Inquilab Logo

اجتماعی طور پر تلاوت ِ کلام مجید سے فہم قرآن میں بڑی آسانی پیدا ہوجاتی ہے

Updated: January 06, 2023, 11:48 AM IST | Khurram Murad | Mumbai

قرآن پاک کی دعوت کو سارے انسانوں تک پہنچانے کا تقاضا بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ قرآن کو اجتماعی طور پر پڑھا جائے اور سمجھا جائے۔ لفظ ’’تلاوت‘‘ جب حرف ’’علیٰ‘‘ کے ساتھ بولا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے: سنانا، پہنچانا، نشر کرنا، اشاعت کرنا۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا نبوت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے اور اسی لئے امت ِ مسلمہ کے مقاصد میں بھی شامل ہے۔

Before reciting the Qur`an, complete preparation should be done and the appropriate verses should be selected keeping the audience in front of the audience during the recitation
درس قرآن سے پہلے اس کی پوری تیاری کرنا اور درس کے وقت سامعین کو سامنے رکھ کر موزوں آیات کا انتخاب کرنا چاہئے


  فہم قرآن کی جستجو میں ضروری ہے کہ آپ حق کے متلاشی اور دوسرے افراد کے ہمراہ شریک سفر بن جائیں۔ یہ تو ضروری ہے کہ آپ انفرادی طریقے پر قرآن مجید کا مطالعہ کرتے رہیں، لیکن جب آپ قرآن کے مفہوم اور مطالب کی تلاش اور جستجو کرنے والے دوسرے اہل ایمان کے ساتھ مل کر اجتماعی مطالعہ کرتے ہیںتو آپ کے استفادے کے ثمرات دُگنا ہوجاتے ہیں۔ اجتماعی مطالعے میں دل و دماغ کی ’’قوت اخذ‘‘ بڑھ جاتی ہے اور زیادہ صحیح طریقے سے مفہوم اور مطالب کو اپنی گرفت میں لینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس طرح باہمی رفاقت میں آپ قرآن کے زیرسایہ زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح قرآن کے تقاضے پورے کرنے کا مرحلہ بھی آسانی سے طے ہوجاتا ہے۔   اس طرح عمل پیرا ہونے اور تقاضے پورے کرنے سے آپ قرآن کی برکتوں سے پوری طرح مستفید ہوسکتے ہیں اور فہم قرآن کے دروازے بھی زیادہ کھل جاتے ہیں۔
 قرآن کا تخاطب خصوصیت کے ساتھ جماعت سے ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے نزول وحی کے ساتھ ہی ایک ایسی جماعت قائم کرنے کی کوشش شروع کردی تھی جس کا مرکز اور محور قرآن ہو۔ ساری زندگی اور زندگی کا ہر لمحہ آپؐ نے اس مقصد کے لئے صرف کردیا۔ اقراء کے حکم کے ساتھ ہی قم فانذر (اٹھو اور ڈراؤ) کا حکم بھی نازل ہوا۔ اسی طرح جہاں یہ حکم نازل ہواکہ  :  ’’اے نبیؐ! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو(پڑھو اور پھیلاؤ)۔ ‘‘(الکہف:۲۷) تو  اس کے متصل ہی دوسری آیت میں یہ حکم نازل ہوا کہ : ’’ اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔‘‘ (الکہف:۲۸)
 قرآن مجید کی یہ آیات واضح اور مؤثر انداز میں قرآن کی تلاوت اور ایک متحد و مربوط گروہ (معاشرہ) قائم کرنے کے درمیان ربط پیدا کررہی ہیں۔
  کوئی نماز قرآن پڑھے بغیر مکمل نہیں ہوتی، اور کوئی نماز بلاعذر شرعی جماعت کے بغیر ادا نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ باجماعت نماز میں تلاوت قرآن اجتماعی فہم قرآن کا موقع ہے ، اور اس طرح قرآن فہمی کا مقصد دن میں پانچ مرتبہ اجتماعی طریقے سے حاصل کیا جاتا ہے۔
  قرآن پاک کی دعوت کو سارے انسانوں تک پہنچانے کا تقاضا بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ قرآن کو اجتماعی طور پر پڑھا جائے اور سمجھا جائے۔ لفظ ’’تلاوت‘‘ جب حرف ’’علیٰ‘‘ کے ساتھ بولا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے: سنانا، پہنچانا، نشر کرنا، اشاعت کرنا۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا نبوت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے اور اسی لئے امت ِ مسلمہ کے مقاصد میں بھی شامل ہے۔
 اسی طرح قرآن مجید بالواسطہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ اس کو گھروں اور خاندانوں میں پڑھا جائے: ( نبیؐ کی بیویو! یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں بے شک اللہ لطیف اور باخبر ہے ۔‘‘ الاحزاب:۳۴)
 جو لوگ اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت کریں اور اس کا مطالعہ کریں، وہ مبارک ہیں ، ان پر اللہ کے فرشتے اللہ کی رحمت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے
 ’’جب کبھی لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرنے اور اس کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پڑھنے اور پڑھانے کے لئے اللہ کے گھروں میں جمع ہوتے ہیں ، ان پر برکت نازل ہو تی ہے، رحمت ان کو گھیرے میں لے لیتی ہے ، فرشتے ان پر سایہ کرتے ہیں اور اللہ اپنی محفل میں ان کا ذکر کرتا ہے۔ ‘‘
 اس لئے قرآن کو، تنہا پڑھ کر مطمئن نہ ہونا چاہئے بلکہ دوسرے متلاشیانِ حق کو جمع کرکے اجتماعی طور پر یہ کام انجام دینا چاہئے۔ اجتماعی مطالعے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں
 (۱) جب ایک مختصر سا گروہ ایک جگہ جمع ہوکر اس طرح قرآن کا مطالعہ کرتا ہے کہ ہر شریک اس مطالعے میں سرگرمی سے حصہ لے، خواہ عالم ہو یا نہ ہو۔ ایک فرد بہرحال زیادہ علم والا ہونا مفید ہے جو ان کی رہنمائی کرے۔ اس کو ہم حلقہ کہیں گے۔
 (۲) جب ایک چھوٹا یا بڑا گروہ ایک جگہ جمع ہوتا ہے اور کسی عالم کا درس سنتا ہے (اس میں سامعین صرف سوالات کرسکتے ہیں) اس کو ہم درس کہیں گے۔
  تاہم یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ حلقہ کس طرح چلایا جاتا ہے اور درس کی تیاری کس طرح کی جاتی  ہے۔ یہاں ہم صرف عملی ہدایات پر گفتگو کریں گے ۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس کام کے لئے نہ کوئی معین معیار ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی معین طریقہ کار ۔ مختلف افراد اپنا خاص انداز اور خاص طریقہ کار اختیار کرسکتے ہیں۔ درج ذیل ہدایات دراصل اشارات ہیں جن کو مخصوص حالات اور  اپنی استعداد کے مطابق اختیار کیا جاسکتا ہے۔
چار بنیادی ضابطے
  اجتماعی مطالعے کیلئے چار بنیادی ضابطے ضروری ہیں
 (۱) حلقہ میں شرکت یا درس کی ذمہ داری کا حق ادا کرنے کے لئے پوری طرح تیاری کرنا چاہئے۔ سرسری نظر ڈال لینے سے تیاری نہیں ہوتی۔ تیاری کرنے کو آخری لمحے تک مؤخر کرتے چلے جانا بھی درست نہیں۔ یہ غلط فہمی نہیں ہونا چاہئے کہ ایک نظر ڈالنے سے سب کچھ یاد آجائے گا۔ قرآن کے متعلق کوئی بات بغیر غور و فکر کے زبان سے نہیں نکالنا چاہئے۔ زیادہ مناسب طریقہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں آپ نے جو مطالعہ کیا ہے اور آپ جو کہنا چاہتے ہیں، اس کو نوٹ کرلیں۔
 (۲) آپ خواہ مبتدی ہوں یا صاحب ِ علم، آپ درس دے رہے ہوں یا حلقہ میں شرکت کررہے ہوں، بہرکیف آپ اپنے طور پر ان حصوں کا مطالعہ ضرور کریں جو حلقہ یا درس کا موضوع ہوں۔
 (۳) ہمیشہ اپنی نیت خالص رکھئے۔ یعنی یہ کہ مقصد قرآن کو سمجھنا ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا ہے، اور یہ سب اس لئے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔
 (۴) اجتماعی مطالعہ تفریح کے لئے ، یا علمی نکات بیان کرنے کے  لئے یا بحث و تکرار کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔ مطالعہ ٔ قرآن کا نتیجہ اتباع ِ قرآن کی شکل میں ظاہر ہونا چاہئے اور اس دعوت کو پھیلنے کی لگن بھی پیدا ہونی چاہئے جو قرآن اپنے قاری کے سپرد کرتا ہے۔
درس کی تیاری
  اجتماعی درس کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات معاون ثابت ہوں گی
 (۱) سب سے پہلے سامعین کی نوعیت اور استعداد کے متعلق صحیح اندازہ لگانا چاہئے۔ ان کا علم، ان کی فہم و فراست ، ان کا درجہ ایمان، ان کے تفکرات اور پریشانیاں اور ان کی خواہشات و ضروریات کیا ہیں؟
 (۲) پھر سامعین کو سامنے رکھ کر موزوں آیات کا انتخاب کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے پاس چند آیات کی تیاری موجود ہے، بس اس کو پیش کردیا، خواہ اس کا  تعلق سامعین کے حالات  اور تقاضوں سے ہو یا نہ ہو۔
 (۳) اسی طرح زبان، طرزِ بیان  اور اظہارِ بیان میں بھی سامعین کا لحاظ ضرور رکھنا چاہئے۔
 (۴) اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کیجئے کہ وہ آپ کو توفیق بخشے کہ آپ قرآن کا صحیح مفہوم پا سکیں اور اسے سامعین کے سامنے بیان کرسکیں۔
 (۵) پہلے آیات کا مطالعہ کیجئے اور نوٹس تیار کیجئے۔ یہ سوچئے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں، پورا مضمون کس ترتیب سے پیش کرنا چاہتے ہیں، آغاز کس طرح کریں گے اور اختتام کیسے ہوگا؟
 (۶) وقت کا پورا لحاظ رکھئے۔ معین وقت سے زیادہ ہرگز آگے نہ بڑھئے، خواہ آپ کے ذہن میں کتنے ہی قابل قدر نکات موجود ہوں اور آپ کو ان کو پیش کرنے کا شوق بھی  ہو۔ آپ کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ سامعین کے یاد رکھنے کی صلاحیت محدود ہوتی ہے۔ وہ آپ کے علم و فضل کے مداح تو بن جائینگے مگر آپ سے زیادہ سیکھیں گے نہیں۔ طویل حصے کو مختصر سے وقت میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے اور مختصر سے حصہ کو طویل وقت میں بھی۔ 
 (۷) آخر میں درس کا پیغام واضح الفاظ میں  سامعین کے سامنے پیش کردیجئےتاکہ وہ ان کے ذہنوں میں محفوظ  رہے اور وہ اس پر غور کرتے رہیں۔ اس پیغام کا تعلق آیات ِ زیر درس کے مرکزی مضمون سے ہونا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK