• Thu, 23 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

پہلی وحی کے پیغام پر غور اور عمل کیجئے جس میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے

Updated: October 02, 2025, 4:08 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

پیغمبر اسلام ﷺ کی نبوت کا آفتاب جس قوم میں طلوع ہوا، وہ ایک ”اُمی“ قوم تھی۔ اُمی اسے کہتے ہیں جو لکھنا اور لکھی ہوئی چیز کو پڑھنا نہ جانتا ہو۔

Have we ever wondered why knowledge is considered a form of worship in Islam? Photo: INN
کبھی سوچا ہے ہم نے کہ اسلام میں علم کو عبادت کا درجہ کیوں دیا گیا ہے؟ تصویر: آئی این این

پیغمبر اسلام ﷺ کی نبوت کا آفتاب جس قوم میں طلوع ہوا، وہ ایک ”اُمی“ قوم تھی۔ اُمی اسے کہتے ہیں جو لکھنا اور لکھی ہوئی چیز کو پڑھنا نہ جانتا ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ عربوں میں شعر و سخن اور زبان و ادب کا ایک خدا داد مذاق تھا اور وہ اپنے کلام کے ذریعے بربط دل کو چھیڑ نے، لہو کو گرمانے اور محبوب کے لب و عارض کا نقشہ کھینچنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے لیکن یہ اشعار اور ادبی سرمایه زیاده تر سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا تھا، وہ اپنے حافظہ سے تحریر کا کام لیتے اور صفحہ ٔ قرطاس کے بجائے صفحۂ دل پر نقش کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ عربوں میں بعض لکھنے پڑھنے والے بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ اور بنو ہاشم کے شعب ابی طالب میں بائیکاٹ کا واقعہ حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہے، جس میں بائیکاٹ کا تحریری اعلان غلاف کعبہ کے ساتھ آویزاں کرنے کا ذکر ہے۔ قرآن مجید نے بھی ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایک ملکی تاجر پر جب سفر کی حالت میں موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے سامان کی ایک فہرست بنا کر سامان میں چھپادی اور سامان رفقاء سفر کے حوالہ کر دیا۔ اس فہرست نے چوری اور بددیانتی کے راز کو افشاء کیا۔ (المائدة: ۱۰۸-۱۰۶) یہ اور اس طرح کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ عربوں میں تحریر و کتابت کا ذوق موجود تھا، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ مکہ میں صرف سترہ افراد کو لکھنا آتا تھا۔ ( فتوح البلدان : ۶۱-۶۶۰ ) مدینہ کا معاملہ اس سے بھی زیادہ گیا گزرا تھا۔ واقدی نے ان لوگوں کے نام ذکر کئے ہیں، جو مدینہ میں لکھنے سے واقف تھے، جن کی تعداد گیارہ سے آگے نہیں بڑھتی۔ (فتوح البلدان : ۶۴ - ۶۶۳) ہرچند کہ ان اعداد و شمار پر اعتماد دشوار ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ عرب کا بڑا حصہ جہالت اور نا خواندگی کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں تھا اور نہ صرف علم کی دولت سے محروم تھا؛ بلکہ علم کی اہمیت، عظمت اور اس کی ضرورت وافادیت سے بھی نابلد تھا۔ 
 یہ حالات تھے، جب آپ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ اس وحی میں شرک کی تردید اور خدا پر ایمان لانے کا صراحت کے ساتھ ذکر نہیں، جو قرآن کی دعوت کا عطر اور خلاصہ ہے۔ اس وحی میں آخرت کا تذکرہ نہیں، جو ایمان و عمل کا اصل محرک ہے۔ اس وحی میں آپؐ کی نبوت ورسالت کا اعلان نہیں، جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ اس وحی میں ظلم وجور اور نااتفاقی کی مذمت نہیں، جو عرب سماج کے مزاج میں داخل تھی اور اس وحی میں ان اخلاقی برائیوں اور پستیوں پر بھی کوئی تنقید نہیں، جن کی اصلاح کو آپؐ نے اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ یہ پہلی وحی انسانیت کو تعلیم کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اس میں پہلا لفظ ہی اقراء کا ہے، جس کا معنی ہے: ”پڑھو‘‘ پھر ان پانچ آیتوں میں دو جگہ تعلیم وتعلم کا ذکر ہے، ایک میں ’’قلم‘‘ کے ذریعہ تعلیم ہونے کی طرف اشارہ فرمایا گیا: عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ یہ گویا کتابی تعلیم کی دعوت ہے۔ دوسری جگہ ان علوم کی تحصیل پر متوجہ کیا گیا، جو ابھی انسان کی گرفت میں نہیں ہیں اور انسان کی محنت اور اللہ کی مدد سے ہی ان کو حاصل کیا جا سکتا ہے: ’’انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔ ‘‘گویا اس میں تاقیامت آنے والے سائنسی علوم اور ایجادات و انکشافات کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا؛ کیوں کہ ’’علم‘‘ ہی تمام اعتقادی اور عملی و اخلاقی بیماریوں کا علاج ہے۔ 
 غرض آپؐ دنیا میں علم کا چراغ بن کر آئے اور اس جہالت کو اپنا نشانہ بنایا، جس کے سایہ میں برائیاں پنپتی ہیں ؛ اس لئے قرآن مجید نے آپؐ کی جس حیثیت کو زیادہ نمایاں کیا ہے، وہ یہی ہے کہ آپ مُعَلمہیں اور انسانیت مُتَعَلِم: ’’بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسولؐ بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتے اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ ‘‘ (آل عمران ۱۶۴) رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں یہ پہلو اتنا نمایاں نظر آتا ہے کہ مکی زندگی میں بھی باوجود ہر طرح کی مشکلات اور دشواریوں کے آپؐ نے اس کو نظر انداز نہیں فرمایا اور اپنے ایک جاں نثار کے مکان ’’دار ارقم‘‘ کو، جو صفا کی پہاڑی پر واقع تھا، تعلیمی و تربیتی مرکز بنایا۔ مکی زندگی کی ابتداء ہی میں نہ صرف مردوں ؛ بلکہ عورتوں میں بھی پڑھنے لکھنے کا ذوق پیدا ہو گیا تھا، اس کی واضح دلیل حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا واقعہ ہے، جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہن اور بہنوئی کے قرآن پڑھنے کا ذکر ہے۔ قرآن مجید کی کچھ سورتیں ان کے پاس لکھی ہوئی صورت میں موجود تھیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ پڑھنا صرف زبانی ہی نہیں تھا، بلکہ کتاب کے ذریعہ تھا۔ 
 مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد آپؐ نے اولین کام یہی کیا کہ مسجد نبویؐ کی تعمیر فرمائی اور اسی مسجد سے متصل ایک چبوترہ تعلیمی مقصد کے لئے بنایا، جسے صفہ کہا جاتا تھا۔ یہ گویا اسلامی تاریخ کا پہلا مدرسہ تھا۔ اس مدرسہ میں غیر مقیم طلباء بھی تعلیم حاصل کرتے تھے اور دار الاقامہ کا بھی نظم تھا۔ اس درس گاہ میں حالات و مواقع اور واردین کی بڑھتی گھٹتی تعداد کے لحاظ سے طلباء کی تعداد کم و بیش ہوتی رہتی تھی۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ چار سو طلباء نے بحیثیت مجموعی اس درس گاہ سے استفادہ کیا تھا اور قتادہ کی رائے ہے کہ مدرسہ صفہ سے مستفیدین کی تعداد نو سو تک پہنچتی ہے۔ 
(التراتيب الاداریہ : ۱/ ۳۴۰) 
 اس درس گاہ کے نصاب تعلیم کا موضوع قرآن مجید اور احکام کی تعلیم تھی لیکن اس کے علاوہ تحریر و کتابت پر بھی پوری توجہ دی جاتی تھی، جس کی عرب کے اس معاشرہ میں بڑی اہمیت تھی۔ حضرت عبداللہ بن سعید بن عاص انصاریؓ جو غزوۂ بدر میں شہید ہو گئے تھے، اچھے کا تب تھے، آپ ﷺ نے ان کو کتابت سکھانے پر مامور فرمایا تھا۔ ( الاصابہ : ۱۷۷۷) علم و حکمت کے حصول میں آپؐ نے دین و مذہب کے اختلاف کو بھی رکاوٹ نہیں بننے دیا؛ چنانچہ غزوۂ بدر میں جو مشرکین قید ہو کر آئے، ان میں جو لوگ کتابت سے واقف تھے، آپؐ نے ان کا فدیہ یہی مقرر فرمایا کہ وہ مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا ئیں ۔ 
 حضرت عبادہ بن صامتؓ بھی اہل صفہ کو قرآن اور کتابت سکھانے پر مامور تھے۔ (مسند احمد: ۳۱۵/۵) اور حضرت ابی بن کعب، جن کو بارگاہ نبویؐ سے سب سے بڑے قاری ہونے کی سند عطافرمائی گئی تھی، کے ذمہ خاص طور پر قرآن پاک کی تعلیم تھی۔ (قی :۱۲۶/۶)
 رسولؐ اللہ نے ”علم“ کو یہ عظمت عطا فرمائی کہ اسے خرید اور فروخت کی جانے والی شئے قرار نہیں دیا؛ بلکہ اسے عبادت کا درجہ دیا، جسے خالصتاً اللہ کی خوشنوی اور خلق اللہ کی خدمت کے جذبہ سے دوسروں تک پہنچایا جائے اور اسے سامان تجارت نہ بنایا جائے۔ حضرت اُبی کے ایک شاگرد نے ایک کمان تحفتاً پیش کی، انھوں نے آپؐ سے اس کے بارے میں دریافت کیا، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم نے یہ کمان لی تو گویا آگ کی کمان حاصل کی۔ ( بیہقی) اس لئے جو اساتذہ اس درس گاہ میں خدمت پر مامور تھے، وہ فی سبیل اللہ خدمت کرتے تھے، اجرت یا محنتانہ نہیں لیتے تھے۔ 
 جو طلباء صفہ میں مقیم تھے، اہل مدینہ ان کے کھانے کا نظم کرتے تھے اور ان کو اپنا اور اپنے رسولؐ کا مہمان سمجھ کر ان کے ساتھ خوب اکرام کا معاملہ فرماتے تھے۔ ان کے طعام کا نظم دو طریقوں پر ہوتا تھا۔ اول یہ کہ خود صفہ میں کھانے کی چیز پہنچادی جاتی، چوں کہ عربوں کی عام غذا کھجور تھی، اس لئے کھجور کے خوشے صفہ کے ستونوں سے لٹکا دیئے جاتے تھے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کے بارے میں مروی ہے کہ دو ستونوں کے درمیان رسی باندھ کر اسی رسی سے کھجور کے خوشے لٹکا دیئے جاتے تھے۔ (التراتیب الاداریہ: ۱/ ۴۷۵)۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ کچھ طلباء کو اپنے گھر لے جاتے اور ان کو کھانا کھلاتے۔ ایک موقع پر آپؐ نے اعلان فرمایا کہ جس کے پاس دو اشخاص کے کھانے ہوں، وہ اپنے ساتھ تیسرے مہمان کو لے جائے، خود رسولؐ اللہ اپنے ساتھ دس طلباء کو لے گئے۔ (مسند احمد : ۱؍ ۱۹۷) حضرت سعد بن عبادہؓ کا مکان اہل صفہ کے لئے گو یا سب سے بڑا مہمان خانہ تھا۔ 
 ابن سیرین کی روایت ہے کہ سعد بن عبادہ ہر شب اسّی (۸۰) طلباء کو اپنے یہاں شب کا کھانا کھلاتے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء : ۱؍ ۲۰۰) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام طور پر دارالاقامہ میں طلباء کی تعداد اسّی سے کم نہ ہوتی تھی۔ تعلیم کی طرف رسولؐ اللہ نے جو توجہ فرمائی اور اپنے قول و فعل کے ذریعہ توجہ دلائی، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے ہر دور میں تعلیم و تربیت، علم کی خدمت اور تعلیمی اداروں کے قیام پر خصوصی توجہ دی۔ 
  ایک زمانہ تک مذہب، اخلاق، زبان اور نوشت و خواند (لکھنے پڑھنے) کی تعلیم کو کافی سمجھا جاتا تھا۔ صنعت کی حیثیت علم کی نہیں فن کی تھی، جو ابتدائی حالت میں تھی اور جس کو لوگ عملی تربیت کے ذریعہ حاصل کرتے تھے، آہستہ آہستہ ان فنون نے علوم کی صورت اختیار کی، تجربہ گاہیں بنائی گئیں، کتابیں لکھی گئیں اور مسلمان علماء و حکماء نے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیئے، جو تاریخ کا روشن باب ہے۔ اس دور میں چونکہ علم کی شاخیں اس قدر پھیلی نہیں تھیں اور طلبہ طویل مدت تک تعلیم حاصل کیا کرتے تھے اس لئے خالص مذہبی علوم اور انسانی سماج کیلئے دوسرے مفید علوم ایک ساتھ پڑھائے جاتے تھے؛ اسی لئے ہمیں اسلامی تاریخ میں ایسی بہت سی شخصیات ملتی ہیں، جو اسلامی علوم کے ماہر بھی تھے اور فلسفہ و سائنس میں بھی ان کا پایہ اتنا بلند تھا کہ یورپ کے اہل علم بھی اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود حکمت و سائنس میں ان کے مرتبہ و مقام کے معترف ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ سب جانتے ہیں مگر کتنا عمل کرتے ہیں ؟n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK