Inquilab Logo Happiest Places to Work

کالج اسٹریٹ : کولکاتا میں کتابوں کی جنت

Updated: June 01, 2025, 3:27 PM IST | Fiona Fernandez | Mumbai

کالج اسٹریٹ میں کئی با وقار تعلیمی ادارے واقع ہیں جن میں پریسیڈنسی کالج، کلکتہ یونیورسٹی، سنسکرت کالج اینڈ یونیورسٹی اورہارے اسکول شامل ہیں۔ اسے ایشیا میں کتابوں کے سب سے بڑے بازار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

Arbinda Dasgupta, owner of Dasgupta & Company Private Limited on College Street, and the bookstores on College Street. Photo: INN.
کالج اسٹریٹ پر واقع داس گپتا اینڈ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک اربندا داس گپتا اور کالج اسٹریٹ پرواقع کتابوں کی دکانیں۔ تصویر: آئی این این۔

’’سر کیا آپ برائے مہربانی کچھ وقت دے سکتے ہیں ؟‘‘ مجھے امید تھی کہ میری عاجزانہ درخواست پرمحترم اربندا داس گپتا مثبت رد عمل دیتے۔ اربندا داس گپتا کالج اسٹریٹ پر واقع داس گپتا اینڈ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک ہیں۔ یہ کولکاتا کی سب سے پرانی بک اسٹور ہے۔ دراصل میں بنا بتائے آدھمکی تھی۔ یہ خوشگوار صبح تھی مگر میرے چہرے پر پسینے کی بوندیں نمایاں تھیں اور انہیں ہی دیکھ کر اربندا داس گپتا مجھے وقت دینے کیلئے آمادہ ہوئے تھے۔ ایسا ہی ہوا اور انہوں نے کہا ’’برائے مہربانی بیٹھئے۔ کیا آپ اتنی دور ممبئی سے ہم سے ملاقات کیلئے آئی ہیں ؟‘‘ ان کی خوش مزاج اور دوستانہ شخصیت سامنے والے کو فوراً متاثر کرتی ہے۔ اربندا داس گپتا عمر رسیدہ ہیں اوروہ جہاں بیٹھتے ہیں اور ان کا جو ورک ڈیسک ( میز) ہے، وہ لکڑی کا ہے۔ اس کے پیچھے کتابوں کی الماری ہے اوریہ الماری کوئی چھوٹی موٹی نہیں ہے بلکہ دیوارکے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لگی ہوئی ہےاورفرش سے لےکر چھت تک ہے۔ جب میں نے کچھ مڑ کر دوسری جانب کا جائزہ لینا چاہا تو مجھے ہر جگہ یہی منظر دکھائی دیا یعنی کمرے کی ہر دیوار سے ایک الماری متصل تھی۔ یہاں تک پہنچنے سے پہلےجس ٹریفک میں پھنس کرمجھ پر تھکن کا شدید احساس طاری ہوا تھا وہ اب نہیں رہا۔ یہ و یک ڈے تھا، اس کے باوجوداس بک اسٹور میں بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد ورفت جاری تھی۔ پھرمیں نے خود کو یاددلایا کہ ہم کالج اسٹریٹ کے قلب میں تھے جسے بنگالی میں ’بوئی پارا ‘(کتابوں کا پڑوس)کہتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہےجہاں ہر دن مطالعے کا دن ہوتا ہے۔ اس علاقے کو کالج اسٹریٹ کا نام دیاگیا ہے کیونکہ یہاں کئی با وقار تعلیمی ادارے واقع ہیں جن میں پریسیڈنسی کالج، کلکتہ یونیورسٹی، سنسکرت کالج اینڈ یونیورسٹی اورہارے اسکول شامل ہیں۔ اسے ایشیا میں کتابوں کے سب سے بڑے بازار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ممبئیکروں اور مطالعے کے شوقین مجھ جیسے رائٹر کیلئے، اس جگہ کو سمجھنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔ یہاں ڈیڑھ کلو میٹرتک یا جہاں تک نگاہ جا سکے، یکے بعد دیگرے کتابوں کے اسٹال ہیں۔ صرف قطار میں ہی نہیں بلکہ اس سے متصل گلیوں اور مڑنے والے دیگر راستوں پر بھی کتابوں کی دکانیں موجود ہیں۔ 
اب محترم داس گپتا کے ساتھ میری جو گفتگو ہوئی، اس پر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بک اسٹورکی وراثت کے بارے میں کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے کہا ’’اسے گریش چندر گپتا نے ۱۸۸۶ء میں قائم کیا تھا۔ اس وقت اس عمارت کے درمیانے منزلے پرعظیم شخصیات اورسماجی کارکنان رہا کرتے تھے۔ آج ہم ان طلبہ کا خیر مقدم کرتے ہیں جو اسی جگہ پر واقع لائبریری میں مطالعے کیلئے آتے ہیں۔ ‘‘اس بک اسٹورکے ذریعے انہیں جوعزت اور مقام و مرتبہ ملا ہے وہ ان کی دہائیوں کی کاوشکے نتیجے میں ملا ہے۔ اس بک اسٹور کو ایوارڈ ملا ہے، ٹرافیاں ملی ہیں۔ ستیہ جیت رے سےلےکر امرتیہ سین اور ششی تھرور تک بڑے اور عظیم قلمکاروں نے اس بک اسٹور کو زینت بخشی ہے۔ جتنی دیر میں وہاں رہی اس میں ایک برطانوی جوڑا، طلبہ کا ایک گرو پ اورایک اکیڈمک جس کے بالوں میں کچھ سیاہی اور کچھ سفیدی تھی، یہ سبھی جب اسٹور سے باہر نکلےتو داس گپتا سے دورسے اجازت لے کر اوراشارہ کرکے نکلے۔ یہ اس بات کی علامت ہےکہ ان کا مقامی گاہکوں کے ساتھ کیسا ربط ہے اوریہ گاہک بھی ان کا کیسا احترام کرتے ہیں۔ 
لیکن، یہ صرف گاہکوں  کے بارے میں نہیں ہے۔ اس دوران داس گپتا صاحب نے میری توجہ اسٹور کے داخلی راستے پر ایک پینل کی طرف مبذول کرائی جہاں اسٹور کے سابق ملازمین اور اسٹاف کی پوری معلومات تھی۔ انہوں نے کہا ’’یہ ایک چھوٹی کوشش ہے آپ کی آمد کا اعتراف کرنے اور اس بات کا شکر یہ ادا کرنے کی کہ آپ ہماری فیملی کا حصہ بنے۔ ‘‘ان کا یہ سلوک دیکھ کرمیں حد درجہ متاثر ہوئی۔ بعد ازاں انہوں نےکتب فروشی کے فن پراپنے دادا اور والد کی خدمات کو یادکیا اورکہا کہ آج وہ جو کچھ ہیں وہ ان کی وجہ سے ہی ہیں۔ انہوں نے کہا ’’سماج کی تشکیل اور اسے ایک رخ دینے میں میں ہم کتب فروش بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ‘‘انہوں نے لاک ڈاؤن کے دورکے بارے میں بھی بتایا کہ اس وقت کس طرح یہ بک اسٹور صارفین کا ساتھی ثابت ہوا۔ اس وقت کتابیں صارفین کے گھروں تک پہنچائی جاتی تھیں۔ مصنوعی ذہانت اورڈیجیٹل کے بڑھتے ہوئے رجحان کے درمیان کتب بینی کے تعلق سےان کی رائے ہے کہ ’’کتابیں ایسی کسی صورتحال میں بھی باقی رہے گی کیونکہ کتابیں تو جنگوں کے بعد بھی باقی رہی ہیں، جوہری تباہی کے بعد بھی باقی رہی ہیں اورحال ہی میں وبا کے دوران بھی باقی رہیں۔ ‘‘
یہ وقت داس صاحب اور ان کے تاریخی بک اسٹور کو الوداع کہنے کا تھا۔ یہ ایک بھول بھلیاں تھی جس پر ایک بار پھر نظر دوڑا کراب مجھے اعتماد محسوس ہورہا تھا۔ یہ سب دیکھ کرمجھے اپنے کالج کے دن یاد آگئےجب ہمیں پیسے کی قدر فیشن اسٹریٹ پر معلوم ہوتی تھی لیکن یہاں کتابوں کی ایک ایسی کائنات ہے جہاں کتب فروشوں اور خریداروں کا جوش دیدنی ہوتا ہے۔ سڑکوں پر چہل پہل، لوگوں کے آنے جانے کی آوازیں ، ہاتھ سے کھینچے جانے والے رکشہ اور گاڑیوں کے ہارن کا شور سب ایک طرف اورکتابوں کا نہ ختم ہونے والابازار ایک طرف۔ جس طرح کرافورڈ مارکیٹ میں دکان داروں اور خریداروں کے درمیان آم کی خریداری پر مول بھاؤ ہوتا ہے، ایسے مناظر اس کتاب کے بازار میں کہیں کہیں نظر آجاتے ہیں۔ جس طرح وہاں سستے اوراچھےآموں کا انتخاب ہوتا ہے، اسی طرح یہاں کتاب کے خریداروں کی نظر کم یاب ایڈیشن پر ہوتی ہے ۔ یہاں ہمارے سامنے بھی یہ صورتحال آئی کہ رابندر ناتھ ٹیگور کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ لیں یا کارل مارکس کی داس کیپٹل۔ اس دوران کچھ طلبہ کی آوازیں بھی سنائی دیں جو کسی اسٹال پردکاندار سے کچھ کتابوں پر مول بھاؤ کرنا چاہ رہے تھے۔ 
اب مجھے اپنے لئے ’ا یندھن‘ اورکولکاتا کی بے رحم گرمی سے تھوڑی راحت حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔ انڈین کافی ہاؤس جومفکروں، مصنفوں ، شاعروں، فنکاروں اور انقلابیوں کے جمع ہونے کا مرکزیعنی ’ ا ڈہ ‘ رہا ہے۔ یہاں ایک پرانے طرز کی عمارت کی سیڑھیاں (تعمیرشدہ ۱۸۰۰ء) مجھے اس مقدس سمجھی جانے والی جگہ کی طرف لے جاتی ہیں جسے پہلے البرٹ ہال کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اونچی چھتیں، نیچے لٹکتے پرانے پنکھے، فرنیچر اور پگڑی پہنے ویٹر۔ یہ ہال کیا ہے۔ یہ دہائیوں کی سیاسی بحثوں اور تند و تیز مکالموں کا گواہ ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جو ایک زمانے میں نیتاجی سبھاش چندر بوس اور رام کرشن پرم ہنس جیسی عظیم شخصیات کی میزبان رہ چکی ہے۔ میں مینو پر نظر ڈالتی ہوں ۔ – ان کا سب سے مقبول مشروب، انفیوژن (بلیک کافی) صرف ۲۲؍روپے میں دستیاب ہے جبکہ منرل واٹر اس سے مہنگا، ۲۵؍روپے کا! دیواروں پر بنگالی شخصیات کی تصاویر اور فن پارے آویزاں ہیں جن میں مشہور شاعر، ادیب، موسیقار اور آئی سی ایچ کے مستقل مہمان، قاضی نذرل اسلام کی بڑی سی تصویر بھی شامل ہے۔ اس تصویرمیں بھی ان کا رخ ایسا تھا کہ گویا وہ اپنی پسندیدہ چیز(یعنی کافی) کو دیکھ رہے ہوں ۔ جب میں اپنے بلیک کافی اور مکھن والے ٹوسٹ کا انتظار کر رہی تھی تو خود کو پل بھر کیلئے ۱۹۴۰ء کی دہائی میں محسوس کرنے لگی، جب ہندوستان میں قوم پرستی اپنے عروج پر تھی، جب سازشیں، بحثیں، جاسوسی اور کوڈ ورڈپر مشتمل خفیہ پیغامات ترتیب دیے جا رہے تھے...کیا ہی شاندار دور رہا ہوگا، ملک(کی آزادی کی جدوجہد) کیلئے کوئی خفیہ خبر لانے میں کیا لطف آتا ہوگا!ہر لحاظ سے تسکین حاصل ہونے کے بعد، میں اپنی کتابی مہم کی طرف لوٹتی ہوں۔ دوپہر ہونے کو ہے اور اگرچہ میں چاہتی ہوں کہ کچھ دیر کا وقفہ دوبارہ لوں مگر میگوئل ڈی سروانتیس کا مشہور قول بروقت ترغیب دیتا ہے: ’’جب سورج چمک رہا ہو تو گھاس کاٹ لینا چاہئے۔ ‘‘بلاشبہ اس شہر کی کتابوں سے محبت بے مثال ہے۔ چونکہ یہ علاقہ کلکتہ کے تعلیمی مرکز میں واقع ہے، اسلئے یہ یہاں فطری ہےکہ نصابی کتابیں اور ان کے مستعمل نسخے ہی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی چیزوں میں شامل ہوں ۔ جب میں سڑک کنارے دہائیوں سے کتابیں بیچنے والے کچھ دکانداروں سے بات کرتی ہوں، تو وہ بتاتے ہیں کہ اے آئی اور اس سے پہلے ای-بکس کی آمد سے حالات مشکل ہو گئے ہیں لیکن، داس گپتا صاحب جیسے لوگ پرامید ہیں کہ کلکتہ کے سنجیدہ قارئین کا طبقہ انہیں زندہ رکھے گا۔ ایک اور وقفہ میری راہ دیکھ رہا ہے۔ اس بار میں نے فیصلہ کیا کہ کلکتہ یونیورسٹی کے کالج اسٹریٹ کیمپس (جسے رسمی طور پر ’اسوتوش شکشا پرانگن‘ کہا جاتا ہے) کابھی دورہ کرتی چلوں۔ 
جو تھوڑی بہت بنگالی میں سمجھتی ہوں، اس کی بنیاد پر کہہ سکتی ہوں کہ یہاں کے ماحول میں متنوع گفتگو کی گونج تھی۔ آنے والے کیمپس انتخابات سے لے کر امتحانات کی بے معنویت تک اوریہ کہ مٹاڈے کو نئی نسلوں میں کیوں زندہ رہنا چاہئے اور کس طرح انہیں زندہ رکھنا چاہئے، یہاں ایسے ہی موضوعات گفتگو پر حاوی تھے۔ 
اب وقت تھا کہ میں ’بوی پاڑا‘ کو الوداع کہوں، کیونکہ اس سفر کا آخری مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ کتابوں کی اس دلکش جنت کے بعد کچھ نئی دریافتیں میرا انتظار کر رہی ہیں۔ مگر یہ اندازہ لگانا کوئی بہت مشکل نہیں کہ میرا اگلا پڑاؤ کہاں ہوگا۔ جی ہاں، (جو ہوگا) وہ ایک کتابوں کی دکان ہی ہوگی!کلکتہ کو ’سٹی آف جوائے‘ (مسرتوں کا شہر)کہا جاتا ہے۔ میرے لئے یہ نام بالکل موزوں ہے، کیونکہ یہاں کی گلیوں میں گھوم کرجو تجربہ مجھے ملا اورجن مسرتوں سے میں نے دامن بھرا ہے، اس تحریر میں جشن کا وہ پہلو محسوس کیاجاسکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK