Inquilab Logo

کانگریس کا صدارتی الیکشن اور ملک کے سیاسی حالات

Updated: September 22, 2022, 1:53 PM IST | Khalid Sheikh

ظاہر ہے کہ حالات تشویشناک ہیں جس کے درجنوں شواہد اس حد تک واضح ہیں کہ ایک عام آدمی بھی بہت کچھ بتاسکتا ہے۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

عام انتخابات کو ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے لیکن ہندوتوا وادیوں میں خوش فہمی اتنی ہے جیسے انہوں نے ابھی سے بازی مار لی ہے۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جب تک اپوزیشن سے جے پرکاش نرائن جیسا لیڈر نہیں ابھرتا، مودی اور بی جے پی سے چھٹکارا پانا مشکل ہوگا۔ بنیادی وجہ اپوزیشن کا انتشار ہے۔ اس کے لیڈران، مودی اور بی جے پی کو ہرانے پر متفق  ہیں، متحد نہیں۔ کانگریس کی حالت سب سے بری ہے۔ اسے یوپی اے کے دوسرے دَور کی بداعمالی اور خوشامدی ٹولہ لے ڈوبا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں شرمناک شکست اور راہل گاندھی کے پارٹی صدارت سے استعفے کا بھی اس ٹولے پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے جو گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس کا تصور نہیں کرسکتا۔ جبکہ سینئر  لیڈروں کا دوسرا طبقہ قیادت میں تبدیلی کا خواہاں ہے۔ بدقسمتی سے اس کشمکش سے نکلنے اور صدارتی الیکشن کا اعلان کرنے میں پارٹی ہائی کمان کو تین سال لگ گئے۔۷؍اکتوبر کو ہونے والے الیکشن اور راہل کے متعدد اعلانات کے باوجود کہ اگلا صدر گاندھی خاندان کے باہر کا ہوگا، خوشامدی ٹولہ حسب روایت اپنا کام کررہا ہے۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ سمیت دیگر پانچ ریاستوں کی یونٹوں نے ایک ایسے وقت میں راہل کو دوبارہ صدر بنانے کی قرارداد منظور کی ہے جب وہ گانگریس کے احیاء اور عوامی رابطے کی غرض سے بھارت جوڑو یاترا پر ہیں۔ یہ اختلاف اس وقت بھی سامنے آیا جب ایک طرف سونیا گاندھی سے ملاقات کے بعد پارٹی ایم پی ششی تھرور کا الیکشن لڑنا تقریباً طے ہے اور دوسری طرف راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے بھی اپنا ارادہ ظاہر کردیا ہے۔ گہلوت نہرو گاندھی خاندان کے کافی قریب ہیں۔ اگر وہ یا ٹولے کا کوئی دوسرا امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کی حیثیت کٹھ پتلی جیسی ہوگی جس کی ڈور گاندھی خاندان کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس وقت پارٹی کو ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے جو ڈھرے سے ہٹ کر سوچنے، سمجھنے، حالات کے تحت حکمت عملی اختیار کرنے اور مودی اور بی جے پی کو انہی کے لب و لہجے میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
 ان حالات میں ہندوتوا وادیوں کی خوش فہمی کو بے جا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر بی جے پی ۲۰۲۴ء کا الیکشن غالب اکثریت کے ساتھ جیت جاتی ہے تو مودی حکومت کو ہندوتوا کا باقیماندہ ایجنڈا لاگو کرنے میں دشواری نہیں ہوگی، خاص طور پر اس  صورت میں جب تمام سرکاری و آئینی ادارے اور ایجنسیاں اس کے تابع ہیں۔ چنانچہ گڑے مردے اکھاڑے جارہے ہیں اور نئی قبریں تیار کی جارہی ہیں۔ پچھلے مضمون میں ہم نے بتایا تھا کہ سپریم کورٹ میں گیان واپی مسجد، شاہی عید گاہ اور حجاب جیسے کئی تنازعات زیرغور ہیں۔ عدالت نے سی اے اے اور تحفظ عبادت گاہ قانون کو سماعت کے لئے منظور کرلیا ہے جبکہ تعدد ازواج اور حلالہ پر حکومت کے ساتھ متعلقہ تنظیموں اور اداروں سے جواب مانگا ہے۔ ساتھ ہی ایک مسلم مطلقہ خاتون کی   پٹیشن پر عدالت نے قرآن حکیم میں  دی گئی ’طلاق حسن‘ کی قانونی حیثیت اور مہر کی قلیل رقم کا جائزہ لینے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے اور حکومت سے یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں استفسار کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کیا کررہی ہے۔ ان تمام معاملات کی ضرب صرف مسلمانوں پر پڑتی ہے تاکہ ان کی مذہبی شناخت و علامات کو ختم کرکے ملک میں ہندوراشٹر کے قیام کی راہ ہموار کی جائے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ، یہ بتانا مشکل ہے مگر موجودہ ملک کو ہندوراشٹر بنانے کی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جارہا ہے۔
 امسال فروری میںپریاگ راج کے ماگھ میلے کے دوران ہوئی دھرم سنسد میں یہ طے پایا کہ ہندوؤں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہندو راشٹر کا قیام وقت کی اہم ضرورت اور تقاضا ہے ورنہ مسلم دہشت گردی میں اضافے کی وجہ سے کئی ریاستوں میں ہندو اقلیت میں آجائیں گے۔ یہ منطق ہماری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ اب تک  اس کی وجہ ’’ہم پانچ ہمارے پچیس‘‘ بتائی جارہی تھی۔ بہرحال مذکورہ دھرم سنسد میں ہندوراشٹر کے سلسلے میں جو پہلا  قدم اٹھایا  گیا وہ آئین کی تدوین تھا۔ اسے ترتیب دینے کیلئے ۳۰؍ ممبران کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں سادھوسنتوں، مذہبی لیڈروں اور اسکالرس کے علاوہ سپریم کورٹ کا ایک وکیل اور دفاعی اُمور کا ایک ماہر شامل ہے۔ اس خیالی پلاؤ کے تحت آئین ۷۵۰؍ صفحات کا ہوگا اور کئی قسطوں میں جاری کیا جائے گا۔ پہلی قسط کے طور پر ۳۲؍صفحات کا مسودہ تیار کیا جاچکا ہے جسے اگلے سال ماگھ میلے میں ہونے والی دھرم سنسد میں پیش کیا جائے گا۔ بحث و مباحثہ کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے اس پر مختلف ماہرین اور عوام کی رائے لی جائے گی ۔  مسودے کےجو مشمولات منظرعام پر آئے ہیں، ان میں کئی باتیں چونکانے والی ہیں، مثلاً: (۱) ہندو راشٹر کی راجدھانی دہلی کے بجائے وارانسی ہوگی یا اجین جیسے دوسرے ناموں پر بھی غورکیا جاسکتا ہے۔ (۲)مسلمانوں اور عیسائیوں کو ووٹنگ کے علاوہ دیگر شہریوں کے سارے حقوق حاصل ہوں گے۔ ووٹنگ کا حق صرف ہندو، جین، بدھسٹ اور سکھ برادری کو حاصل ہوگا اور چونکہ مسلمان اس سے محروم ہوں گے اس لئے ان میں کوئی بھی صدر، وزیراعظم  یا وزیراعلیٰ نہیں بن پائے گا۔ یہ اور دیگر اعلیٰ مناصب صرف ہندوؤں کے لئے مخصوص ہوں گے۔ (۳) برطانوی طرز کی پارلیمنٹ کی جگہ  ’’پارلیمنٹ آف رلیجنس‘‘ (Parliament Of Religions) لے لے گی جس کے ۵۴۳؍ ممبر ہوں  گے اور جن کا انتخاب ’’ورن آشرم ‘‘ کی بنیاد پر ہوگا۔ (۴) تمام قانونی دستاویزات سنسکرت میں ہونگے اور نچلے، پچھڑے اور پسماندہ طبقات کیلئے ریزرویشن نہیں ہوگا۔ خود ہی سوچئے، اگر یہ مسودہ ٹریلر ہے تو پوری فلم کیسی ہوگی۔ مگر یہ بھی طے ہے کہ ملک کے ’ہندوراشٹر‘ بننے کے مواقع بے حد کم ہیں کیونکہ برادرانِ وطن کی غالب اکثریت آج بھی سیکولر اور امن و انصاف پسند ہے اور کثرت میں وحدت اور جیو اور جینے دو کی قائل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہری دوار اور رائے پور کی دھرم سنسد میں مسلم اور گاندھی دشمن تقاریر اور بلقیس بانو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی اکثریت برادرانِ وطن کی ہے جنہیں مذہب کی بنیاد پر ایسی ناانصافی برداشت نہیں۔

congress Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK