Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسلامی شریعت میں وقف کا تصورعبادات اور معاشرتی خدمات کے سنگم پر قائم ہے

Updated: May 30, 2025, 3:08 PM IST | Dr. Khurshid Ashraf Iqbal | Mumbai

مسلمانوں کی علمی تاریخ میں وقف کے تحت ہزاروں مدارس اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، جنہوں نے علم کی ترویج اور مہذب معاشرے کی تعمیر میں میں اہم کردار ادا کیا۔ طلبہ کی سہولت کے لئے رہائش گاہیں (خانات)، پینے کے لئےصاف پانی اور مسافروں کے لئے سرائے، مسافر خانے اورراستوں کی تعمیر بھی وقف کے ذریعے ہوئی،علمی مراکز کے ساتھ ساتھ غیرملکی طلبہ کے لئے رہائش (رواق)، بلکہ علیحدہ کمرے مختص کئے گئے، جہاں انہیں مفت خوراک اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

اسلام نے انسانی فلاح و بہبود کے لئے متعدد ذرائع فراہم کیے ہیں۔ ان میں سے بعض واجب ہیں، جیسے زکوٰۃ، کفارات اور نذریں، جو ہر مسلمان پر لازم ہیں اور ان کے وجوب میں کوئی اختلاف نہیں، اس کے علاوہ کچھ ذرائع خالص رضاکارانہ ہیں جیسے خیرات، ہبات اور وقف۔ 
 جب ایک مسلمان اپنی مرضی سے اپنے مال سے دستبردار ہوتا ہے، تو وہ اسلام کی طرف سے انسانیت کے لئے عطا کردہ رحمت کی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔ وہ خود غرضی اور انانیت کے تنگ دائرہ سے آزاد ہو کر اپنی ذات سے آگے بڑھتا ہے اور پورے معاشرہ کو خیر و برکت سے نوازتا ہے۔ وہ انا اور مادیت کے چنگل سے نکل کر پورے معاشرے کے لئے خیر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ 
 یہ عمل رسولؐ اللہ کے اس فرمان کی زندہ تفسیر ہے: ’’ مومنوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے: جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو پورا جسم بے چینی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (صحیح بخاری) 
وقف اسلامی تعلیمات کا ایک اہم اور مؤثر نظام ہے جو اپنے وسیع مفہوم کے ساتھ، صدقہ جاریہ کی سب سے پائیدار اور مؤثر شکل ہے۔ اس کی منفرد خصوصیات جیسے لامحدود دائرہ کار، مستقل اثر اور معاشرتی ضروریات کے مطابق ڈھل جانے کی صلاحیت اسے دوسری خیراتی سرگرمیوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اسلامی شریعت میں وقف کا تصور عبادات اور معاشرتی خدمات کے سنگم پر قائم ہے۔ تاریخِ اسلام میں وقف نے تعلیم، صحت، غربت کے خاتمے، اور معاشی ترقی کے میدان میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، وقف نے مسلم معاشروں میں رحم، اخوت، اور باہمی تعاون کی فضاء قائم کی ہے، چاہے سیاسی یا معاشی حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ رہے ہوں۔ یہ نظام نہ صرف سماجی یکجہتی کو فروغ دیتا ہے بلکہ فرد میں اجتماعی ذمہ داری کا شعور بھی بیدار کرتا ہے، جس سے وہ اپنے بھائیوں کی مشکلات کو اپنی مشکل سمجھنے لگتا ہے۔ 
وقف کا مفہوم : وقف، عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں روک دینا یا مخصوص کر دینا۔ 

یہ بھی پڑھئے:بیت اللہ ظاہری طور پر بھی پوری کائنات کا مرکز ہے اور روحانی طور پر بھی

فقہی اصطلاح میں وقف اس مستقل خیر کو کہتے ہیں جس میں کوئی شخص اپنی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو اللہ کی رضا کے لئے اس طرح مخصوص کر دیتا ہے کہ اس کے منافع کو فلاحی کاموں میں استعمال کیا جائے اور اصل جائیداد کو باقی رکھا جائے۔ 
وقف کی مشروعیت قرآن، سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔ ‘‘ (آل عمران:۹۲)۔ اسی طرح حدیثِ عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں خیبر کی زمین کے بارے میں فرمایا: ’’اگر چاہو تو اس کی اصل کو روک دو (یعنی بیچو نہیں ) اور اس کی پیداوار صدقہ کرتے رہو۔ ‘‘ (متفق علیہ) 
وقف کی اہمیت و افادیت اس حدیث میں بھی واضح ہے: ’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، نفع بخش علم، یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے۔ ‘‘ (صحیح مسلم) عملی طور پر، نبی ﷺ نے مدینہ میں مخیرق یہودی کے سات باغات کو پہلا اسلامی وقف بنایا۔ بعد ازاں صحابہ کرام نے اس سنت کو اپنایا، حتیٰ کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’نبی ﷺ کے کسی بھی صاحبِ استطاعت صحابی نے وقف کرنے سے گریز نہیں کیا۔ ‘‘
وقف ایک خیراتی نظام کے طور پر قدیم زمانے سے موجود ہے، لیکن اسلامی وقف اپنی موجودہ شکل میں ایک منفرد اسلامی خصوصیت رکھتا ہے جو دیگر تہذیبوں یا اقوام کے خیراتی کاموں سے بالکل مختلف ہے۔ اسلامی وقف محض عبادت گاہوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ معاشرے کے تمام خیر کے پہلوؤں کو محیط ہے۔ اس کا دائرہ کار اعلیٰ انسانی جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ وقف کے فوائد صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ غیر مسلموں (اہل ذمہ) تک بھی پھیلتے ہیں۔ مثال کے طور پر، حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا نے اپنے یہودی بھائی کے لئے بھی وقف کیا تھا۔ 
مسلمانوں نے اپنی املاک کا بڑا حصہ خیر کے کاموں کے لئے وقف کیا، جس کی رہنمائی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ نے کی۔ حضرات ابوبکر، عمر، عثمان، علی، زبیر بن العوام، معاذ بن جبل، زید بن ثابت، حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت صفیہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر، سعد بن ابی وقاص، خالد بن ولید، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ نے وقف کی عظیم روایت قائم کی۔ بعد میں تابعین اور ائمہ نے بھی اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ 
وقف اپنی نمایاں خصوصیات کی وجہ سے دیگر خیراتی منصوبوں سے ممتاز رہا، اور انہی کی بنا پر یہ نظام صدیوں تک مسلم معاشرے میں زندہ رہا، یہاں تک کہ وقف کے مصارف کی وسعت دیکھ کر کوئی بھی حیران رہ جاتا ہے۔ معاشرے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کیلئے وقف کے ذریعے عملی اقدامات کئے گئے۔ سماجی نقطہ نظر سے وقف، مسلمان کے اس رحمدلانہ جذبے کی عکاسی کرتا ہے جو وہ معاشرے کی مشکلات کے حل کے لئے دکھاتا ہے۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں وقف کی ترقی اس کی واضح مثال ہے۔ مسلم معاشرہ کی اولین وقف مساجد تھیں، جیسے مسجد قباء جو رسولؐ اللہ کی مدینہ تشریف آوری کے وقت تعمیر ہوئی۔ اس کی دیگر اہم مثالیں : مکہ و مدینہ کے حرمین شریفین، جامعہ ازہر (قاہرہ)، جامع اموی (دمشق)، جامع قروین (مراکش) اور جامع زیتونہ (تیونس) ہیں۔ 
مسلمانوں کی علمی تاریخ میں وقف کے تحت ہزاروں مدارس اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں ، جنہوں نے علم کی ترویج اورمہذب معاشرے کی تعمیر میں میں اہم کردار ادا کیا۔ طلبہ کی سہولت کے لئے رہائش گاہیں (خانات)، پینے کے لئےصاف پانی اور مسافروں کے لئےسرائے، مسافر خانے اورراستوں کی تعمیر بھی وقف کے ذریعے ہوئی، علمی مراکز کے ساتھ ساتھ غیرملکی طلبہ کے لئے رہائش (رواق)، بلکہ علیحدہ کمرے مختص کئے گئے، جہاں انہیں مفت خوراک اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔ اس نظام کی وجہ سے اسلامی دنیا میں علم حاصل کرنے کے لئے مسلسل انسانی نقل و حرکت جاری رہی۔ 
ابن جبیر نے مشرقی اسلامی دنیا میں غیر ملکی طلبہ کےلئے کی جانے والی دیکھ بھال پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق، دور دراز سے آنے والے طالب علم کو مفت رہائش اور اساتذہ کی رہنمائی میسر آتی تھی۔ سلطنت کی طرف سے غیر ملکی طلبہ کے لئے حمام، ہسپتال، اور روزانہ دو روٹیوں کا انتظام کیا جاتا تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے مغربی ممالک سے آنے والے طلبہ و زائرین کے لئے مصر میں جامع ابن طولون کو رہائشی مرکز کے طور پر وقف کیا اور ان کی ماہانہ ضروریات پوری کرنے کیلئے مالی امداد کا بندوبست کیا۔ 
وقف نے معاشرے کے کمزور طبقات کی مکمل سماجی دیکھ بھال میں کلیدی کردار ادا کیا، اسی کے ساتھ مسلمانوں نے یتیموں کی پرورش اور تعلیم پر خاص توجہ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے‘‘ اور آپؐ نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر اشارہ کیا۔ (بخاری) سلطان ظاہر بیبرس نے ’’مکتب السبیل‘‘ قائم کیا، جہاں یتیموں کو روٹی اور موسمی کپڑے دیئے جاتے تھے۔ 
 مدینہ منورہ میں ’’دار الایتام‘‘ (ہندوستانی حجاج کی جانب سے قائم کردہ) ایک اور مثال ہے، جسے شیخ عبدالغنی دادا نے ۱۳۵۲ ہجری میں وقف کیا۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ اسلامی دنیا کے تقریباً ہر شہر میں ایسے زاویے اور مراکز موجود تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ادارے معذوروں، بوڑھوں، بے سہارا خواتین اور دیگر کمزور افراد کیلئے مستقل پناہ گاہوں میں تبدیل ہو گئے۔ وقف کے ذریعے سفر کے راستوں کو بھی محفوظ بنایا گیا۔ وقف کا نظام سماجی فلاح و بہبود میں ایک اہم ستون تھا۔ زیادہ تر وقف دستاویزات میں غریبوں اور محتاجوں کی مدد کا ذکر ملتا ہے، خواہ وہ نقدی کی صورت میں ہو یا عین شکل میں (جیسے کھانا، کپڑا، یا علاج)۔ مثال کے طور پر، سلطان ظاہر بیبرس نے روٹی خریدنے اور غریبوں میں تقسیم کرنے کے لئے وقف قائم کیا۔ اسی طرح، ’’وقف الطرحاء‘‘ نامی ایک وقف غریبوں کے غسل، کفن اور تدفین کے اخراجات برداشت کرتا تھا۔ 
وقف نے معاشرتی ربط کو بھی مضبوط کیا۔ واقف اپنی سماجی ذمہ داری پوری کرتا تھا، جبکہ مستفیدین کو اپنے معاشرہ سے وابستگی کا احساس ہوتا تھا۔ وقف نے سماجی نقل و حرکت (Social Mobility) کو فروغ دیا، یعنی غریب طبقے کے افراد کو معاشی اور تعلیمی ترقی کے مواقع فراہم کیے۔ ایک ہونہار طالب علم وقف کی مدد سے تعلیم حاصل کر کے قاضی، مفتی، یا دیگر اعلیٰ عہدوں تک پہنچ سکتا تھا۔ 
وقف نےمعاشرتی و اخلاقی اقدار کو بھی پروان چڑھایا۔ مثال کے طور پر، مطلقہ یا بے سہارا خواتین کے لئے ربطہ بنائے گئے تاکہ وہ معزز زندگی گزار سکیں اور معاشرتی بے راہ روی سے بچ سکیں۔ اسی طرح، قیدیوں کی رہائی، ان کے قرضوں کی ادائیگی، ان کے اہل خانہ کی کفالت اور جیل میں موجود افراد کو ہنر سکھانے کے لئے وقف قائم کیے گئے، تاکہ وہ رہائی کے بعد معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ 
یہی نہیں، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کی مدد، ضرورتمندوں کو کپڑے، غریب بچوں کو دودھ پلانے کا انتظام، مقروضوں کے قرضے ادا کرنے، غریب مریضوں کا مفت علاج اور غریب لڑکیوں کی شادی کے اخراجات پورے کئے گئے۔ 
(باقی آئندہ ہفتے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK