تمام اخبارات، یوٹیوب چینل اور مبصرین اِس وقت کانگریس کی خامیوں پر بحث و مباحثے کیلئے ہر طرح کی دلیل سے اِس طرح لیس ہیں جیسے کسی بڑے عدالتی مقدمے کی پیروی کیلئے کوئی ماہر وکیل سے دلائل کے ساتھ عدالتی سماعت کیلئے حاضر ہوتا ہے۔یہ فطری بھی ہے۔
EPAPER
Updated: December 05, 2023, 1:27 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
تمام اخبارات، یوٹیوب چینل اور مبصرین اِس وقت کانگریس کی خامیوں پر بحث و مباحثے کیلئے ہر طرح کی دلیل سے اِس طرح لیس ہیں جیسے کسی بڑے عدالتی مقدمے کی پیروی کیلئے کوئی ماہر وکیل سے دلائل کے ساتھ عدالتی سماعت کیلئے حاضر ہوتا ہے۔یہ فطری بھی ہے۔
تمام اخبارات، یوٹیوب چینل اور مبصرین اِس وقت کانگریس کی خامیوں پر بحث و مباحثے کیلئے ہر طرح کی دلیل سے اِس طرح لیس ہیں جیسے کسی بڑے عدالتی مقدمے کی پیروی کیلئے کوئی ماہر وکیل سے دلائل کے ساتھ عدالتی سماعت کیلئے حاضر ہوتا ہے۔یہ فطری بھی ہے۔ جو ہارتا ہے اُسے بہت کچھ سننا پڑتا ہے۔ جیتنے والوں کی خامیوں پر کوئی ہلکا سا تبصرہ بھی نہیں کرنا چاہتا۔ کانگریس کے خلاف محاذ آرائی میں خواص بھی ہیں عوام بھی ہیں اور وہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد بھی جس میں شامل پارٹیوں کو شکایت تھی کہ پانچ ریاستوں کے انتخابات کے دوران کانگریس نے خود کو ’’انڈیا‘‘ کے سائے سے بھی دور رکھنے کی کوشش کی۔ ان پارٹیوں کے لیڈروں نے انتخابی نتائج کے حتمی اعلان سے قبل ہی کانگریس کے خلاف لعن طعن شروع کردی جس کی گونج دوسرے دِن بھی سنائی دیتی رہی۔ یہ شکایت برائے شکایت نہیں ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سیٹوں کی تقسیم کیلئے جو میٹنگیں عنقریب منعقد ہوں گی اُن میں کانگریس، زیادہ سے زیادہ سیٹیں چھوڑنے کیلئے تیار رہے۔ اِس طرح دیکھا جائے تو یہ داؤ اُلٹا پڑ گیا۔ کانگریس مول تول کی طاقت بڑھانے کے مقصد سے ان ریاستوں کے انتخابی نتائج کا انتظار کررہی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر اپنی دعویداری درج کرائے مگر اب کانگریس کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ثابت ہوچکا ہے کہ ملک کی قدیم و عظیم پارٹی بی جے پی کا مقابلہ تنہا نہیں کرسکتی۔ بھارت جوڑو کی مقبولیت اور کرناٹک کی فتح نے پارٹی کے حق میں جو تاثر پیدا کیا تھا، وہ راجستھان، ایم پی اور چھتیس گڑھ کی ناکامی سے بڑی حد تک زائل ہوا ہے اور کانگریس کی مشکلات بڑھ گئی ہیں ۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں اَب زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔ اتنے بڑے الیکشن کیلئے محض چار ماہ کافی نہیں ، اور، اب تو بھارتیہ جنتا پارٹی میں نیا جوش و خروش پیدا ہوچکا ہے۔
مگر، تین بڑی ریاستوں کی ناکامی سے صرف اور صرف نقصان نہیں ہوا، تھوڑا بہت فائدہ بھی ہوا ہے۔ مثلاً، سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت تنازعے میں اب اتنا دم خم باقی نہیں رہے گا۔ایسے حالات پیدا نہیں ہو ں گے کہ کمل ناتھ اور دگ وجے سنگھ کے درمیان پائے جانے والے تنازعات میڈیا میں آسکیں ۔ ان ناکامیوں کی وجہ سے کانگریس بات چیت کی میز پر انکساری کا مظاہرہ کرسکے گی جو ’’انڈیا‘‘ کیلئے بہتر ثابت ہوگا۔ اس کی وجہ سے اتحاد میں شامل پارٹیوں کی کانگریس سے رسہ کشی کم ہوگی۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ راہل گاندھی ملکارجن کھرگے کو اعتماد میں لے کر اُن سینئرس کو دباؤ میں لے سکیں گے جو خود کو پارٹی سے بڑا سمجھنے کی غلطی کرجاتے ہیں یا وقت اور حالات نے اُنہیں عملاً پارٹی سے بڑا بنادیا تھا۔ ریونت ریڈی کو موقع دینے کا جو تجربہ تلنگانہ میں کیا گیا ویسا ہی تجربہ راجستھان اور ایم پی میں کیوں نہیں کیا جاسکا؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ راہل اور کھرگے، گہلوت،کمل ناتھ اور بھوپیش بگھیل سے دریافت کریں کہ آپ پر پارٹی نے بھروسہ کیا تو آپ عوام کا بھروسہ حاصل کرنے میں کیوں ناکام رہے۔
ہم نہیں جانتے کہ کانگریس اب کن خطوط پر کام کریگی، دوبارہ بھارت جوڑو یاترا نکلے گی یا نہیں ؟ اگر نکلی تو اُسے پہلے جیسا رِسپانس ملے گا یا نہیں ؟ اگر رِسپانس ملا تو اہل ِکانگریس اُسے بھنا سکیں گے یا نہیں ؟ ان سوالوں کے جواب کیلئے انتظار کرنا پڑیگا مگر ایک بات طے ہے کہ کانگریس کو فوراً سے پیشتر ایکشن میں آجانا چاہئے۔