حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر نزولِ قرآن کے ہزاروں سالہ دور میں عرب کے خطہ میں کوئی منظم حکومت نہیں تھی، یہاں پر قبائلی نظام رائج تھا۔ مصر، شام، روم، ایران اور ہندوستان وغیرہ میں تو باقاعدہ حکومتیں تھیں مگر جزیرہ نمائے عرب میں کوئی مرکزی تنظیم نہیں تھی۔
مکہ مکرمہ کی فضا سے لی گئی ایک تصویر۔ تصویر: آئی این این
اس افراتفری اور نفسانفسی کے عالم میں بھی اللہ تعالیٰ نے حرم پاک کو لوگوں کے قیام اور بقا کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ سال بھر میں چار حرمت والے مہینوں کے دوران لڑائی بند رہتی تھی، قافلے بلا روک ٹوک سفر کر سکتے تھے، خوب تجارت ہوتی تھی اور لوگوں کو امن حاصل ہوتا تھا اور یہ سب کچھ بیت اللہ شریف کے احترام کی وجہ سے ہوتا تھا۔
یہاں پر لوگوں کے قیام سے مراد یہ ہے کہ اس محترم گھر کی وجہ سے لوگ قائم ہو سکتے تھے یعنی اپنی زندگی بسر کر سکتے تھے۔ اگر امن و امان کے یہ چار مہینے بھی لوگوں کو میسر نہ ہوتے تو جنگ و جدال اور لوٹ مار کی وجہ سے ہر قسم کا کاروبار، کھیتی باڑی اور تجارت ٹھپ ہو کر رہ جاتے اور لوگوں کو زندگی گزارنا محال ہو جاتا۔ قیام کا یہ معنی سورۃ نساء میں یوں بیان ہوا ہے ’’اور تم بے سمجھوں کو اپنے (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔ ‘‘ (سورہ نساء:۵) بیت اللہ شریف بھی اسی لحاظ سے ذریعہ معاش ہے اور اس کی بدولت لوگ گزر اوقات کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کو حکم ہے :’’اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، اور جو (اس کا) منکر ہو تو بیشک اللہ سب جہانوں سے بے نیاز ہے۔‘‘ (آل عمران:۹۷)
جب لوگ وہاں جاتے ہیں تو کعبہ شریف کا طواف کرتے ہیں، تلاوت کرتے ہیں، صفا و مروہ کی سعی کرتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں۔ اور یہی چیزیں ہیں جن کی بدولت عازمینِ حج و عمرہ کو جسمانی، روحانی، علمی اور اخلاقی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حج میں بھی فرمایا ہے کہ حج کے موقع پر لوگوں کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں (تاکہ وہ اپنے فوائد (بھی) پائیں: سورہ حج:۲۸)۔ اس لحاظ سے بیت اللہ شریف کو لوگوں کے قیام یعنی گزران کے ذریعے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک وہاں عبادت ہوتی رہے گی طواف اور قربانی ہوتی رہے گی، نمازیں ادا ہوتی رہیں گی، دنیا بھی قائم رہے گی… اور جب یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی تو دنیا قائم نہیں رہے گی۔
سورہ آل عمران (آیت:۹۶) میں بیان ہوا ہے: ’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکز ِ) ہدایت ہے۔‘‘
بعض احادیث میں آتا ہے کہ حرم شریف میں ہر روز اللہ تعالیٰ کی ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں کے لئے اور باقی ساٹھ دیگر عبادت گزاروں کے لئے مخصوص ہیں۔ اللہ کی یہ خصوصی رحمتیں ہیں، دیگر مہربانیوں کے علاوہ ہیں۔ انہی کثرتِ فضائل کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ کھنچ کھنچ کر آتے ہیں اور گزران کا ذریعہ بنتے ہیں۔
بیت اللہ شریف ظاہری طور پر بھی پوری کائنات کا مرکز ہے اور روحانی طور پر بھی۔ یہ اہل اسلام کا مرکز ہے، جب تک مسلمان اس کی مرکزیت کو قائم رکھیں گے خود انہیں دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل رہے گی اور جب یہی مرکزیت ٹوٹ گئی تو مسلمان بھی دُنیا میں ذلیل ہو کر رہ جائیں گے۔ مقامِ افسوس ہے کہ اہلِ اسلام کی یہ مرکزیت ایک عرصہ سے ختم ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں مسلمان ہر مقام پر ذلت کی علامت بن رہے ہیں۔ بیت اللہ شریف کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اصلاح، تکمیلِ اخلاق، روحانیت اور علومِ ہدایت کا مرکز بنایا ہے۔ اسی سرزمین میں پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی نشاۃ ہوئی۔ قرآن کریم یہیں نازل ہوا۔ اسی بیت اللہ شریف کو ہمیشہ کے لئے نمازوں کا قبلہ مقرر کیا گیا، اسے حج و عمرہ کا مرکز بنایا گیا، لہٰذا یہ لوگوں کے قیام کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہے۔ اس کی شرف و عزت قربِ قیامت تک قائم رہے گی۔
بلاشبہ، جب تک کعبہ شریف اور دیگر شعائر اللہ کی عزت و حرمت اور مرکزیت قائم ہے دنیا قائم ہے اور یقیناً قائم رہے گی، او، جب یہ نہ رہے گی تو دنیا بھی باقی نہیں رہے گی۔