تعلیمی سال، جو گزر گیا، طلبہ کے نقصان، والدین کی بے فکری یا فکرمندی اور اساتذہ کی حسب معمول بے اعتنائی یا خلاف ِمعمول جانفشانی سے عبارت رہا۔
EPAPER
Updated: May 02, 2021, 12:04 PM IST | Mumbai
تعلیمی سال، جو گزر گیا، طلبہ کے نقصان، والدین کی بے فکری یا فکرمندی اور اساتذہ کی حسب معمول بے اعتنائی یا خلاف ِمعمول جانفشانی سے عبارت رہا۔
تعلیمی سال، جو گزر گیا، طلبہ کے نقصان، والدین کی بے فکری یا فکرمندی اور اساتذہ کی حسب معمول بے اعتنائی یا خلاف ِمعمول جانفشانی سے عبارت رہا۔ کہا جاسکتا ہے کہ ملی جلی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں تک طلبہ کا سوال ہے، یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کتنے طلبہ کوتعلیمی نقصان کا احساس ہے مگر جنہیں احساس نہیں ہے یا جن کے بارے میں یہ گمان ہے کہ انہیں احساس نہیں ہے اُن کے اپنے مسائل بھی ہیں۔ اسے صرف اور صرف عدم دلچسپی نہیں کہا جاسکتا۔ وہ طلبہ جن کے بارے میں سمجھا جارہا ہے کہ اسکول سے ناطہ توڑ چکے ہیں (ڈراپ آؤٹ)، اُن کے معاشی مسائل سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لاک ڈاؤن کے دوران بہت سوں کی معاشی حالت ابتر ہوئی ہے۔ ایسے خاندانوں کے جو طلبہ محنتی اور تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے ہیں اُن کے ساتھ مسئلہ گھریلو آمدنی میں اضافے کیلئے کام کرنے کا ہے ۔و ہ چھوٹے موٹے کاموں کی تلاش میں رہے۔ یہ اُن کی مجبوری تھی۔
۶؍ اپریل کے نیو انڈین ایکسپریس میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں، جو ریاست ِ کرناٹک سے متعلق ہے، بتایا گیا ہے کہ گڈگ ضلع کے متعدد قصبات کے نوعمر کام کی تلاش میں گڈگ سٹی پہنچتے رہے۔بہت سے کانٹراکٹر بھی قصبات اور دیہات کا دورہ کرتے رہے تاکہ نوعمروں کو ایک یا دو ماہ کے معاہدہ پر محنت مزدوری کیلئے آمادہ کریں۔اس رپورٹ میں اوڈپی، شمالی کرناٹک اور دیگرعلاقوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ میسورکی متعدد غیر سرکاری تنظیموں نے آزادانہ سروے کے ذریعہ تعلیم سے اسکولی طلبہ کی دوری کو سمجھنے کی کوشش کی تو افسوسناک انکشاف ہوا۔ ان میں سے ایک سوامی وویکانند یوتھ موومنٹ کے سروے میں کہا گیا کہ میسور میں ۲۶؍ فیصد طلبہ یومیہ اُجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے ایسا کررہے ہوں۔ اسے والدین کی تائید حاصل رہی ہوگی۔ اس بنیاد پر یہ قیاس غلط نہیں کہ دیگر ریاستوں کی صورتحال بھی ایسی ہی تھی!
ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران تقریباً تمام ریاستوں میں تعلیمی سرگرمیاں کافی ڈھیلے ڈھالے انداز میں جاری تھیں جس سے طلبہ کی دلچسپی متاثر رہی۔ اس میں قصور آن لائن تعلیم کے تکنیکی مسائل کا بھی تھا جو اظہر من الشمس ہے۔ نتیجتاً گھر ہی پر رہنے والے طلبہ بھی تعلیم کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے۔
والدین کے اپنے مسائل ہیں۔ جن کا روزگار سلامت نہیں رہ گیا ہے اُن کے ساتھ دو وقت کی روٹی کا مسئلہ ہے اور جن کا روزگار سلامت ہے وہ غیر متوقع حالات کی سختی سے پریشان رہے۔ انہوں نے یہ سوچ کر تعلیمی خرچ بچانے کی کوشش کی کہ خدا جانے کن حالات کا سامنا ہو۔ اس طرح عام دنوں میں وہ بچوں کی تعلیم کی جتنی فکر کرتے تھے، لاک ڈاؤن کے دوران نہیں کرسکے۔
رہ گئے اساتذہ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے اساتذہ نے حالات کے غیر یقینی ہونے کا فائدہ اُٹھایا اور گاؤں چلے گئے یا ذمہ داریوں سے بچنے کے بہانے تلاش کرتے رہے مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جن کی فرض شناسی لاک ڈاؤن سے متزلزل نہیں ہوئی۔ ہر ریاست کے تعلیمی محکموں کو ایسے اساتذہ کی پزیرائی کا خاص اہتمام کرنا چاہئے خواہ وہ کسی انداز میں ہو۔ اس کے برخلاف اُن اساتذہ سے باز پرس ہونی چاہئے جو لاک ڈاؤن کو تعلیمی تعطیل سمجھ رہے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایک سال کے تعلیمی نقصان کی بھرپائی کیسے ہو۔ اس کا کوئی منصوبہ ہنوز محکمہ تعلیم کے سامنے نہیں ہے جبکہ ا س کی اشد ضرورت ہے۔ n