• Sat, 22 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دل کی فریکوینسی کو موبائل کے بجائے اللہ سے جوڑیئے

Updated: November 21, 2025, 2:33 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

نماز میں خشوع و خضوع کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اپنے باطن کی ساری کھڑکیاں دنیاوی الجھنوں، خواہشات اور فکروں پر بند کر دے اور پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این
نماز میں خشوع و خضوع کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اپنے باطن کی ساری کھڑکیاں دنیاوی الجھنوں، خواہشات اور فکروں پر بند کر دے اور پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے۔ یہ وہ روحانی کیفیت ہے جس میں دل کی دھڑکنیں بھی عبادت کا حصہ بن جاتی ہیں، نگاہیں عاجزی سے جھک جاتی ہیں اور فکر کے آفاق پر صرف اللہ ہی کی عظمت جلوہ گر ہوتی ہے۔ انسان جب ایسے کامل حضورِ قلب کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایمان کی بلند ترین منزلیں اس کے لئے ہموار ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے رب سے ایک ایسے رشتے کا لطف پاتا ہے جس کی مثال دنیا کی کسی لذت میں ممکن نہیں۔
لیکن جب خشوع و خضوع کی کیفیت ماند پڑ جائے اور دل کی یکسوئی میں دراڑ آ جائے تو نماز کی اصل روح دھندلا جاتی ہے۔ پھر وہ عبادت جو دلوں کو روشن کرتی ہے، محض چند حرکات و سکنات کا نام بن کر رہ جاتی ہے اور بندہ اس لذت آشنائی سے محروم ہو جاتا ہے جو رب کے حضور کھڑے ہونے سے وابستہ ہے۔ اُس صورت میں  انسان اپنے باطنی نور سے خالی ہو جاتا ہے۔ اُسے  وہ سکون و سرور میسر نہیں آتا جو ایمان کی حلاوت میں پوشیدہ ہے۔
نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت قرآن و حدیث سے واضح طور پر ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کی کامیابی کی علامت بتاتے ہوئے فرمایا ہے:’’کامیاب وہ مؤمن ہیں جو اپنی نماز میں گہری توجہ اور عاجزی اختیار کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ المؤمنون:۲۱)  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی اصل قوت اسی باطنی کیفیت میں پوشیدہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’انسان نماز سے لوٹتا ہے مگر اس کے لیے اتنا ہی ثواب لکھا جاتا ہے جتنی اس نے توجہ اور یکسوئی کے ساتھ نماز پڑھی ہو، کبھی دسواں حصہ، کبھی  نوواں۔‘‘  (سنن ابوداؤد) یہ دونوں دلائل منطقی طور پر ثابت کرتے ہیں کہ نماز کی قبولیت، تاثیر اور ایمانی ترقی کا حقیقی دارومدار خشوع و خضوع پر ہے اور جب یہ کیفیت کم ہو جائے تو نماز اپنے روحانی اثرات سے محروم ہوجاتی ہے۔
اس تمہید کے پس منظر میں یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ آج ہم میں سے اکثر لوگ اس عظیم نعمت، یعنی نماز میں خشوع و خضوع سے محروم نظر آتے ہیں۔ وہ نماز جو دلوں کو سکون دیتی ہے اور روح کو روشنی بخشتی ہے، ہمارے لئے ایک رسمی عمل بن کر رہ گئی ہے۔ دل دنیا کی طرف بھٹکتا رہتا ہے اور زبان سے ادا ہونے والے الفاظ روح تک نہیں پہنچتے۔
زیر ِ بحث موضوع کا بہت ہی نازک پہلو یہ ہے کہ مسجد میں ہماری حاضری اب پہلے جیسی خالص نہیں رہی، ہم جسمانی طور پر تو اللہ کے گھر میں موجود ہوتے ہیں مگر دل کی ڈوریں ایک ایسی چیز سے بندھی ہوتی ہیں جس نے ہماری توجہ اصل قبلے سے بھٹکا رکھی ہے،وہ کوئی اور چیز نہیں موبائل فون ہے۔ یہ چھوٹی سی مشین ہمارے ذہنوں پر ایسا غلبہ حاصل کر چکی ہے کہ اس کے بغیر چند لمحے بیٹھنا بھی اکثر لوگوں کے لئے دشوار ہے۔ نتیجتاً مسجد جیسی مقدس جگہ میں بھی دل کی فریکوئنسی رب کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے ان بے شمار خیالات اور رابطوں کی طرف مڑ جاتی ہے جو موبائل میں قید ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسےمسجد میں  انسان اپنے رب سے ملاقات کے لئے آیا ہو مگر دل کسی اور کے دروازے پر دستک دے رہاہو۔
عقلی اعتبار سے بھی یہ حقیقت ایک واضح اصول کے طور پر سامنے آتی ہے کہ انسان بیک وقت دو مختلف سمتوں میں مکمل توجہ مرکوز نہیں کر سکتا۔ اس صورت میں انسانی ذہن تقسیم تو ہو سکتا ہے، مگر یکسو نہیں رہ سکتا۔ جب دل کا ایک حصہ موبائل کی کشش میں جکڑا ہوا ہو، نوٹیفیکیشن کی آواز، پیغامات کی توقع، یا سوشل میڈیا کی بے معنی مصروفیات گھیرے ہوں تو پھر نماز میں حضورِ قلب کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ خشوع و خضوع جیسے لطیف اور گہرے احساسات کے لئے مکمل ذہنی و قلبی یکسوئی ضروری ہے اور یہ یکسوئی اُس وقت ممکن نہیں جب انسان کا ایک حصہ دنیا کے شور اور ایک حصہ عبادت کی خاموشی میں بھٹک رہا ہو۔  نفسیاتی زاویئے سے دیکھا جائے تو دل کی توجہ کا دو حصوں میں تقسیم ہونا دراصل خشوع کے مرکز کو ہی کمزور کر دیتا ہےاور نتیجتاً عبادت کی روح اپنے کمال کے ساتھ انسان پر ظاہر نہیں ہو پاتی۔ حد تو یہ ہے کہ اگر مسجد کے احاطے میں کسی کا کال آ جائے تو ہم میں سے بعض لوگ مسجد سے باہر نکلنے کا بھی انتظار نہیں کرتے بلکہ فوراً فون اٹھا کر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف  عبادت کی روح کو مجروح کرتا ہے بلکہ اردگرد عبادت میں مصروف دیگر نمازیوں کے خشوع و خضوع کو بھی شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک لمحے کی بے احتیاطی میں ہم نے نہ صرف اپنی نماز کی وقعت گھٹا دی بلکہ دوسروں کے اطمینانِ قلب اور عبادت کی پاکیزگی پر بھی حملہ کر دیا۔ 
یہ طرزِ عمل اس بات کی دردناک علامت ہے کہ ہم نے نماز کے ادب، مسجد کی حرمت اور عبادت کے سکون کو کس قدر ہلکا سمجھ لیا ہے۔کیا واقعی ہم دس یا پندرہ منٹ کے لئے موبائل کو خود سے جدا نہیں کر سکتے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ اسے گھر، دفتر یا دکان ہی پر چھوڑ کر مسجد آئیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم مسجد میں اسے سائلنٹ پر بھی رکھ دیں تب بھی دل کا ایک کونہ اس کی جانب متوجہ رہتا ہے کہ کب بجے گا، کس کا پیغام آئے گا، کس خبر کی اطلاع ہوگی۔  
عبادت کی راہ میں یہ غیر محسوس خلل دراصل ہماری روحانی کمزوری کا آئینہ ہے۔ اگر ہم چند لمحوں کے لئے اپنے دل کو آزاد کر لیں، اس مصنوعی ربط کو چھوڑ دیں، تو نماز وہی گہری معنویت اور سکون واپس دے سکتی ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔ کیا اللہ رب العزت سے بڑھ کر کسی سے ربط کی اہمیت ہو سکتی ہے؟ جب حقیقت یہ ہے کہ ہر ضرورت، ہر امید اور ہر آسرا اسی کے ہاتھ میں ہے تو پھر آخر ہم اپنے دل کو اس کے لئے خالص کیوں نہیں کر پاتے؟
 آئیے! ہم اس طرف سنجیدگی سے توجہ دیں، اپنے اندر جھانکیں اور اپنی روحانیت کو دوبارہ اس پاکیزگی پر لے آئیں جہاں دل کی ہر دھڑکن ربّ کریم سے ربط کا وسیلہ بن جائے۔ یہی وہ اخلاص ہے جو نماز کو نور، دل کو سکون اور ایمان کو تازگی اور زندگی بخشتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK