راہل گاندھی کی یاترا جب تلنگانہ میں آئی تو عوام نے اس میں بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا،کے سی آر کو بھی اس کی توقع نہیں تھی لیکن اسی یاترا کے بعد کرناٹک میں الیکشن ہوئے، بی جے پی اور مودی نے ساری طاقت لگا دی لیکن راہل بلکہ اس سے بھی پہلے پرینکا نے بی جے پی کی چولیں ہلا دیں۔ کرناٹک کی ہار نے تلنگانہ کی سیاست کو بھی دہلا دیا۔
راہل گاندھی کی ریلی۔تصویرآئی این این
گزشتہ ہفتہ تلنگانہ کے حیدرآبار میں بلکہ اس سے کچھ کلومیٹر دور پر نو ساختہ کانگریسی مجلس عاملہ کے ۸۴؍ اراکین کی پہلی میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ کے بعد ایک بڑی ریلی بھی کی گئی۔ ریلی میں کتنے لوگ جمع ہوئے اس کا اندازہ صرف ان کو ہوگا جنہوں نے سوشل میڈیا پر اس ریلی کے عکس دیکھے۔ ایسی ریلیوں میں جمع ہونے والی بھیڑ کا اندازہ کرنا ایک عبث عمل ہوتا ہے۔ ریلی کرنے والے بھیڑ کا ایک انداز ہ بتاتے ہیں اور ریلی کے مخالفین بالکل دوسری بھیڑ کا اندازہ دیتے ہیں لیکن بہر حال ریلی میں جمع ہونے والوں کا جوش و خروش کانگریس کے مخالفین کے لئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہ ہوگا۔ یہ بھیڑ اس راہل گاندھی کو سننے کے لئے جمع ہوئی تھی جو راج کرنے والی راہداری سے کوسوں دور کھڑا ہے۔ جس کے پاس کوئی کرسی نہیں ہے، جو کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ نہیں ہے،دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ کے سی آر کو اس ریلی سے اپنی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر دھچکا ضرور محسوس ہوا ہوگا۔
خیر، کے سی آر کی کرسی کا انجام تو اب بھی کچھ ماہ کی دوری پر ہے لیکن اس ریلی نے اسد الدین اویسی کی ’زور دار‘ سیاسی حیثیت کو بالکل دہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک تو راہل نے اپنی تقریر میں اویسی کا نام نہیں لیا مگر ان کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم کا نام لے کر یہ بتایا کہ اویسی ، کے سی آ ر اور بی جے پی کے ساتھ مل کر کانگریس سے لڑ رہے ہیں ، چلئے یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ اس طرح کی ریلیوں میں مخالفین کا نام لیا ہی جاتاہے لیکن اویسی اس وقت دوہری مار کھا رہے ہیں ۔ دوسری مار سے ہماری مراد یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ کانگریس اور ا’نڈیا‘ کی مار کھا رہے ہیں اور اسی کے ساتھ کے سی آر بھی ان کو اور ان کی مدد کو ترچھی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ، اس میں شبہ نہیں کہ حیدرآباد اور اس کے آس پاس کے اضلاع میں اویسی کا مسلمانوں پر ایک اثر تھا لیکن کانگریس کی مسلمانوں میں بڑھتی مقبولیت کے بعد اب کے سی آر کو یقین نہیں ہے کہ اویسی انہیں تلنگانہ میں مسلمانوں کے ووٹ دلا سکیں گے۔ اس طرح دیکھا جائے تو اویسی کا سیاسی مستقبل خاصا تاریک نظر آتا ہے۔کانگریس اور انڈیا اب کے سی آر اور ان کی پارٹی کے تلنگانہ کے عوام سے غافل نہیں رہی، ظاہر ہے موجودہ حالت میں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے تمام وعدوں کو پورا نہیں کر سکتی لیکن حکومت پر کسی بڑی دھوکہ دہی کا الزام بہر حال نہیں ہےلیکن کے سی آر سے دو غلطیاں بہر حال ہوئیں ، انہیں بھی علم ہےاور تلنگانہ کے عوام کو بھی علم تھا کہ تلنگانہ ریاست کے قیام کے بارے میں تمام کانگریس پارٹی اس کی طرفدار نہیں تھی، کانگریس پارٹی کا بہت بڑا حصہ تلنگانہ بنانے کے خلاف تھا، کانگریس پارٹی میں صرف ایک سونیا گاندھی تھیں جو اس ریاست کے قیام کے حق میں تھیں اور ایک ایسا موقع بھی آیا کہ سونیا نے پوری پارٹی کی مخالفت لے کر تلنگانہ کے قیام کے حق میں فیصلہ کیا، شروع میں کے سی آر نے اس کیلئے سونیا کا بہت شکر ادا کیا لیکن جب کانگریس کمزور ہونے لگی اور سیاسی افق پر بی جے پی کا سورج طلوع ہونا شروع ہوا تو کے سی آر بھی ڈگمگانے لگے، پہلے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مرکز کی سیاست میں نہ کانگریس کےحامی ہوں گے اور نہ بی جے پی کےلیکن مودی کاعروج ہوتے ہی ان کی یہ پالیسی بدلنے لگی۔ انہوں نے لوک سبھا میں کئی ایسے بلوں میں بی جے پی کا ساتھ دیا، حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ کانگریس ان کی مخالف تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے خلاف کئی بلوں میں بی جے پی کی حمایت کی۔ انہوں نے کشمیر کے بارے میں بھی بی جے پی کا ساتھ دیا، ان بلوں سے تلنگانہ کا کچھ لینا دینا بھی نہیں تھا، کانگریس نے ،کے سی آر سے اس پر احتجاج بھی کیا، لیکن کے سی آر پوری طرح مودی کے ساتھ رہے۔ ہمارا خیال تھا کہ تلنگانہ کے عوام کو کے سی آر کی یہ عادتیں اچھی نہیں لگیں ۔
اس دوران راہل گاندھی کی پد یاترا شروع ہوئی، یہ یاترا تمل ناڈو سے شروع ہوئی تھی، لیکن دوسری ریاست تلنگانہ ہی تھی، یہ یاترا جب تلنگانہ میں آئی تو عوام نے اس میں بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا،کے سی آر کو بھی اس کی توقع نہیں تھی لیکن اسی یاترا کے بعد کرناٹک میں الیکشن ہوئے، بی جے پی اور مودی نے ساری طاقت لگا دی لیکن راہل بلکہ اس سے بھی پہلے پرینکا نے بی جے پی کی چولیں ہلا دیں ۔ کرناٹک کی ہار نے تلنگانہ کی سیاست کو بھی دہلا دیا، کے سی آر کی پارٹی کے بہت سے اراکین بی جے پی سے خوش نہیں تھے۔ کرناٹک کے الیکشن کے بعد وہ بھی کانگریس اور راہل کی طرف ملتفت ہونے لگے۔ اسی درمیان کے سی آر کی بیٹی کا شراب گھوٹالے میں نام آنے لگا۔ ان کی بیٹی نے بھی سونیا سے ملاقاتیں کیں ۔ کے سی آر کا اقتدار ہلنے لگا۔ اس بیچ تلنگانہ میں راہل کی ایک ریلی نکلی۔ اس ریلی کے بعد یہ خبریں پھیلنے لگیں کہ کے سی آر کی پارٹی کے کچھ لوگ کانگریس کے پاس جا رہے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ کرناٹک میں کانگریس کی جیت کے بعد ان لوگوں کو بھی یہ اندیشہ ہوا کہ کے سی آر کی پارٹی کا بھی کہیں وہی انجام نہ ہو جو کرناٹک میں جے ڈی ایس کا ہوا تھا۔ انہیں اپنی اپنی ناؤ ڈگمگاتی ہوئی محسوس ہونے لگی،حالیہ ریلی نے رہی سہی کسر بھی پوری کرد ی۔ا س کے بعد راہل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ تلنگانہ بھی کانگریس جیت لے گی۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ کے سی آر اب بھی مضبوط ہیں لیکن ان کی یہ مضبوطی کب تک رہے گی اس پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
کرناٹک جنوبی ہند کی وہ پہلی ریاست تھی، جہاں سے بی جے پی نے کانگریس کے پاؤں اکھاڑ دیئے تھے لیکن اس کے بعد جنوب کی دوسری ریاستوں میں بھی کانگریس کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی، کانگریس نے اب کرناٹک پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے، اب اس کی نظریں جنوب کی دوسری ریاستوں پر ہیں ، تلنگانہ اور پھر آندھر پردیش اس کی اگلی منزلیں ہیں ، راہل گاندھی کی عوام سے قربت اور ان کی مقبولیت کی وجہ سے اب تلنگانہ پر ان کی نظر ہے۔یاد رہے کہ تلنگانہ اورآ ندھرپردیش میں گزشتہ دس سال سے کانگریس کی کوئی پوزیشن ہی نہیں رہی۔ ہم نہیں سمجھتے کہ گزشتہ عام انتخابات میں کانگریس نے یہاں سے کوئی سیٹ جیتی تھی ۔راہل گاندھی سے اب جنوب میں بھی کانگریس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور کانگریس کا ترنگا جھنڈا تھامنے والوں کے دلوں میں ایک بار پھر یہ خواہش پیدا ہورہی ہے کہ یہ ترنگا ایک بار پھر ان ریاستوں میں لہرایاجائے جہاں یہ پہلے سے موجود تھا اور یہ جھنڈا تلنگانہ میں لہرانے کیلئے بے قرار ہے۔