانگریس میں شی جن پنگ کو تیسری بار پارٹی کا سربراہ منتخب کرلیا گیا اور اس طرح ان کے تیسری بار ملک کا صدر بننے کی راہ ہموار کردی گئی۔پارٹی کے بانی ماؤ زے ڈونگ کے بعد وہ پہلے چینی لیڈر ہیں جنہیں تیسری بارصدر منتخب کیا گیا۔ جن پنگ نے تاریخ رقم کی کیونکہ اس دن انہیں چین پر تاعمر حکومت کرنے کی سند حاصل ہوگئی۔پارٹی اور حکومت پر ان کی گرفت بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی اور ملک کے ایک ارب چالیس کروڑعوام پر ان کا تسلط بھی اور زیادہ مستحکم ہوگیا۔اب ایسا لگنے لگا کہ چینی عوام جابرانہ نظام کے سامنے مکمل طور پر سرنگوں ہوچکے ہیں۔ تب اچانک کچھ لوگوں نے زبانیں کھولیں، آوازیں بلند کیں اور یہ اعلان کیاکہ وہ انسان ہیں پروگرام کے تحت چلتے پھرتے روبوٹ نہیں۔ہوا دراصل  یہ کہ ۲۴؍ نومبر کو شمال مغربی صوبے سنکیانگ کے ارومچی شہر کی ایک عمارت میں آگ لگ گئی جس میں دس سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔شہر کے لوگوں نے ان ہلاکتوں کی وجہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں کو قراردیااور احتجاج کرنے لگے۔لیکن نہ تو یہ عوامی مظاہرے ارومچی تک محدود رہے اور نہ ہی احتجاج کی وجہ کووڈ کی پابندیوں کی سختیوں تک محدود رہی۔
 دنیا بھر میں کووڈ سے نجات پانے کے بعد زندگی مہینوں پہلے معمول پر آچکی ہے لیکن تین سال بعد بھی چین کے مختلف حصوں میں عوام شی جن پنگ کی’’ زیرو کووڈ پالیسی‘‘کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہیں ذرا ذراسی بات پر لاک ڈاؤن نافذ کردیا جاتا ہے اور کارخانے، بازار، دفاتر اور تعلیمی ادارے بند کردیئے جاتے ہیں۔ جہاں وائرس سے کوئی متاثر نہیں ہوتا ہے وہاں بھی شہریوں کو باربار کورونا کے ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں۔ زیرو کووڈ پالیسی کی وجہ سے شہریوں کو بے شمار مصائب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ شی جن پنگ کی زیرو کووڈ پالیسی نے عام چینیوں کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ اس لئے ارومچی ٹریجڈی کی خبر پھیلتے ہی پورے ملک میں بے چینی اور برہمی پھیلنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پندرہ سے زیادہ شہروں میں جن میں راجدھانی بیجنگ اور عالمی تجارتی مرکز شنگھائی بھی شامل ہیں ناراض عوام سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے نکل آئے۔
 کووڈ انیس کے چین کے ووہان شہرمیں جنم لینے سے اورٹرمپ کے ذریعہ چین پر سازش کے تحت لیبارٹری میں عالمی وبا کا وائرس تیار کرنے کے الزامات سے شی جن پنگ دباؤ میں تھے۔ انہوں نے زیرو کووڈ پالیسی نافذ کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ امریکہ اور یورپی ممالک کورونا پر قابو پانے میں ناکام ہیں اس لئے چین پر الزام دے رہے ہیں۔ چین کورونا سے ہونے والی بھاری ہلاکتوں سے تومحفوظ رہالیکن ان سخت گیر پابندیوں کے بھیانک سماجی، سیاسی اور معاشی نتائج سے کمیونسٹ نظام کا جبراور اس کا نظریاتی دیوالیہ پن دونوں جگ ظاہر ہوگئے۔ حالیہ احتجاج سے  دنیا یہ بھی جان گئی کہ حکومت اور عوام کے درمیان کتنی دوری پیدا ہوگئی ہے۔
 چین دوسرے ملکوں جیسا ملک نہیں ہے۔ وہاں آخری بار بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ۳۳؍  سال قبل بیجنگ کے ٹیانینمین اسکوائر میں ہوئے تھے جہاں جمہوریت کی بحالی کے لئے پر امن طریقے سے دھرنے پر بیٹھے ہزاروں طلبہ کوپیپلز لبریشن آرمی نے ٹینکوں سے روند ڈالا اور گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔وہاں جابرانہ نظام کے خلاف زبان کھولنے کا مطلب موت یا اذیت ناک گرفتاری ہوتا ہے۔ اس خطرے سے چین کا بچہ بچہ واقف ہے۔ اس کے باوجود اگر ملک کے طول و عرض میں عوام احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ زیروکووڈ پالیسی کی پابندیوں سے وہ عاجز آچکے ہیں۔ دس سال قبل پارٹی اور حکومت کی سربراہی حاصل ہونے کے بعد سے شی جن پنگ لگاتار زیادہ سے زیادہ اختیار ہڑپنے کیلئے ہر طرح کے جتن کررہے ہیں۔ انہوں نے کمیونسٹ پارٹی میں اپنے سیاسی حریفوں کو الگ تھلگ اور کمزور کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ۲۰۱۸ء  میں آئین کو تبدیل کرکے غیر معینہ مدت تک صدارتی عہدے پر فائز رہنے کاراستہ بھی ہموار کرلیا۔ اس ڈر سے کہ بہار عرب کی طرز پر کہیں چین میں بھی جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہوئے عوام سڑکوں پر نکلنے کی جرأت نہ کرسکیں، انہوں نے ملک کو مکمل طور پر surveillance state میں تبدیل کردیا جہاں شہریوں کے حرکات و سکنات کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔حکومت تین سال سے زیرو کووڈ پالیسی کوبھی عوام کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کررہی ہے۔ جب ارومچی میں عمارت میں آگ لگنے پر لاک ڈاؤن کی غیر انسانی سختیوں کے سبب لوگ جان بچانےکیلئے باہر نہ نکل سکے تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
 اس دم گھونٹ دینے والے سماجی کنٹرول سے نجات پانے کے لئے عوام تمام خطرات سے بے پروا ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔ان عوامی مظاہروں سے ہرگز یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جانا چاہئے کہ چین میں انقلاب دستک دے رہا ہے اور آمریت کے خاتمے کا امکان روشن ہوگیا ہے۔ لیکن شی جن پنگ کی سلطنت کو عوام کے سینوں میں پلتے طوفان کا ادراک ضرور ہوگیا ہے کیونکہ پیر کے دن جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں یہ خبر آرہی ہے کہ حکومت نے پورے ملک میں عالمی وبا سے نپٹنے کیلئے عائد سخت گیر پابندیاں اٹھا لینے یا نرم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوام کو روز روز کے کووڈ ٹیسٹنگ کے قواعد سے نجات دی جارہی ہے، پبلک ٹرانسپورٹ میں سفری سختیاں ہٹائی جارہی ہیں، جبراً سرکاری قرنطینہ گاہ میں بھیجنا بند کیا جارہا ہے اور ان شہروں سے لاک ڈاؤن ہٹائے جارہے ہیں جہاں یہ ابھی بھی نافذ تھے۔ ان میں ارومچی شہر بھی شامل ہے جہاں کئی ماہ بعد اسکول، کالج، شاپنگ مالز،  وغیرہ دوبارے کھولے جارہے ہیں۔ارومچی میں کئی ماہ سے لاک ڈاؤن نافذ تھا۔ ارومچی سے ہی عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔
 ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی کہ عوامی مزاحمت کے سامنے ریاست اور حکومت دونوں جھکتی ہے۔ وطن عزیز میں کسانوں کی طویل مزاحمت کی وجہ سے حکومت کو زرعی قوانین کوواپس لینا پڑاتھا۔ ایران میں ڈھائی ماہ سے جاری خواتین کے احتجاج کی وجہ سے گشت ارشاد نامی اخلاقی پولیس کے نظام کو بند کردیا گیا ہے۔ حالیہ احتجاج کی وجہ سے شی جن پنگ حکومت پر خطرہ نہیں منڈلا رہاہے لیکن اسے یہ بات ضرور سمجھ آگئی ہے کہ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ سرکشی کی سزا کتنی بھیانک ہوسکتی ہے اگر عوام سر اٹھانے لگیں تو اس کا کیا مطلب ہے۔ 

china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK