Inquilab Logo

پسماندہ مسلمانوں کی فکر اور بی جے پی

Updated: July 09, 2022, 10:53 AM IST | Mumbai

حیدرآباد میں بی جے پی کی مجلس عاملہ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ کہا کہ ہمیں پسماندہ مسلمانوں کی طرف دیکھنا چاہئے، اُنہیں قریب کرنا چاہئے۔

Narendra Modi.Picture:INN
وزیر اعظم نریندر مودی۔ تصویر: آئی این این

حیدرآباد میں بی جے پی کی مجلس عاملہ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ کہا کہ ہمیں پسماندہ مسلمانوں کی طرف دیکھنا چاہئے، اُنہیں قریب کرنا چاہئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’اب ہمیں مزید سماجی طبقات کے ساتھ کام کرنا ہوگا، اقلیتوں اور اُن طبقوں کی طرف دیکھنا ہوگا جو حاشئے پر ہیں، اُنہیں ۸؍ سال میں ہونے والے ترقیاتی کاموں سے واقف کرانا   اور یہ جائزہ لینا ہوگا کہ سرکاری اسکیمیں فیض پانے والوں پر کس طرح اثرانداز ہورہی ہیں (وکاس لابھانش ہمارے لابھارتھیوں کو کیسے پربھاوت کررہا ہے)۔ہمیں یقین ہے کہ میٹنگ میں موجود پارٹی کے لیڈران اور کارکنان نیز وہ صحافی جنہیں مدعو کیا گیا ہوگا، وزیر اعظم کے اس مشورہ پر حیرت زدہ رہ گئے ہوں گے۔ جب یہ خبر منظر عام پر آئی تب بھی بہتوں کو تعجب ہوا ہوگا اور لوگوں کے ذہنوں میں سوال اُبھرا ہوگا کہ کیا بی جے پی کی پالیسی تبدیل ہوئی ہے؟ اب تک تو مسلمانوں کو کپڑوں سے پہچاننے اور ووٹ کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچانے کی باتیں ہورہی تھیں، اب پسماندہ مسلمانوں پر نگاہ التفات ڈالی جارہی ہے، یقیناً یہ بڑی تبدیلی ہے، مگر کیا یہ اچانک رونما ہوئی؟ ہمارے خیال میں یہ تبدیلی یوپی الیکشن سے پہلے رونما ہوچکی تھی مگر اسے ظاہر  نہیں کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم اور پارٹی کے دیگر لیڈران جب لابھارتھیوں کا ذکر بار بار کررہے تھے تب لابھارتھیوں کا مطلب صرف غیر مسلم لابھارتھی نہیں تھا۔ اس میں وہ مسلمان بھی شامل تھے جو غریب ہیں اور سرکاری اسکیموں سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظر اُن کے ووٹوں پر بھی تھی چنانچہ بتایا جاتا ہے کہ انتخابی حلقوں میں پہنچنے والے کارکنان اور اُمیدوار لابھارتھی مسلمانوں تک بھی پہنچ رہے تھے۔ ہمارے پاس ایسے اعدادوشمار نہیں ہیں جن سے اس کی توثیق ہوسکے کہ یوپی کے غریب مسلمانوں نے بھی پارٹی کو ووٹ دیا اور اگر ایسا ہوا ہے تو اُن کی تعداد کتنے فیصد تھی مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یوپی میں شدید پارٹی مخالف لہر کے باوجود بی جے پی کو کامیابی ملی جس میں بڑا ہاتھ لابھارتھیوں کا ہے جنہوں نے صرف اتنا دیکھا کہ اُنہیں مہینے کا راشن مل رہا ہے جو بالکل مفت ہے۔ 
 ہمارے خیال میں پسماندہ مسلمانوں سے بی جے پی کی دوستی کی کوشش کا دوسرا پہلو پارٹی کے تعلق سے پائی جانے والی عام رائے کو بدلنا ہے تاکہ وہ محدود نہ رہے ۔ ووٹ حاصل کرنے کیلئے جو حکمت عملی ۲۰۱۴ء کیلئے تیار کی گئی تھی اس کے ذریعہ ’’وکاس‘‘ کو موضوع بناکر ہر طبقے کو جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ کوشش کامیاب ہوئی مگر وکاس کے نام پر کچھ خاص نہیں ہوا تھا اس لئے ۲۰۱۹ء میں موضوعات بدلے گئے اور بڑی مہارت کے ساتھ دلتوں، پسماندہ طبقات اور دیگر کو بھی جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کوشش بھی کامیاب ہوئی۔ مگر مسلسل کامیاب ہوتی رہے یہ ممکن نہیں ہے، اینٹی اِن کمبینسی بہرحال رہتی ہے اس لئے ’’مزید طبقات‘‘ کو جو لابھارتھی بھی ہیں قریب لانے کی جانب پہل کی گئی ہے۔ اس کا تیسرا پہلو، جو ہماری سمجھ میں آتا ہے، نپور شرما اور نوین جندل کے تنازع سے پیدا شدہ حالات ہیں۔ ان کے خلاف معمولی، وہ بھی پارٹی کی سطح پر کی جانے والی کارروائی، کے بعد خلیجی ملکوں کو یہ تو سمجھا دیا گیا کہ فکر نہ کریں ہم کارروائی کررہے ہیں مگر شاید نپور اور نوین کی دریدہ دہنی کے مقابلے میں یہ سمجھانا زیادہ مؤثر نہ ہوتا اسلئے پسماندہ مسلمانوں کو موضوع بنالیا گیا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK