شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) فرض تو دن رات میں صرف پانچ نمازیں ہیں، ان کے علاوہ نوافل یعنی سنن و مستحبات ہیں انہی میں سے اشراق کی نماز بھی ہے جس کا حدیث پاک میں ثبوت موجود ہے۔ (۲) تکبیر کہے بغیر نماز میں شرکت (۳)وراثت کی تقسیم کا مسئلہ (۴) ایام بیض کے روزے۔
رکوع، سجدہ، قرأت اور قعدۂ اخیرہ یہ سب نماز کے ارکان ہیں۔ تصویر: آئی این این
بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ اسے اشراق کی نماز کہا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کتاب وسنت سے ثابت ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے نیز یہ کتنی رکعتیں ہیں؟ براہ مہربانی تشفی بخش جواب سے نوازیں اور یہ بھی کہ ثبوت ہے تو کیا ہر مسلمان کے لئے اس کی ادائیگی ضروری ہے؟عبد المجید ، تھانہ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: فرض تو دن رات میں صرف پانچ نمازیں ہیں (جن کا ہر مسلمان کو علم ہے ) ان کے علاوہ نوافل یعنی سنن و مستحبات ہیں انہی میں سے اشراق کی نماز بھی ہے۔ حدیث پاک میں اس کا ثبوت موجود ہے ۔ سنن ترمذی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی پھرطلوع آفتاب تک ذکر (وتلاوت وغیرہ ) میں مشغول رہا، پھر طلوع آفتاب کے بعد دو رکعت نماز اداکی اس کے لئے ایک حج وعمرہ کا ثواب ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے بھی ایسی ہی ایک روایت مروی ہے، اس میں گناہوں کی مغفرت کا بھی ذکر ہے لیکن یہ لحاظ رہے کہ طلوع آفتاب سے مراد طلوع کے فوراً بعد نہیں ہے کیونکہ جب تک سورج بلند نہ ہوجائے یہ وقت، اوقات مکروہہ میں شامل ہے۔
کنز العمال میں اذا استغلت الشمس کی صراحت موجود ہے یعنی جب سورج بلند ہوجائے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
تکبیر کہے بغیر نماز میں شرکت
زید مسجد میں جس وقت پہنچا اس وقت تکبیر شروع تھی۔ اس نے وضو خانے جاکر وضو کیا اور جس وقت جماعت میں شرکت کے لئے پہنچا تو امام صاحب رکوع میں جاچکے تھے لہٰذا وہ بھی فوراً رکوع میں شامل ہوگیا مگر نہ تکبیر تحریمہ کہی نہ کانوں تک ہاتھ اٹھائے۔ سوال یہ ہے کہ نماز کا کیا حکم ہے؟ کیا اسے نماز دہرانی پڑےگی؟
اسحاق عالم، بہار
باسمہ تعالیٰ۔ھوالموفق: نماز میں کچھ امور شرائط و ارکان ہیں اور کچھ واجبات اور سنن و مستحبات؛ واجبات میں سے کوئی سہواً ترک ہو جائے تو سجدۂ سہو سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔ شرائط کے بغیر نماز ہی صحیح نہیں جبکہ ارکان نماز کے فوت ہونے کا حکم بھی یہی ہے۔ رکوع، سجدہ، قرأت اور قعدۂ اخیرہ یہ سب نماز کے ارکان ہیں۔ تکبیر تحریمہ بھی ایک رکن ہے جس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔ کانوں تک ہاتھ اٹھانا نہ تو رکن ہے نہ ہی واجبات کا حصہ ہے اس لئے ہاتھ نہ اٹھائے تو عدم صحت کا حکم نہ ہوگا لیکن تکبیر تحریمہ چھوٹ گئی تو نماز ہی نہیں ہوئی اس لئے صورت مسئولہ میں نماز ہی نہ ہوگی، اسے دوبارہ پڑھنی پڑےگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
وراثت کی تقسیم کا مسئلہ
زید کے وارث ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھے۔ زید کے بعد ترکہ تقسیم نہیں ہوا۔ بیٹی کی شادی بھی اسی شہر میں ہوئی۔ بیٹا کاروبار کی دیکھ بھال کرتا رہا۔ بعد میں بیٹی کی وفات ہوگئی جس کے وارثوں میں صرف ایک لڑکا ہے۔ شوہر نے مرحومہ کے بعد دوسری شادی کی، اس سے کئی لڑکے لڑکیاں ہیں۔ اب جائیداد کی تقسیم ہونی ہے تو مرحوم بیٹی کا کیا حصہ ہوگا اور وہ کسے ملےگا؟ کیا مرحومہ کا شوہر اور اس کی دوسری بیوی اور اس کے بچے بھی حصہ دار ہوں گے؟ عبد السلام ،ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ھوالموفق: واضح رہے کہ زید کے ترکہ میں ایک حصہ بیٹی کو اور دو حصے بیٹے کو ملیںگے۔ متوفیہ (بیٹی) کے وارث شوہر اور لڑکا دونوں ہیں، اس کے حصے میں سے ایک چوتھائی شوہر کو اور باقی لڑکے کو ملےگا لہٰذا حقوق مقدمہ کے بعد ترکہ کے کل بارہ سہام بناکر آٹھ (۸) زید کے بیٹے کو، ایک (۱) متوفیہ کے شوہر کو اور تین (۳) حصے متوفیہ کے لڑکے کو دیئے جائینگے ۔شوہر کی دوسری بیوی اور اس کے بچے مرحومہ کے وارث نہیں ہیں البتہ شوہر کے بعد اس کے ترکہ میں ہر اولاد حقدار ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
ایام بیض کے روزے
رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ کیا ایام بیض کے روزے بھی فرض یا واجب ہیں؟ ایام بیض کون سے ایام ہیں؟ اگر یہ فرض و واجب نہیں ہیں تو ان کی کیا فضیلت ہے اور کیا حدیث پاک میں ان کا کہیں ذکر ملتا ہے؟
غلام نبی، لکھنؤ
باسمہ تعالیٰ۔ھوالموفق: ایام بیض کا لغوی مفہوم ہے روشنی والے دن یعنی چاند کی مکمل روشنی والی راتوں کے ایام۔ یہ چاند کی تیرہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخیں ہیں۔ ابوداؤد شریف میں صحابیٔ رسول ابن ملحان ؓسے مروی ہے کہ حضورﷺ نےہم کوایام بیض کے روزوں کی تاکید کی اور فرمایا کہ (ثواب میں) یہ پورے سال روزے رکھنے کے مثل ہیں۔ حدیث شریف ہی میں یہ تاریخیں بھی بتائی گئی ہیں یعنی۱۳، ۱۴؍ اور ۱۵۔ واضح رہے کہ اسلام میں صرف رمضان المبارک کے ہی روزے فرض ہیں ان کے علاوہ جن روزوں کا ذکر ملتا ہے وہ نفل (مسنون یا مستحب روزے) ہیں لیکن ان کی بھی اپنی اہمیت اور اجر وثواب ہے ۔واللہ اعلم وعلمہ اتم