• Sat, 13 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

انسانی جسم اور اس کے اجزائے ترکیبی پر بھی غور کیجئے!

Updated: November 24, 2023, 12:37 PM IST | Raziuddin Syed | Mumbai

انسان کے پاس اگر سوچنے والا کوئی دل ہو تو اُس کا اپنا جسم ہی اسے اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلانے کے لئے کافی ہے۔

If the movement of all the organs of the body is associated with the beating of the heart, then the control of all these organs is a small brain. Photo: INN
جسم کے تمام اعضاء کی نقل و حرکت اگر دل کی دھڑکن کے ساتھ وابستہ ہے تو ان تمام اعضاء پر کنٹرول ایک چھوٹے سے دماغ کا ہے۔ تصویر : آئی این این

انسانی جسم اللہ تعالیٰ کی کیا حیرت انگیز صناعی ہے! ایسی مشینری جو ہمہ دم مستعد، ہر دم رواں دواں رہتی ہے اور جس کے مختلف اعضاء میں ایک شاندار ربط و یکسانیت پائی جاتی ہے۔ انسان اگر غور کرے تو حیران ہو کر خود سوال کر اٹھتا ہے کہ ’’ایسی کار گزاری بھی یا رب کیا اپنی ہستی میں ہے؟‘‘
ایک ہمہ دم متحرک اور تادم ِ آخر کبھی نہ رکنے اور کبھی نہ بند ہونے والا یہ کارخانہ جو انسان اپنے ساتھ صبح و شام، جلوت و خلوت اور اندر و باہر، ہر جگہ ساتھ لئے پھرتا ہے! نسوں سے نسیں لگاتار ملی ہوئی، ہڈی پر ہڈی کا کامل جو ڑ بیٹھا ہوا،ایک بازو دوسرے بازو کے بالکل یکساں نظر آتا ہوا، ایک ٹانگ دوسری ٹانگ کے عین مطابق! آنکھیں خوبصوررت، روشن اور چمکدار اور ناک سونگھنے کی ہر قسم کی صلاحیت سے مالا مال! بے شک ہمارے رب نے ہمیں ایک خاص تناسب ہی سے پیدا کیا ہے: ’’نطفہ میں سے اس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اس کا (خواص و جنس کے لحاظ سے) تعین فرما دیا۔‘‘ ( سورۃ عبسہ:۱۹) یہ آیت ہمارے رب نے ہمارے ہی بارے میں نازل کی ہے۔
پھر ان سب میں بھی سب سے زیادہ چشم کشا وہ لاجواب لہو ہے جو سرخ سرخ اور گرم گرم ہمارے جسم کے اندر یہاں سے وہاں تک دوڑتا رہتا ہے۔ یہی وہ سرچشمہ ہے جس سے ’’جاوداں ، پیہم رواں ، ہر دم جواں ہے زندگی۔ ‘‘ اور یہی و ہ سرچشمہ ہے جس کے بارے میں ہم، اصل مصرعہ میں معمولی تبدیلی کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ: لہو سے زندگی بنتی ہے جامد بھی ، متحرک بھی!
انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے رب ِ کائنات نے اپنے کلام میں جا بجا دعوت ِ فکرو تدبر دی ہے۔کہا گیا ہے کہ اے میرے بندو، تم ذرا اپنے جسموں میں اتر کر تو دیکھو، ذرا اپنے اس قدو قامت کا جائزہ تولو،اور کبھی اپنے ان ہا تھ پائوں کے جوڑوں اور بندوں کو تو جھانک کر دیکھو، تمہیں وہاں ہمارا ایک حیرت انگیز نظام ِ کارکردگی جاری و ساری دکھائی دے گا جس کا مشاہدہ کر کے تم بے ساختہ اقرار کراٹھو گے کہ اے ہمارے ر ب،بے شک یہ جسم وجاں تیرے ہی بنائے ہوئے ہیں اور کوئی بھی شریک اس کام میں تیرانہیں پایا جاتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کیلئے اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہیں ۔‘‘  (الذاریات: ۲۰۔۲۱)
 پچھلے دنوں ایک بیماری کے سبب ہم سے خون کے مختلف ٹیسٹ کروائے گئے کہ ہماری درست تشخیص کا انحصار انہی کے نتائج پر تھا۔ تب ہمیں یہ جان کر اچنبھا ہوا کہ کئی اجزا انسانی خون میں ایسے ہیں جن کا خصوصی تعلق خاص مٹی سے ہے۔ وہی اجزا جو ایک طرف ہماری مٹی میں پائے جاتے ہیں ، دوسری طرف انسانی جان میں بھی دوڑتے پھرتے نظر آتے ہیں یعنی فاسفورس، چونا، گندھک، لوہا، دھات، جست، نمکیات اور شکر وغیرہ۔ بلکہ جسم میں موجود پانی بھی۔ مٹی میں پائے جانے والے یہ وہ عناصر ہیں جو ہمارے خون میں چوبیس گھنٹے گردش میں مصروف رہتے ہیں ۔ تب ہی ایک بندۂ مومن حیرت سے پکا ر اٹھتا ہے کہ ــ’’واقعی ۔یہ انسان بھی اسی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے خدایا!‘‘ جسم کے یہ کیمیائی اجزاء پکا ر پکار کر کہہ رہے ہیں کہ انسان کی تخلیق فی الاصل مٹی ہی سے کی گئی ہے۔ بیشک بظاہر وہ گوشت پوست اور ہڈیوں کا چلتا پھرتا مجسمہ (یا انسان ِناطق ) نظر آتا ہے، لیکن اگر توڑ پھوڑ کر دیکھا جائے تو سوائے ایک مشت ِ خاک وہ کچھ بھی نہیں ۔ قادرِ مطلق نے کروڑوں سال پہلے اولین انسان حضرت ِ آدم ؑ کو براہ راست مٹی سے پیدا کیا تھا : ’’اور بیشک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتداء) مٹی (کے کیمیائی اجزاء) کے خلاصہ سے فرمائی۔‘‘ (المومنون:۱۲) جس کے باعث شیطان نے اسے سجدہ کرنے میں سبکی محسوس کی تھی۔ مگر آج کوئی ایک لاکھ نسل انسانی کے دنیا میں جنم لے لینے،اور پھر واپس اپنے مالک ِ کائنات کے پاس جاپلٹنے کے، اس الٰہیاتی حقیقت میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے کہ انسان کی پیدائش ایک کھنکتی ہوئی مٹی سے کی گئی تھی۔ قران ِ پاک ہمیں یاد دہانی کراتاہے کہ:
’’ (لوگو !)مٹی ہی سے تم پیدا کئے گئے تھے ، مٹی ہی میں تمہیں واپس لوٹایا جائے گا، اور مٹی ہی سے تمہیں دوبارہ بر آمد کیا جائے گا۔‘‘(طٰہٰ:۵۵)
پھر بات صرف یہی نہیں ہے کہ انسانی جسم ان خاکی اجزاء کا مرکب ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام اجزاء ایک خاص تناسب یا ایک خاص انداز ے کے حساب سے جسم کے اندر رکھے گئے ہیں جو (تناسب) اگر وہاں برقرار نہ رہ سکے تو جسم یکایک بدنظمی کا شکا ر ہونے لگتاہے۔ سر درد شروع ہوجاتا ہے، متلیاں آنے لگتی ہیں ، جسم کی سرخی گھٹنے لگتی ہے، خون کا دبائوالٹ پلٹ ہوجاتا ہے اور بھوک ختم ہوجاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ تھکن بھی طاری ہونے لگتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ وجہ ان ساری تکالیف کی عموماً بس ایک ہی سامنے آئےگی کہ جسم میں موجود مٹی کے یہ عناصر ضرور کہیں اتھل پتھل ہوئے ہیں ۔ان کا نظام ِ ترتیب لازماً کہیں گڑ بڑ ہوا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا برج نرائن چکبست نے کہ :
زندگی کیا ہے ؟ عناصر میں ظہور ِ ترتیب
موت کیا ہے؟ انہی اجزاء کاپریشاں ہونا
ایک اور توجہ طلب پہلو انسانی جسم کا اس کی یہ موٹی جلد اور کھال بھی ہے۔ کھال کی ایک بہت عمدہ صفت یہ ہے کہ کٹنے کے بعد بہت کم عرصے ہی میں یہ دوبارہ باہم جڑنے لگ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے موٹے خراش اور Cut بغیر کسی دوا کے آسانی کے ساتھ از خود جڑ جاتے ہیں ۔ ہماری جلد میں اللہ تعالیٰ اگر یہ خاص وصف نہ رکھتا تب انسان بھی کہیں کا نہ رہتا۔ بدہیئت اور افسوسناک، وہ کتنا ڈراؤنا سا لگتا؟ 
ہمارا یہ جسم بس ایک ننھے سے دل کے اشارہ ہی پر حرکت کرتا ہے۔اسی کی حرکت سے باقی سارے اعضاء حرکت کرتے ہیں اور اسی کی بندش سے باقی سارے اعضاء خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔’’ ایک دل کے دھڑکنے ہی پہ موقوف ہے تن کی رونق!‘‘ مگر فی لاصل یہ دل خود کیا ہے؟ ایک ایسا متحرک آلہ یا چالو مشین جسے انسان کی موت تک کبھی ’’ریسٹ‘‘ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ماں کے پیٹ سے جو یہ اپنی دھڑکن کا آغاز کرتا ہے تو زندگی کی دم ِ واپسیں تک چوبیس گھنٹے مسلسل دھڑکتا ہی رہتا ہے۔
دنیا کی طاقتور سے طاقتور مشینیں بھی ستر اَسی (۷۰۔۸۰) سالوں تک لگاتار اس طرح کام نہیں کرسکتیں ۔ ۱۰۔۱۲؍ گھنٹوں کے وقفے سے انہیں ایک بڑ ا شٹ ڈائون ضروردرکار ہوتا ہے ۔مگر ایک یہ دل؟ اس بیچارے کو اس طرح کے کسی شٹ ڈائون کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ فیول (غذا اور پانی)کی تو اس دل کو ضرورت رہتی ہے لیکن ’’مرمت ‘‘ جیسے مشغلے سے یہ با لکل بے نیا ز ہے۔ اس کا شٹ ڈائون تو دراصل کسی کے اپنے شٹ ڈائون کا سبب بن جاتا ہے۔ بہت کم افراد ہوتے ہیں جنہیں بائی پاس آپریشن یا مرمت سے گزر کر اپنے دل کو ترو تازہ کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ یہ چلن ہمارے معاشرے میں عام بھی نہیں ہے۔
 حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ جسم کے تمام اعضاء کی نقل و حرکت اگر دل کی دھڑکن کے ساتھ وابستہ ہے تو ان تمام اعضاء پر کنٹرول ایک چھوٹے سے دماغ کا ہے۔ اسی کی منشا و مرضی کے مطابق یہ دیکھتے ہیں کہ کب انہیں کون سا کام کرنا ہے اور دیکھتے ہیں کہ کب انہیں کس کام سے رک جانا ہے؟
دنیامیں آج تک بننے والی تمام مشینیں ، چھوٹی یا بڑی، جسمانی مشقت والی، یا الیکٹرونک سہولتوں والی، دل دہلا دینے والی یا دل شادمان کردینے والی، ان تمام میں بس یہ ایک انسانی جسم کی مشینری ہی ایسی ہے جسے حیرت انگیز طو ر پر آج تک مکمل طور پر کوئی سمجھ ہی نہیں سکا ہے اور جو سب سے زیادہ پیچیدہ اور سب سے زیادہ حیران کن ہے۔ یہی وہ مشینری ہے جس پرآج تک لاتعداد پہلوؤں سے غور کیا جارہا ہے۔ کل بھی اس پر بیش قیمت کتابیں لکھی جایا کرتی تھیں اور آئندہ بھی ’’لکھی جائیں گی کتابِ جسم کی تفسیریں بہت۔‘‘
سچی بات تویہ ہے کہ انسان کے پاس اگر سوچنے والا کوئی دل ہو تو خود اپنا جسم ہی اسے اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلانے کے لئے کافی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے خود فرمادیا ہے کہ ’’اور میرے بندوں میں شکرگزار کم ہی ہوئے ہیں۔‘‘ (سبا:۱۳)
سچ ہے اے پروردگارکہ:
ہر چیز سے ہے تیری کاریگری ٹپکتی!
یہ کارخانہ تونے کب رائیگاں بنایا؟
(اسماعیل میرٹھی)
اور تب ہی جا کر درست طو ر پر سمجھ میں آتا ہے کہ الٰہی یہ ’جسم و جاں کیا چیز ہے، لہو کیا ہے؟‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK