• Fri, 07 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جب دکھ درد انسان کیلئے کمال کی راہ بن جاتے ہیں

Updated: November 07, 2025, 5:35 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai

مَیں تصور کررہا ہوں کہ  اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک پر گیا ہوں۔ یہ مقام ایک چھوٹی سی پہاڑی کا دامن ہے۔

Painkillers are actually the silent teachers of life. Photo: INN
درد والم دراصل زندگی کے خاموش معلم ہوتے ہیں۔ تصویر: آئی این این
مَیں تصور کررہا ہوں کہ  اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک پر گیا ہوں۔ یہ مقام ایک چھوٹی سی پہاڑی کا دامن ہے۔ فضا میں تازگی ہے، سب کے چہروں پر مسکراہٹیں ہیں مگر واپسی کے وقت اچانک میرا پیر پھسلا، اور میں لڑھکتا ہوا نیچے جا گرا۔ جسم پر زخم آئے  اور کئی دنوں تک اسپتال میں رہنا پڑا۔ علاج کے دوران ڈاکٹروں نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا: میرے پیر کے اندر ایک پرانا زخم تھا، جو ظاہر نہیں ہوتا تھا مگر اندر ہی اندر پھیل چکا تھا۔ کبھی کبھار ہلکی سی چبھن محسوس ہوتی تھی جسے میں معمولی سمجھ کر، کہ وہ بظاہر معمولی ہی تھا، نظرانداز کر دیتا تھا، مگر وہی زخم میری جان کے لئے خطرہ بن چکا تھا۔
جب مقامی علاج سے افاقہ نہ ہوا تو میں نے شہر کا رخ کیا۔ وہاں ماہر ڈاکٹروں کے زیرِ علاج صرف ایک ماہ میں وہ ناسور بالکل ختم ہوگیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد ایک نیا احساس جنم لیا،  میں نے سوچا، اگر ایک معمولی سی لاپروائی مجھے اتنے بڑے خطرے تک پہنچا سکتی ہے، تو میرے گاؤں کے وہ لوگ جو علاج کے لئے دربدر پھرتے ہیں، ان کی تکلیف کتنی شدید ہوگی۔ یہ احساس میرا محرک بن گیا۔ میں نے گاؤں میں ایک چھوٹا اسپتال قائم کیا، اور باہر سے تجربہ کار ڈاکٹروں کا بندوبست کیا۔ آج گاؤں کے لوگ علاج کیلئے شہر کے دھکے نہیں کھاتے، وہیں شفا پاتے ہیں، اس طرح وہ  درد، جو ابتدا میں محض ایک حادثہ لگتا تھا،  ایک خیرِ عظیم کا دروازہ ثابت ہوا۔(واقعہ تصوراتی ہے)۔ 
اس پر غورو خوض کے بعد مَیں نے پایا کہ انسان کی تخلیق ہی درد سے شروع ہوتی ہے۔ وہ ایک چیخ کے ساتھ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے گویا درد اس کے وجود کی پہلی صدائے اعلان ہے۔ اور جب وہ اس دنیا کو الوداع کہتا ہے، تو ایک بار پھر درد ہی اس کی آخری سانسوں کا ہمسفر بنتا ہے۔ یوں درد انسان کے وجود کی ابتدا اور انتہا، دونوں میں ایک لازمی حقیقت کے طور پر جلوہ گر ہے۔
درد دراصل زندگی کا وہ خاموش معلم ہے جو انسان کو خود اس کی حقیقت سے آشنا کرتا ہے۔ اگر زندگی ایک ہموار، بےخطر راہ ہوتی، تو شاید انسان کبھی اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا۔ سکون میں شعور سوتا ہے، اور اضطراب میں بیدار ہوتا ہے۔ درد کا ہر دھچکا گویا شعور کے بند دریچوں پر ایک دستک ہے، جو انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ محض گوشت  پوست کا پیکر نہیں، بلکہ احساس و ادراک کا آئینہ ہے۔
درد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک وہ جو جسم پر ظاہر ہوتی ہے جیسے زخم، چوٹ، یا کسی عضو کی تکلیف۔ یہ درد انسان کو اپنی جسمانی کمزوری یاد دلاتا ہے، تاکہ وہ غرورِ قوت میں مبتلا نہ ہو۔ دوسرا درد وہ ہے جو کسی خیال، کسی محرومی، یا کسی سوال کے حل نہ ہونے سے دل و دماغ میں جنم لیتا ہے۔ یہ باطنی درد زیادہ شدید، زیادہ بارآور، اور زیادہ بیدارکن ہے۔ یہی وہ درد ہے جو انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، اور فکر کے دروازے کھولتا ہے۔ جس دل میں کوئی درد نہیں، وہ بےحس پتھر ہے۔ اور جس دل میں درد جاگزیں ہے، وہ گویا زندگی کی معنویت سے واقف ہے۔ جسمانی درد انسان کو علاج کی طرف بلاتا ہے، اور روحانی درد اسے حقیقت کی تلاش پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے درد زحمت نہیں، ایک ایسی رحمت ہے جو انسان کو جمود سے نکال کر حرکت اور جستجو کی راہ پر لے آتی ہے۔
انسان اور تکلیف کا باہمی رشتہ ہی کامیابی کی راہ ہے۔ تکلیف انسان کو  اندر سےجھنجھوڑتی ہے جس سے نجات اور کامیابی کی جستجو پر انسان مجبور ہوتا ہے، پھر انسان تکلیف سے نجات کی راہ تلاش کرتا ہے اور بالآخر کامیابی اس کا مقدر ہوتی ہے۔تکلیف انسان کی زندگی کا ایسا باب ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ مگر اس کے سامنے ہمیشہ دو راستے ہوتے ہیں، ایک وہ جو ذمہ داری کی طرف لے جاتا ہے، اور دوسرا وہ جو فرار کی طرف۔
جب انسان اپنی تکلیف کا سامنا کرتا ہے، اس کے اسباب کو پہچاننے اور ان کے حل کی کوشش کرتا ہے، تو اسی لمحے اس کے اندر فہم و ارتقاء کی چنگاری روشن ہوتی ہے۔ یہ چنگاری علم کی جستجو کو جنم دیتی ہے، اور علم اسے کامیابی کے قریب لے آتا ہے۔ یوں دکھ، جو ابتداء میں رنج معلوم ہوتا ہے، دراصل ایک رحمت میں ڈھل جاتا ہے، وہ اسے نکھارتا ہے، سنوارتا ہے، اور باطن میں نئی روشنی پیدا کرتا ہے۔ لیکن اگر انسان اس تکلیف سے بھاگنا چاہے تو وہ بظاہر خود کو بچاتا ہے، مگر حقیقت میں اپنے آپ کو کھو دیتا ہے۔پھر وہ غم مٹانے کیلئے سنیما گھروں، نشے، موبائل، موسیقی، یا وقتی عیاشیوں کا سہارا لیتا ہے۔ مگر یہ سب صرف لمحاتی بھول ہے، مستقل شفا نہیں۔ ایسے شخص کے دل کا خلا پر نہیں ہوتا، بلکہ ہر لمحہ اور گہرا ہو جاتا ہے۔ غم ختم نہیں ہوتا، بلکہ اپنے ساتھ بے سمتی، اضطراب اور گناہ کا اندھیرا بھی لے آتا ہے۔
اسی لئے انسان کے لئے اصل کامیابی یہ نہیں کہ وہ تکلیف سے بچے، بلکہ یہ ہے کہ وہ تکلیف کو اپنے ارتقاء کا ذریعہ بنا لے۔ کیونکہ جس نے درد کے اندر معنی تلاش کر لیا، وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ درد و غم رحمت خداوندی نظر آنے لگتا ہے جو تکلیف دینے کیلئے نہیں بلکہ کچھ سکھانے اور کامیابی کی راہ ہموار کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ یہی وہ پیغام تھا جس نے احساس دلایا کہ دکھ اگر شعور کے ساتھ جیا جائے تو وہ زوال نہیں، کمال کی راہ بن جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK