اکیسویں صدی میں ۲۵؍ سال گزارنے کے بعد تعلیم کیا ہوتی ہے ، کیوں دی جاتی ہے اور اس کا حاصل کرنا کیوں ضروری ہے یہ ہر خاص وعام پر واضح ہوچکا ہے۔
EPAPER
Updated: June 29, 2025, 2:04 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اکیسویں صدی میں ۲۵؍ سال گزارنے کے بعد تعلیم کیا ہوتی ہے ، کیوں دی جاتی ہے اور اس کا حاصل کرنا کیوں ضروری ہے یہ ہر خاص وعام پر واضح ہوچکا ہے۔
اکیسویں صدی میں ۲۵؍ سال گزارنے کے بعد تعلیم کیا ہوتی ہے ، کیوں دی جاتی ہے اور اس کا حاصل کرنا کیوں ضروری ہے یہ ہر خاص وعام پر واضح ہوچکا ہے۔ خواہ وہ شہروں میں رہنے والے لوگ ہوں یا دیہات میں مگر وقتاً فوقتاً اس یقین پر تذبذب منڈلانے لگتا ہے ۔ ایک طالب علم یہ سوچتا ہے کہ تعلیم تو میں حاصل کروں گا مگر کیا مجھے ملازمت ملے گی۔ اس طالب علم کے جملے کا پہلاحصہ خوداعتمادی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ دوسرا حصہ تذبذب کو ۔ دوسرا طالب علم یہ سوچتا ہے کہ انگریزی میں اس کی کافی دلچسپی ہے اور وہ بہت اچھی انگریزی سیکھ سکتا ہےمگر ایک سیاستداں بیان دیتا ہے کہ عنقریب وہ دن آئے گا جب انگریزی بولنے والا شرم محسوس کرے گا۔ یہاں بھی جملے کے پہلے حصے سے طالب علم کا اعتماد جھلکتا ہے مگردوسرے حصہ میں سیاستداں کا بیان تذبذب پیدا کرتا ہے۔ ملکی حالات میں اس طرح کی بے شمار مثالیں بہت آسانی سے مل جائیں گی۔ ان حالات کا تجزیہ یہ سمجھانے کیلئے کافی ہوتا ہے کہ ایک طرف یقین اور اعتماد ہے (یعنی صلاحیت وذہانت ہے ) اور دوسری طرف تذبذب پیدا کرنے والے محرکات۔ کیا یہی وجہ ہے کہ ملک کی کئی ریاستیں سوفیصد خواندگی کے ہدف کو اب تک نہیں پاسکی ہیں ؟کیا یہی وجہ ہے کہ پانچویں کا طالب علم دوسری جماعت کی کتاب نہیں پڑھ سکتا؟ کیا یہی وجہ ہے کہ پیشہ جاتی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ ، جن کے ہاتھوں میں قیمتی ڈگریاں ہوتی ہیں ، بڑ ی کمپنیوں میں ملازمت کے قابل نہیں سمجھے جاتے؟ کیا یہی وجہ ہے کہ ملک میں غیر ملکی یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنے کارجحان بڑھ رہا ہے ؟
ایسے سوالات بہت سے لوگوں کے ذہن میں ہیں مگر ان کا جواب نہیں ملتا ۔ تعلیم کی اہمیت ، اس کی ضرورت اور اس کی وسیع ترافادیت پر سوالیہ نشان لگنا ہی نہیں چاہئے۔ گھروں میں والدین سے لے کر مرکزی سطح پر اعلیٰ سیاستدانوں تک کسی کو یہ جرأت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلیم پر کوئی سوال اٹھائے۔ہر خاص وعام کی دلچسپی ہونی چاہئے کہ نئی نسل کا ایک ایک فرد اپنی پسندکے مطابق بہترین اور معیاری تعلیم سے آراستہ ہو۔اس کے لئے ایسا ماحول بنے جس میں اسے معقول روزگاربہ آسانی دستیاب ہو۔تعلیم اہم ہے اوراس کی اہمیت کا ذکر ہر ایک کی زبان پر ہونا چاہئے۔ تعلیم فائدہ مند ہےاور اس کا فائدہ ہر ایک کو نظر آنا چاہئے۔
فائدہ کو دیکھنے کا نظریہ بھی بدلنا چاہئے۔ سروے کروالیجئے بیشتر لوگوں کی رائے یہی سامنے آئے گی کہ تعلیم کا مقصد اچھا روزگار اور اچھا معیار ِ زندگی ہےجبکہ یہ تعلیم کے مقاصد میں سے ایک ہے ، واحد مقصد نہیں ہوسکتا۔اگر ہمارا خیال درست ہے کہ عوامی رائے تعلیم کو صرف روزگار سے جوڑ کر دیکھتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے دانشوروں اور سیاستدانوں کو سب سے پہلے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ تعلیم کا حقیقی مقصد عوام پر واضح کیاجائےاور تعلیم کے سلسلہ میں پیدا ہونے والے کسی بھی تذبذب کو دور کیاجائے؟ اس کیلئے سماج کے سنجیدہ فکر افراد کو بھی اپنے حلقۂ اثر میں تعلیم کے وسیع تر مقاصد پربات کرنی چاہئے۔جہاں یہ ضروری ہے کہ سلسلہ تعلیم منقطع کرنے والوں کو تعلیم سے دوبارہ جوڑا جائے وہیں سلسلۂ تعلیم جاری رکھنے والوں پر تعلیم کے مقاصد واضح کئے جانے چاہئیں ۔ یہ ایسا موضوع ہے جو سنجیدہ غوروفکر اور مخلصانہ عمل کا تقاضا کرتا ہے۔