Inquilab Logo

کانگریس کا نیا ویلفیئر ایجنڈہ ملک میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتا ہے

Updated: November 19, 2023, 4:17 PM IST | Kancha Elijah Shepherd | Mumbai

کانگریس کا نیا فلاحی ایجنڈا جو کرناٹک میں گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران پیش کیا گیا تھا،اب اسے تلنگانہ میں اپ گریڈ کیا گیا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

کانگریس کا نیا فلاحی ایجنڈا جو کرناٹک میں گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران پیش کیا گیا تھا،اب اسے تلنگانہ میں اپ گریڈ کیا گیا ہے۔اس ایجنڈے نے بی جے پی اور اس کے دائیں بازو کے ماہرین اقتصادیات کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ یہاں تک کہ کانگریس حامی قدامت پسند ماہرین اقتصادیات اور پارٹی کے روایتی دانشور بھی اس موضوع پر آپس میں الجھے ہوئے ہیں ۔سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور پی چدمبرم جیسے تجربہ کار لیڈر بھی گاؤں کی پیداواری آبادی کیلئے اتنے بڑے پیمانے پر فلاحی اقدامات کی منظوری نہیں دے پائے تھے لیکن موجودہ کانگریس نے اسے ایک مشن کے طور پر لیا ہے۔
دیہی کسانوں اور مزدوروں کو ماہانہ پنشن کےطورپر بینک کھاتوں میں رقموں کی منتقلی.... اس کے تحت۵۵؍ سال سے زائد عمر والوں کیلئے ۵؍ ہزار روپے اور ’رعیتو بندھو‘ جیسی اسکیموں کے تحت سالانہ ۱۵؍ ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے کسانوں کو فراہم کرنا ہے۔اسے ایک سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ کانگریس نے اصلاحات کے طور پر ہر مزدور کے خاندان کو سالانہ ۱۲؍ہزار روپے بھی دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس طرح کی رقموں کی منتقلی کو کاشتکاری کی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو دیہی معیشت کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
اسی طرح ایک خیال یہ بھی ہے کہ جنوبی ہندوستان میں یہ فلاحی ایجنڈہ گاؤں کی دلت/ قبائلی/ او بی سی اور شودر آبادی کی قوت خرید میں اضافہ کرے گی جو ہندوستان میں دولت کے حقیقی مالک ہیں ، خواہ وہ زراعت سے وابستہ ہوں ہوں یا پھر صنعتی شعبے سے۔ جیسا کہ بہار کی ذات پات کی مردم شماری نے بجا طور پر دکھایا ہے کہ سماجی، سیاسی، معاشی اور تعلیمی میدانوں میں اعلیٰ ذات کے دانشوروں نے ایک بڑے طبقے کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا ہے۔ قومی سطح پر ذات پات پر مبنی مردم شماری ہندوستانی سماجی نظام کے اندر اس بیماری کو واضح کرے گی جس طرح الٹراساؤنڈ کی مدد سے انسانی جسم میں پیدا ہونے والی بیماریوں کاکیا جاتا ہے۔
قدامت پسندماہرین اقتصادیات، خواہ وہ بیرون ملک سے تعلیم یافتہ ہوں یا ہندوستان کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوں ، اس قبیل کی فلاحی اسکیموں کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کی اسکیمیں افرادی قوت کو سست اور کاہل بناتی ہیں ... لیکن سچائی یہ ہے کہ گاؤں میں زراعت کا شعبہ شودر/ او بی سی/ دلت اور قبائلیوں کے ہاتھ میں ہے اور انہیں خوراک پیدا کرنے کیلئے سخت محنت کرنی پڑتی ہے،خواہ انہیں ریاست سے فلاحی امداد ملے یا نہ ملے۔ وہ پیداواری موسم کے دوران سست اور کاہل ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کانگریس کا نیا فلاحی ایجنڈا، اگر ہندوستان میں ملک گیر سطح پر اپنایا جاتا ہے، تو اس کی وجہ سے پیسہ دیہی بازاروں میں منتقل ہو گا جہاں لگژری شاپنگ مالز موجود نہیں ہیں ۔ پیسہ ان بازاروں میں آتا ہے اور تقریباً ایک یا دو ماہ کے اندر ہی دیہاتوں اور چھوٹے بازار والے شہروں میں خرچ ہو جاتا ہے۔ اس سے دیہی معیشت کو تقویت ملے گی جو کہ بی جے پی کی طرف سے بنائی جانے والی شاہراہوں، ہوائی اڈوں اور وندے بھارت ٹرینوں سے بہت دور ہے۔
 یہ دیہی رہائش، تعلیم اور صحت کی ترقی کی قیادت کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے کیونکہ یہ پیداواری افراد اور ان کے خاندانوں کے حالاتِ زندگی کو بہتر بناتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کیلئے بہتر خوراک، لباس اور رہائش کی فراہمی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں آبادی کی پیداواری توانائی میں بھی اضافہ ہوگا اوراس کی وجہ سےان کی عمریں بھی بڑھ جائیں گی کیونکہ ہاتھوں میں پیسوں کی موجودگی سے وہ غذائی قلت سے نمٹنے کا سامان فراہم کرسکیں گے۔
اگر یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ کانگریس آج بھی اپنی پرانی ذہنیت سے پوری طرح آزاد نہیں ہے۔ معیشت کا موجودہ ماڈل جس پر آر ایس ایس اور بی جے پی کام کر رہی ہیں، اسے کانگریس ہی نے ترتیب دیا تھا...... لیکن کانگریس میں اب یہ بدلتا ہوا نظر آ رہا ہے اور اس کا سہرا پارٹی لیڈر راہل گاندھی  کے سر جاتا ہے۔ ان کی علامتی کوششیں، جیسے دھان کی  روپائی کرنا اور کٹائی میں مردوں اور عورتوں کو شامل کرنا، پارٹی کے روایتی نظریے سے ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اپنی دادی اور والد کے برعکس، کسانوں کے ساتھ بات چیت نے انہیں کچھ نیا سکھایا ہے جو کہ ہندوستان میں ذات پات پر مبنی معیشت کا وجود ہے۔ انتخابی نظام سے ہٹ کر، یہ دیکھنا باقی ہے کہ راہل گاندھی کی سیاسی بصیرت ملک کے فلاحی نظام کو کس حد تک نئی شکل دے سکے گی۔ اگرچہ انہوں نے ترقی کے ایک نئے ماڈل پر زور دینا شروع کر دیا ہے، جیسا کہ چھتیس گڑھ کے تجربے میں دیکھا گیا ہے، اسے پورے ہندوستان کا ماڈل بنانا فی الحال ایک بڑا چیلنج  ہے۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ پارٹی کب تک ان کے موقف پر عمل کرتی رہے گی؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK