Inquilab Logo

اس میں کانگریس کا فائدہ ہے

Updated: March 25, 2023, 10:21 AM IST | Mumbai

راہل گاندھی کو جس ’’سزا‘‘ کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی رُکنیت سے برخاست کیا گیا ہے اُس پر بہت کچھ کہا سنا جاسکتا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

راہل گاندھی کو جس ’’سزا‘‘ کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی رُکنیت سے برخاست کیا گیا ہے اُس پر بہت کچھ کہا سنا جاسکتا ہے۔ گجرات کی عدالت کے اس فیصلے میں کئی تکنیکی سوال تشنہ ٔ جواب ہیں۔ مثال کے طور پر راہل گاندھی کو متعلقہ دفعہ میں تجویز کی گئی زیادہ سے زیادہ سزا کا مستحق کیوں سمجھا گیا جبکہ اُنہوں نے جس سیاق و سباق میں جملہ ٔ معترضہ کہا تھا وہ عوامی مفاد میں تھا۔ وہ ملک کے بینکوں کو نقصان پہنچانے والے افراد کے خلاف تھا جو قانون کی نظر میں گناہگار ہیں۔ جس شہر میں (کولار) راہل گاندھی نے تقریر کی تھی، عدالت سے رجوع ہونے کا عمل بھی اسی ریاست میں ہونا چاہئے تھا۔ یہ قانونی تقاضا ہے مگر تقریر کیرالا میں ہوئی اور سزا گجرات میں سنائی گئی۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ہتک عزت کا یہ کیس داخل کرنے والے وہ نہیں ہیں جن کا نام راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں لیا تھا۔ یہ کوئی اور صاحب ہیں جن کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ہتک عزت کا نہیں بلکہ سیاسی ہے اور کیس سیاسی فائدہ اُٹھانے کے مقصد سے داخل کیا گیا تھا۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ کیس چار سال پرانا ہے مگر اس میں فیصلہ اور فیصلے پر کارروائی محض دو دن میں ہوئی۔ اگر ۱۷؍ مارچ سے جوڑا جائے جب سورت کی عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا تو چھ دن ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں عدالتی عمل کی رفتار کس قدر سست ہوتی ہے اس کا علم سب کو ہے۔ اس کیس میں تیز رفتاری کی عمدہ مثال قائم کی گئی جبکہ ہائی کورٹ سے اس پر اسٹے لیا گیا تھا کہ نچلی عدالت میں کیس کی شنوائی نہ ہو مگر وہاں سے کیس واپس لے کر اسے دوبارہ نچلی عدالت میں جاری کیا گیا اور آناً فاناً فیصلہ ہوا۔ رہی پارلیمانی کارروائی، تو اس میں ایسا لگا جیسے محضر تیار تھا اور مہر لگنے کی دیر تھی۔جمعرات، ۲۳؍ مارچ فیصلہ اور سزا کا دن تھا اورجمعہ، ۲۴؍ مارچ نااہل قرار دیئے جانے کا دن۔ یہاں بھی کرونولوجی (سلسلۂ واقعات، کب کیا ہوا) اس قابل ہے کہ اسے خاص طور پر ملاحظہ کیا جائے۔ 
 اس پس منظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ منصوبہ بند طریقے سے ہوا  تاکہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت سے سوال پوچھنے والے ایک بے خوف رُکن پارلیمان کے پر کتر دیئے جائیں، اُسے رُسوا کیا جائے اور اُس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی حد طے کردی جائے۔ اس میں شک نہیں کہ فیصلہ اور سزا عدالت نے سنائی ہے اور قانون کے مطابق کسی بھی رُکن پارلیمان یا رُکن اسمبلی پر الزام ثابت ہوجائے اور عدالت اُسے مجرم قرار دے دے تو اس پر پارلیمنٹ یا اسمبلی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں مگر یہ اتنا سادا کیس نہیں تھا۔ اس کا تعلق ملک کی سیاست سے ہے، بھارت جوڑو یاترا کی غیر معمولی کامیابی سے ہے اور اڈانی تنازع میں راہل کے سوال پوچھنے سے ہے۔ جمہوریت میں صحتمند تنقید کرنے والوں کی قدر کی جانی چاہئے مگر عموماً یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ تنقید کو گوارا نہیں کیا جاتا۔ یہاں بہت اچھا ہوتا اگر وزیر اعظم نریندر مودی، راہل گاندھی کے سوالوں کے جواب دے دیتے یا اپنی جانب سے کسی وزیر کو اس کام پر مامور کردیتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ راہل گاندھی کے سوالوں کو تسلسل کے ساتھ نظر انداز کیا گیا اور سوال پوچھنے کی اُن کی جرأت کا بہت زیادہ اثر لیتے ہوئے اُن کیخلاف کارروائی کی الگ راہ نکالی گئی۔ اس معاملہ کو ملک کے عوام بھی اسی طرح دیکھ رہے ہیں۔ بہرکیف جو کچھ بھی ہوا وہ ہماری جمہوریت کیلئے فال نیک نہیں ہے، یہ الگ بات کہ اس سے راہل اور کانگریس کو فائدہ ہوگا۔ فائدہ کی پہلی جھلک ، ممکن ہے ، کرناٹک کے رزلٹ میںدکھائی دے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK