Inquilab Logo

چینی جارحیت اور ہماری خاموشی کیوں اور کب تک؟

Updated: December 19, 2022, 1:07 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

چین ہماری سرحدوں پر جو کچھ کررہا ہے اس کے تعلق سے ہمیں جتنی معلومات ملی ہیں وہ اس قابل ہیں کہ حالات کا نوٹس لیا جائے اور سخت نوٹس لیا جائے۔ مگر مودی حکومت کی خاموشی بدستور قائم ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

کچھسیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مودی حکومت اُس ہزیمت کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا جو چین کی دھاندلی، ہٹ دھرمی اور اس کے مجموعی رویہ کی وجہ سے ہورہی ہے۔ اس سے قبل کے ایک مضمون میں جو ۳۱؍ جولائی ۲۰۲۲ء کو شائع ہوا تھا، میں نے لکھا تھا کہ ’’یہ بات وزیر اعظم مودی کیلئے پریشانی کا باعث ہونا چاہئے کہ ۱۱؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء کو جب وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ جھولا جھول رہے تھے، تب اُنہوں نے شی کے حقیقی مقاصد کو نہیں سمجھا تھا۔ جب یہ جھولا پینگیں بھر رہا تھا تب ہی چین، ہندوستانی سرحد کے اندر گھسنے کی تیاری کررہا تھا۔ یکم جنوری ۲۰۲۰ء کو چینی صدر نے ایک معاہدہ پر دستخط کئے تھے جو ملٹری ایکشن کی توثیق کیلئے تھے۔ اس کے بعدہی  چینی فوج مارچ اپریل ۲۰۲۰ء میں ہندوستانی سرحد میں داخل ہوئی۔‘‘
 ۱۹؍جون ۲۰۲۰ء کی کل جماعتی میٹنگ میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ نہ تو کوئی بیرونی طاقت ہندوستانی سرحد میں داخل ہوئی ہے نہ ہی  ہندوستان کی حدود میں موجود ہے۔‘‘ ہندوستان کا ہر شہری خواہ وہ اپوزیشن کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، چاہیں گے کہ اپنے وزیر اعظم کی بات پر یا اُن کی یقین دہانی پر بھروسہ کریں مگر حالات اور شواہد اس بھروسہ یا اعتماد کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کا خیال ہے کہ ہندوستان کے عوام بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ اُن کا یہ خیال درست ہے کیونکہ بلاشبہ ہندوستانی عوام نوٹ بندی کو بھول گئے ہیں، بغیر کسی انتباہ کے اچانک لاک ڈاؤن کے فیصلے کو فراموش کرچکے ہیں، لاک ڈاؤن کے دوران مہاجر مزدوروں کی یا آکسیجن کے لئے دوڑنے والوں کی یا اپنے عزیزوں کی ناگہانی موت کی دل دہلا دینے والی داستانوں کو بھی ذہن سے محو کرچکے ہیں۔
 مارچ۔اپریل ۲۰۲۰ء سے اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان اور چین کی ملحقہ سرحد ( ۳۴۸۸؍کلومیٹر) پر حالات پہلے سے زیادہ خراب ہیں۔ ۹؍ دسمبر ۲۲ء کو اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹرکے واقعہ میں ایک تلخ حقیقت پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ چین ہندوستانی سرحد میں دراندازی کی کوشش کیلئے سوچ سمجھ کر موقع تلاش کرتا ہے اور ہندوستانی حکومت سمجھ نہیں پاتی کہ کیا ہوا۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔ جون ۲۰۲۰ء میں گولان میں ۲۰؍ ہندوستانی فوجیوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا تھا۔ دسمبر ۲۰۲۲ء میں اروناچل پردیش میں ہمارے ۷؍ جوان زخمی ہوئے جبکہ سرحد کی دوسری جانب سے یہ اطلاع نہیں مل رہی کہ چین کے کتنے سپاہی زخمی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو چین کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پہلے سے طے شدہ وقت اور موقع پر دراندازی کی جرأت عطا کرتی ہے؟
 اس کے جواب میں کئی باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ اُن میں سے ایک یہ ہے: ۱۳، ۱۴؍ اور ۱۵؍ دسمبر کو اراکین پارلیمان چاہتے تھے کہ چینی دراندازی پر مباحثہ ہو مگر دونوں ایوانوں کے صدور نے اس درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ معاملہ ’’حساس‘‘ ہے۔ تو کیا پارلیمانی جمہوریت کی تعریف (ڈیفی نیشن) یہ ہے کہ اس میں ’’حساس‘‘ معاملات پر بحث نہ کی جائے؟ اگر پارلیمنٹ میں غیر حساس موضوعات کو زیر بحث لایا جانا ہے تو میرا خیال ہے کہ راجیہ سبھا میں آئندہ بحث(ضابطہ ۲۶۷؍ کے تحت) اس بات پر ہو کہ ارجنٹائنا اور فرانس کے درمیان جو میچ کھیلا گیا اس میں کیا کیا ہوا۔ (رکن پارلیمان ڈیرک اوبرائن کے مطابق گزشتہ چھ سال میں ضابطہ ۲۶۷؍ کے تحت بحث و مباحثہ کی ایک بھی درخواست راجیہ سبھا میں منظور نہیں کی گئی۔ اگر اس ضابطہ کے تحت مباحثہ نہیں ہوسکتا تو اس ضابطہ کو برقرار رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں نہ اسے ختم کردیا جائے!
 حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو موقع نہ دینا ہو تو ایسا کیا جاسکتا ہے مگر عوام موقع تلاش کرلیتے ہیں، وہ خاموش نہیں رہتے۔ اور میرے خیال میں عوام جو کچھ  جاننا چاہتےہیں وہ یہ ہے؟ 
 (۱) ہندوستان اور چین کے درمیان مذاکرات کے کئی مراحل کے بعد بھی کوئی پیش رفت کیوں نہیںہوئی؟  
 (۲) چین نے فوجیوں ڈسپانگ اور ڈیمچک جنکشن سے فوجیوں کو ہٹانے سے انکار کردیا ہے۔ دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی ملٹری اب بھی ہندوستانی سرحد میںہے تو ایسا کیوں ہے اور اس کے خلاف کیا کیا جارہا ہے؟ 
 (۳) مشرقی لداخ سے اروناچل پردیش تک چین نے اپنی فوجی موجودگی کو مستحکم کیا ہے اور انفراسٹرکچر بنارہا ہے جس میں فوجیوں کی تعداد، ہتھیار سڑکیں، پل، مواصلاتی نظام، ہیلی پیڈ اور بستیاں  وغیرہ کی جانب سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ تو کیا اس پر خاموش رہا جاسکتا ہے؟ 
 (۴) امریکی محکمۂ دفاع کے پریس سکریٹری نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی ماہرین نے چین کو ہندوستانی سرحد میں فوجی مارچ کرتے ہوئے اور ملٹری انفراسٹرکچر بناتے ہوئے دیکھا ہے ۔ کیا یہ انکشاف ہمارے لئے تشویش کا باعث نہیں ہونا چاہئے؟
 (۵) سرحد پر کئی بفر زون بنالئے گئے ہیں۔ بفر زون کا معنی ہے کہ جہاں جہاں یہ زون بنے ہیں وہاں وہاں ہندوستانی فوجی، گشت نہیں کرسکتے جیسا کہ ۲۰۲۰ء سے پہلے کا ہمارا معمول تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ چین’’ یانگسے‘‘ میں ایک اور بفر زون بنائے گا۔ تو کیا ہم اب بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کریں گے؟
 (۶) وزیر اعظم مودی نے شی جن پنگ سے جی ۲۰؍ چوٹی کانفرنس میں بالی میں نومبر ۲۰۲۲ء میں ملاقات کی تھی۔ تصویروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں لیڈران انڈونیشیائی سلک سے بنے ہوئے لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں اور ہاتھ ملا رہے ہیں۔ مودی نے اُن کو مخاطب کیا، شی نے مسکرانا تک گوارا نہیں کیا اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جسے قابل ذکر کہا جاسکتا ہو۔ 
 اس تفصیل کے بعد یہ طرفہ تماشا ملاحظہ کیجئے کہ چینی  جارحیت کے باوجود اس ملک سے ہمارے تجارتی تعلقات ایسے ہیں جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ چین سے ہندوستان کی درآمدات میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ ۲۲۔۲۰۲۱ء میں ہمارا تجارتی خسارہ ۷۳ء۳۱؍ بلین ڈالر کے برابر تھاکیونکہ ہم چین کو جتنا برآمد نہیں کرپاتے اس سے زیادہ درآمد کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ 
 بیجنگ کی جارحیت پر ہماری حکومت بدستور خاموش ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی حکمت عملی ہے بھی نہیں، اسی لئے عوام اور پارلیمنٹ کو اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے شہریوں کو یہ علم نہیں کہ بالی میں جب ہندوستان اور پاکستان کے لیڈروں میں ملاقات ہوئی تو مودی نے شی سے کیا کہا؟

Chinese Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK