اب ہمارے یعنی مسلم معاشرے میں بھی گھر کے بزرگوں یا معمر افراد کو بوجھ تصور کیا جانے لگا ہے، لیکن یہ ہمارے لئے کتنی بڑی رحمت ہوتے ہیں، پڑھئے اس تحریر میں۔
بڑھاپے کا زمانہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ قابلِ رحم اور لائق ترس ہوتا ہے، اسلئے اسلام نے بوڑھوں کی خصوصی رعایت اور ان کے احترام و تو قیر اور ان کے ساتھ تعاون کا حکم دیا ہے۔ تصویر:آئی این این
اللہ تعالیٰ نے کائنات میں نشوونما کا ایک تدریجی نظام مقرر کیا ہے کہ ہر چیز جب پیدا ہوتی ہے اور وجود میں آتی ہے تو اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے ناقص اور ناتمام ہوتی ہے۔ چاند ایک باریک دائرہ کی صورت میں نکلتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کا قالب نور کے سانچہ میں ڈھل جاتا ہے، سورج جب مشرق کی طرف اپنے رخ سے نقاب الٹتا ہےتو اس کی کرنیں ہلکی بھی ہوتی ہیں اور پھیکی بھی ، بڑے سے بڑا درخت بھی جب زمین کے شکم سے باہر آتا ہے تو ایسے معمولی اور کمزور پودے کی صورت میں آتا ہے کہ ہوا کا معمولی جھونکا اور پانی کی ہلکی سی لہر بھی اس کے لئے موت کا پیغام بن جاتی ہے ۔ پھر یہی ناقص و ناتمام چیز اپنے شباب کو پہنچتی ہے، اس کی صلاحیتیں جوان ہوتی ہیں اور اس کی طاقت اوجِ کمال پر پہنچ جاتی ہے لیکن اس کمال کے بعد پھر انحطاط اور زوال شروع ہوتا ہے اور یہ انحطاط اسےموت اور فنا تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہے۔سورج رات کے پردہ میں چھپ جاتا ہے ، چاند چند دنوں کے لئے افق سے غائب ہوجاتا ہے، درخت سوکھ اور مرجھا جاتا ہے۔
قدرت نے یہی تدریجی نظام انسان کی زندگی میں بھی رکھا ہے۔ جب وہ ماں کے پیٹ سےاس لمبی چوڑی، ہنگامہ خیز اور پرشور کائنات میں آتا ہے تونہایت کمزور اور طاقت و قوت سے محروم بچہ کی صورت میں، نہ خود کھا سکتا ہے نہ پی سکتا ہے ۔ اگر خدا نے ماں باپ کے دل میں اس کے تئیں اتھاہ محبت نہ ڈال دی ہوتی تو اس کی پرورش شاید ممکن نہ ہوتی۔ پھر بچے بڑھتے ہیں، جسم میں نشوونما کا عمل جاری رہتا ہے ، عقل بیدار ہوتی ہے، شعور جاگتا ہے اور انسان جوانی کی منزل میں قدم رکھتا ہے ۔ جو ایک لفظ بھی ادا نہیں کرسکتا تھا، آج اپنی تقریروں سے دلوں کو گرماتا ہے اور شعر و سخن کی محفلیں آراستہ کرتا ہے، جو اپنے پاؤں پر کھڑا بھی نہیں ہو سکتا تھا ، آج کو دتا اور دوڑتا پھرتا ہے اور طوفان سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے، کل جو ایک لقمہ اٹھا کر اپنے منہ میں رکھنے کی طاقت سے بھی محروم تھا، آج اس کی تگ و دو اور دوڑ دھوپ سے ایک پورے خاندان کا گزر بسر وابستہ ہے اور اللہ نے اس کو ان کے رزق کا ذریعہ بنایا ہے۔ یہ جوانی کا زمانہ طاقت کے عروج اور صلاحیتوں کے کمال کا زمانہ ہے، اس زمانہ میں آدمی کے لئے یہ سوچنا بھی دشوار ہوتا ہے کہ پھر کبھی کمزوری اس پر اپنا سایہ ڈال سکے گی، چلتے ہوئے اس کے قدم لڑکھڑائیں گے، بینائی اس کا ساتھ چھوڑ دے گی اور جسم کی ایک ایک صلاحیت دامن وفا چھوڑ کر رخصت ہوتی جائیگی۔ لیکن آخر ہوتا وہی ہے جس سے انسان بھاگنا چاہتا ہے، جوانی رخصت ہوتی ہے اور بڑھاپا اپنی پوری شان کے ساتھ سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اب آنکھوں پر موٹے چشمے ہیں، چہروں پر جھریاں ہیں، ہاتھوں میں عصا ہے، قدموں میں لرزہ ہے، حافظہ اور یاد داشت نے بھی ساتھ چھوڑ رکھا ہے، منہ دانت سے خالی ہے اور آواز ایسی ہے کہ بازو کا آدمی بھی بات سمجھ نہیں پاتا ہے۔ اس منزل کے بعد قبر ہی کی منزل ہے۔ انسان بچپن میں بھی محتاج اور عجز و ناطاقتی کا نمونہ ہوتا ہے اور بڑھاپے میں بھی لیکن بڑھاپے میں یقیناً مجبوری کا احساس زیادہ ستاتا ہوگا اور اشک ِافسوس سے داڑھی تر ہوتی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ بڑھاپے کا زمانہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ قابلِ رحم اور لائق ترس ہوتا ہے، اسلئے اسلام نے بوڑھوں کی خصوصی رعایت اور ان کے احترام و تو قیر کا حکم دیا ہے۔مغربی دُنیا میں خاندانی نظام کے بکھر جانے کی وجہ سے بوڑھے اور ضعیف العمر لوگوں کے مسائل نے بڑی نازک صورت ِ حال اختیار کرلی ہے اسی لئے اب عالمی سطح پر اس مسئلہ کو محسوس کیا جارہا ہے اور اقوام متحدہ کی طرف سے یکم اکتوبر ’’بوڑھوں کا دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
آج بوڑھے اور ضعیف العمر افراد جن مشکلات سے دوچار ہیں وہ دراصل مغربی نظامِ معاشرت کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور ان ہی سے مشرق میں بھی یہ سماجی دشواریاں برآمد ہوئی ہیں۔ مشرق پر ہمیشہ سے مذہبیت کا غلبہ رہا ہے اور دنیا کا کوئی مذہب نہیں جس میں والدین اور بزرگوں کی خدمت اور ان کے احترام و تو قیر کا سبق نہ پڑھا گیا ہو، اس لئے بزرگوں کی خدمت کا جذبہ اور ان کو بوجھ کے بجائے اپنے لئے رحمت خداوندی تصور کرنا مشرق کے مزاج میں رہا ہے۔ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم لوگوں کو ضعفاء اور کمزوروں ہی کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔ آدمی ایسے بوڑھے اور معذور لوگوں کو اسی لئے تو بوجھ سمجھتا ہے کہ وہ صرف کھاتے ہیں، کچھ لاتے نہیں ہیں، ان کے پاس کھانے والے ہاتھ ہیں کمانے والے ہاتھ نہیں ، آپؐ نے اس تصور کی جڑ کاٹ دی اور فرمایا کہ ایسا نہیں ہے کہ تم ان کو رزق فراہم کرتے ہو، بلکہ ان کی وجہ سے اللہ تم کو رزق عطا فرماتے ہیں، گویا وہ تمہارے محسن ہیں، نہ کہ تم ان کے اور وہ تم کو کھلاتے ہیں نہ کہ تم ان کو۔ اگر یہ بات دل میں اتر جائے تو لوگ بوڑھے اور ضعیف لوگوں کو خدا کی بہت بڑی نعمت تصور کریں اور سایہ رحمت سمجھیں۔
اسلام میں بوڑھوں کے لئے بڑی رعایت بھی ہے اور قدرو منزلت بھی۔ قدم قدم پر ان کے لئے احکام میں سہولتیں برتی گئی ہیں، نماز میں قیام یعنی کھڑا ہونا فرض ہے، کھڑی ہوئی حالت میں جھک کر رکوع کرنا اور بیٹھی ہوئی حالت میں سجدہ کرنا بھی فرض ہے۔لیکن جو لوگ بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکیں، وہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتے ہیں اور اشارہ سے بھی رکوع و سجدہ کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ضعیف اور سن رسیدہ لوگوں کے لئے گنجائش ہے کہ روزہ رکھنے کے بجائے فدیہ ادا کریں ، بڑھاپے کی وجہ سے سفر کی قدرت نہ ہو تو کسی اور شخص سے حج بدل کرانے کی گنجائش ہے۔
ایسے لوگوں کی کفالت شرعاً واجب ہے، اگر ماں باپ کا معاملہ ہو تو گو، ان میں کمانے اور کسب معاش کرنے کی صلاحیت ہو پھر بھی ان کو اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، بلکہ بال بچوں پر ان کی ضروریات کی تکمیل ضروری ہے، دوسرے اقارب کا حکم ذرا مختلف ہے، اگر کوئی شخص بڑھاپے کی وجہ سے کسب معاش کی طاقت نہیں رکھتا اور وہ لا ولد ہو تو قریب ترین رشتہ دار پر اس کی ضروریات پوری کرنا واجب ہے اور اگر وہ خود اس کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر دوسروں پر اس کی ذمہ داری نہیں۔ (دیکھئے رد المحتارو دیگر کتب فقہ )
بڑھاپے کی نفسیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس عمر میں انسان چاہتا ہے کہ اس کے چھوٹے اس کے ساتھ عزت و توقیر کا معاملہ کریں، اس کو سماج میں بہتر مقام دیا جائے۔ آپؐ نے اس کا بھی پاس ولحاظ فرمایا ہے۔
ایک سن رسیدہ شخص آپؐ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے ، لوگوں نے جگہ دینے میں دیر کی تو آپؐ نے تنبیہ کی اور فرمایا کہ جو شخص چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کی توقیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (ترمذی، باب ماجاء فی رحمۃ الصبيان) حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کی ایک روایت میں ہے کہ جو بڑوں کا مقام نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں ۔ ( حوالہ سابق) حضرت انس بن مالکؓ راوی ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا : جو نوجوان کسی بوڑھے شخص کی اس کی عمر کی رعایت کرتے ہوئے تعظیم کرے گا تو جب وہ نوجوان اس عمر کو پہنچے گا تو اللہ اس کے لئے بھی ویسا ہی تعظیم کرنے والا مہیا کر دیں گے۔(ترمذی، باب ما جاء فی اجلال الکبیر)
بزرگوں کی تعظیم اور اکرام کے عمومی احکام تو آپؐ نے دیئے ہیں، مختلف خصوصی مواقع پر اس احترام کو برتنے کا بھی حکم دیا، آپؐ نے ہدایت فرمائی کہ جب کئی لوگ ہوں اور ان کو اپنی بات پیش کرنی ہو تو بڑے کو گفتگو اور نمائندگی کا موقع دینا چاہئے۔ (مسلم) فقہاء لکھتے ہیں کہ سلام کرنے میں بھی چاہئے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرنے میں سبقت کرے۔ (ہندیہ)
ادب و احترام کا کوئی ایک ہی طریقہ متعین نہیں، بلکہ مواقع اور حالات کے لحاظ سے تکریم و احترام مطلوب ہے۔ کوئی بوڑھا شخص جارہا ہو، بوجھل سامان اس کے ہاتھ میں ہو، آپ نو جوان ہیں تو آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ ان کا تھیلا اپنے کاندھوں پر اٹھالیں اور منزل تک پہنچا دیں، آپ بس یا ٹرین میں سفر کر رہے ہوں ، آپ کو سیٹ مل چکی ہو لیکن ایک بوڑھا، ضعیف شخص کھڑا ہوا ہے، ایسے موقع پر احترام یہ ہے کہ آپ خود اٹھ کر اُس کو جگہ دے دیں۔ غرض، موقع و محل کے اعتبار سے ان کی خدمت اور توقیر کو ملحوظ رکھیں اور رسولؐ اللہ کی وہ حدیث آپ کے سامنے ہو کہ اگر آج آپ کسی بوڑھے شخص کا پاس ولحاظ کریں گے تو کل جب آپ عمر کی اس منزل کو پہنچیں گے تو دوسرے یہی برتاؤ آپ کے ساتھ کریں گے اور اگر آج آپ نے کسی بوڑھے ضعیف شخص کا مذاق اڑایا ، اس کا تمسخر کیا، بے احترامی اور بے توقیری کی ، مدد اور تعاون کا ہاتھ نہیں بڑھایا ، تو کل یہی سلوک آپ کے ساتھ کیا جائے گا، کہ یہ ’’اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے‘‘کا معاملہ ہے!