اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات میں اربہا ارب انسانوں کو پیدا کیا اور ان میں سے بعض لوگوں کو اپنے فضل ورحمت کا حقدار بنایا۔ جن لوگوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا انعام ہوا، وہ چار گروہ ہیں۔
EPAPER
Updated: November 08, 2025, 4:45 PM IST | Allama Ibtisam Elahi Zaheer | Mumbai
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات میں اربہا ارب انسانوں کو پیدا کیا اور ان میں سے بعض لوگوں کو اپنے فضل ورحمت کا حقدار بنایا۔ جن لوگوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا انعام ہوا، وہ چار گروہ ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات میں اربہا ارب انسانوں کو پیدا کیا اور ان میں سے بعض لوگوں کو اپنے فضل ورحمت کا حقدار بنایا۔ جن لوگوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا انعام ہوا، وہ چار گروہ ہیں۔ صلحاء شہدا، صدیقین اور انبیاء کرام۔ یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل اور انعامات کے حقدار ٹھہرے۔ ان عظیم شخصیات میں سے جو مقام اللہ تبارک و تعالیٰ کے انبیاء کرام کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے کلام کیا۔ ان میں سے کچھ ہستیاں وہ تھیں جن کو اللہ نے شریعت عطا فرمائی۔ یہ عظیم ہستیاں رسل اللہ کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ رسل اللہ میں سے اولو العزم رسولوں کا مقام بلند تر ہے اور ان میں سے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سب سے اعلیٰ و ارفع ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں نبی کریمؐ کا امتی بنایا۔ آپؐ کے امتی ہونے کے ناتے ہم پر رسولؐکے بہت سے حقوق عائد ہوتے ہیں جن کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم حقوق درج ذیل ہیں:
آپؐ کی عظمت کا احساس
رسول کریمؐکی شخصیت کے حوالے سے ہمارے ذہن میں یہ تصور راسخ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جتنی بھی شخصیات کو پیدا کیا ان سب میں سے آپؐ کا مقام سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اللہ نے آپؐ کو عالمگیر اور آفاقی نبوت عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ نے آپؐ پر نبوت اور رسالت کو تمام فرما دیا۔ نبی کریمؐکے اسوہ کو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لئے اسوۂ کامل بنا دیا گیا۔
رسول کریمﷺ سے محبت
ہر مسلمان کو رسول کریمؐ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ والہانہ محبت اور پیار ہونا چاہئے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کمی اور غفلت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ توبہ میں محبت کے تین مراکز کا ذکر کیا اور ان کے مقابلے میں کسی دوسرے کو ترجیح دینے کی صورت میں شدید تنبیہ فرمائی: ’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘ (سورہ توبہ:۲۴)
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کو رسولؐ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ والہانہ محبت کرنی چاہئے اور اپنے بیوی بچوں، آباء و اجداد، گھر بار اور کاروبار میں سے کسی بھی چیز کو اللہ اور اسکے رسولؐ کی محبت پر فوقیت نہیں دینی چاہئے۔
آپؐ کی غیر مشروط اطاعت
اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں آپؐ کی غیر مشروط اطاعت کریں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اسوہ کو اُسوۂ حسنہ قرار دیا اور آپؐ کی اتباع کو اپنی محبت کا سبب قرار دیا۔ اسی طرح سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ آپؐ کی بات کو اپنے تنازعات میں حرفِ آخر سمجھنا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا :’’تم میں سے کوئی شخص (اس وقت تک) مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کیلئے اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں۔‘‘
آپؐ پر درود وسلام بھیجنا
اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپؐ کی ذاتِ اقدس پر کثرت سے درود وسلام بھیجیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے:’’بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘ (سورہ احزاب: ۵۶)
رسولؐ کی شانِ اقدس کا بیان
اہلِ اسلام کی ذمہ داری ہے کہ جہاں آپؐ کے پیغام کو عام کرنے کیلئے بھرپور کوششیں کریں وہیں آپؐ کی سیرت کو بھی بیان کیا جائے نیز آپؐ کے محاسن اور سیرت و کردار سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ آپؐ کے دفاع کے لئے قلم چلانا اور آپؐ کی منقبت بیان کرنا نیکی کے کام ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ حضورؐ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں، وہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین