Inquilab Logo

لوئیس گلوک کی شاعری میں رنگِ تغزل

Updated: October 16, 2020, 11:47 AM IST | Shamim Tariq

لوئیس گلوک انگریزی کی استاذ ہیں۔ انہوں نے کم عمری میں شاعری شروع کی۔ سرد و گرم سے گزریں اور آخری ایام میں انھیں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تو فیصلہ کرنے والوں نے خاص طور پر یہ جملہ لکھا کہ لوئیس تبدیلی اور حیاتِ نو کی مغنیہ ہیں۔

Louis Gluck - Pic : INN
لوئیش گلوک ۔ تصویر : آئی این این

انسانی معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ اس میں کبھی انفرادی آزادی، اختیار اور پسند و ناپسند پر اتنا اصرار کیا گیا کہ اجتماعیت سے فرد کا رشتہ ختم ہوگیا اور کبھی اجتماعیت پر اتنا اصرار کیا گیا کہ انفرادی شعور، عزم و ارادہ اور شخصی آزادی کی کوئی حیثیت ہی نہ رہی۔ اسی طرح کسی نے خارج میں غور و فکر کرنے اور اس کو مسخر کرنے پر اصرار کیا تو کسی نے درون ذات جھانکنے اور کاروبارِ حیات سے کنارہ کش ہوجانے میں ہی عافیت سمجھی۔ زندگی کو ایک کل یعنی انفرادی، اجتماعی شعور و لاشعور، فرد کے عزم و ارادہ اور اجتماعی مصالح کے تحت جدوجہد کے پس منظر میں کم دیکھا گیا۔ اقبال نے ’’ اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی‘‘.... کا درس دے کر انفرادیت اور اجتماعیت، ظاہر و باطن اور شعور و ورائے شعور کو ایک نگینے میں جڑنے کامشورہ دیا تو یہ بات بہتوں کی سمجھ میں نہیں آئی۔ مگر جب مغرب میں خاندانی اکائی ٹوٹ گئی، باطنی کرب زیادہ تکلیف دینے لگا اور بہت کچھ پاکر بھی بہت کچھ سے محروم رہ جانے کا احساس شدت اختیار کرگیا تو یہ حقیقت بہتوں نے قبول کرلی کہ زندگی میں وہ بھی شامل ہے جس کا ہم ادراک رکھتے ہیں اور وہ بھی جس کا ادارک نہیں رکھتے۔
 اس پس منظر میں امریکی شاعرہ لوئیس گلوک (Louise Gluck) کو ادب کا نوبیل انعام دیا جانا ایک ایسی راہ کھولنے کے مترادف ہے جس پر تخیل حقیقت کی، سادگی پُرکاری کی اور ذات کائنات کی ہم سفر بن جاتی ہے۔ ۲۰۱۸ء میں یہ انعام اس لئے کسی کو نہیں دیا گیا تھا کہ فیصلہ کرنے والی کمیٹی کے ذمہ داروں یا ذمہ داروں میں سے بعض پر جنسی استحصال کرکے فائدہ پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں ایک ساتھ دو سال کے انعام کا اعلان کیا گیا۔ ۲۰۱۸ء کیلئے پولینڈ کی شاعرہ ’’اولگا توگا چرک‘‘ کو اور ۲۰۱۹ء کیلئے آسٹریا کے ’’ پیٹر ہنڈکے ‘‘ کو منتخب کیا گیا مگر ہنڈکے کیخلاف یہ بات گردش کرتی رہی کہ بوسینا میں نسل کشی کرنے والی سربیائی قاتلوں کے وہ طرفدار رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ادب کے نوبیل انعام کے سلسلے میں ماضی میں تنازعات اٹھتے رہے ہیں۔ اس بار بھی کافی اختلاف تھا، فیصلہ کرنیوالی کمیٹی کے چیئرمین اینڈرس اولسن (Andrs Olsson) کا خیال تھا کہ لوئیس گلوک کو یہ انعام نہیں ملنا چاہئے کیونکہ امریکہ میں بھی وہ بہت زیادہ مشہور نہیں ہیں اور دوسری زبانوں میں ان کی تخلیقات کے ترجمے بھی نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن مباحثے کے بعد فیصلہ ان کے حق میں کردیا گیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نوبیل پرائز کے سلسلے میں بحث اور دلائل سے کام لیا جاتا ہے۔
 لوئیس کی شاعری کا تعلق یا شعری بصیرت کا ابتدئی نقطہ ان احساسات و مشاہدات اور تجربات سے عبارت ہے جو ان کے بچپن، ذاتی زندگی اور آلائش و آزمائش کو حسن و خیر میں تبدیل کرنے کی کوششوں کے درمیان حاصل ہوئے۔ دھیرے دھیرے یہی نقطہ انسان، حیات اور کائنات کو محیط ہوگیا۔ حیات و کائنات کے جو رمز ہیں وہ سب نہیں سمجھ سکتے مگر حیات و کائنات میں جو کشش ہے اس سے کوئی بیگانہ بھی نہیں ہے۔ لوئیس کی شاعری بھی رمز و کنایہ سے بھری ہوئی ہے۔ ہر شخص ان کی تشریح نہیں کرسکتا مگر ان میں زندگی کے ناخوشگوار تجربات سے بھی خوشگوار احساس و پیغام کشید کرنے کا جو عمل ہے وہ ہر سلیم الطبع شخص محسوس کرسکتا ہے۔
 بزمِ فطرت کی رعنائیوں کو اپنے اندر جذب کرلینے کی بھی بڑی خوبصورت مثالیں موجود ہیں لوئیس کی شاعری میں، اور کورونا کے قہر کے درمیان ان کی معنویت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ فطرت سے ہم آہنگی، بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی ہم رشتگی اور جز و کل کی پیوستگی مشرق کی زبانوں کی شاعری کی خاصیت ہے جس کو مغرب بھول گیا تھا۔ لوئیس کی شاعری پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مشرقی روح نے مغربی لباس زیب تن کرلیا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری کو جب مغرب والوں نے پڑھا تھا تو ان کے دلوں میں گدگدی پیدا ہوئی تھی۔ ان کو دیئے گئے نوبیل انعام کے مختلف محرکات میں ایک اہم محرک یہ بھی تھا۔ لوئیس کی شاعری کی مختلف خصوصیات میں ایک یہ بھی ہے کہ یہ خارجی دنیا اور متعلقاتِ دنیا پر توجہ دینے کے ساتھ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے اور باطن سے ہی تلخیوں کو شیرینیوں میں تبدیل کرنے کی توانائی حاصل کرتی ہے۔
 ترجمے کی اپنی حدود ہیں۔ میر، غالب، اقبال اور ابوالکلام کی فکر اور پیغام کو تو کسی حد تک دوسری زبان میں منتقل کیا جاسکتا ہے مگر ان کی نظم و نثر کے محاسن کو منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ لوئیس گلوک کی چند نظموں کو میں نے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ لغات کا بھی سہارا لیا ہے مگر ناکام رہا ہوں۔ لفظوں کا مطلب سمجھ لینے سے شاعری کی تشریح نہیں ہوتی۔ لوئیس کی شاعری میں فکر اور پیغام سے زیادہ جذبہ، مشاہدہ، معصومانہ حیرت اور خیر و خوبصورتی میں خود جذب ہوجانے یا ان کو جذب کرلینے کی ترنگ شامل ہے اور یہ جو کچھ بھی ہے شاعری کے تابع ہے۔ شاعرانہ احساس اور شاعرانہ پیرایۂ بیان میں اس کے اظہار نے قاری یا سامع کے اندر والہانہ عشق کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ان کی نظمیں سحر انگیز اور دل ربا حسن آفرینی سے شروع ہوتی ہیں مگر پھر ان میں معارف و اسرار کا انکشاف ہونے لگتا ہے۔ ان کے بعض مصرعے پڑھ کر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ تخیل ہو یا اسلوب اور پیرایۂ بیان سادگی سے بڑھ کر حسین و دلکش کچھ ہے ہی نہیں۔ ہمارے شاعر نے بھی کہا ہے کہ:
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے
 لوئیس انگریزی کی استاذ ہیں۔ انہوں نے کم عمری میں شاعری شروع کی۔ سرد و گرم سے گزریں اور آخری ایام میں انہیں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تو فیصلہ کرنے والوں نے خاص طور پر یہ جملہ لکھا کہ لوئیس تبدیلی اور حیاتِ نو کی مغنیہ ہیں۔ انہیں وہ خزاں دیدہ بلبل بھی کہا جاسکتا ہے جس کی آنکھوں میں بہار کے جذبے اور زبان پر انسان کی سربلندی کے نغمے ہیں۔ میں تو یہی کہہ کر لوئیس کو مبارکباد دوں گا کہ تمہاری شاعری میں مقصد و موضوع کے اعتبار سے معروضیت ضرور ہے مگر اس شاعری کی جو خوبی دلوں کو مسخر کرتی ہے وہ اس کا ’’ رنگِ تغزل ‘‘ ہے۔ رنگِ تغزل اب عورتوں یا محبوب سے بات کرنے تک محدود نہیں، بحیثیت کل زندگی کی ادائوں سے لطف اندوز ہونے کا نام ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK