• Fri, 12 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹپ کی ادائیگی خوشدلی سے اور محنت کا معاوضہ چِڑ کر؟

Updated: December 12, 2025, 4:33 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai

آج ہم اُس جگہ جہاں اے سی ہال، نرم روشنی، مہنگا پرفیوم اور برانڈ کے نام کا بورڈ ہے وہاں ہزاروں روپے خرچ کرنا اپنی شان سمجھتے ہیں، مگر جہاں مٹی کی خوشبو، دھوپ میں جھلسا جسم اور محنت کی چمک ہو وہاں چند روپے بچانے کیلئے بحث کرنا ’’سمجھداری‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس تضاد سے نکل کر ہی صدقے کے وسیع مفہوم کو سمجھا جاسکتا ہے۔

Remember, spending does not define a person`s status; the generosity of the heart while spending reveals one`s humanity. Picture: INN
یاد رہے، خرچ کرنے سے انسان کی حیثیت نہیں بنتی، خرچ کرتے وقت دل کی کشادگی اُس کی انسانیت ظاہر کرتی ہے۔ تصویر:آئی این این

ایک دن ایک شخص سڑک کنارے بیٹھے ایک بوڑھے فقیرانہ صورت مگر محنت کش انسان سے ٹماٹر خریدنے لگا۔ دھوپ سے جلا ہوا چہرہ، گرد آلود کپڑے اور آنکھوں میں تھکن کے پیچھے چھپی بے بسی صاف جھلک رہی تھی۔ جب اس نے ریٹ پوچھا تو بوڑھے نے دھیرے سے کہا: ’’پچاس روپے کلو۔‘‘ یہ سن کر خریدار فوراً چڑ گیا اور سخت لہجے میں کہنے لگا: ’’پچاس؟ اتنے سے ٹماٹر کے؟ چالیس دوں گا!‘‘  بوڑھا چند لمحے خاموش رہا، پھر نہایت نرم آواز میں بولا:’’بیٹا… کل پچانوے روپے کمانے کے باوجود گھر میں ایک روٹی کم پڑ گئی تھی… آج اگر چالیس میں دے دوں تو شاید کوئی اور بھوکا سوئے۔‘‘ مگر اُس کی یہ بات خریدار نے سننے کی زحمت بھی نہ کی۔ اُس نے نوٹ بوڑھے کے ہاتھ میں پٹخا، ٹماٹر اٹھایا اور غرور بھرے لہجے میں بڑبڑایا: ’’تم لوگوں کو لوٹنے کی عادت پڑ گئی ہے!‘‘  بوڑھے کے ہاتھ میں پکڑا ہوا نوٹ کانپ رہا تھا… شاید الفاظ کا بوجھ پیسوں سے زیادہ بھاری تھا۔
دوسری شام یہی شخص دوستوں کے ساتھ ایک مشہور ریسٹورنٹ میں بیٹھا تھا۔ روشنیوں سے جگمگاتا ماحول، خوشبو بھرا کھانا اور ہلکی موسیقی۔ وہی شخص اب نہایت مہذب، نہایت نرم اور نہایت فیاض دکھائی دے رہا تھا۔ جب بل آیا تو وہ  ۱۸۵۰؍ روپے تھا۔ اس نے بل ادا کیا۔ کاؤنٹر پر موجود لڑکے نے ادب سے کہا: ’’سر! یہ آپ کا چینج ۱۵۰؍روپے۔‘‘ وہ مسکرایا پھر بڑی ملائمت سے گویا ہوا: ’’رہنے دو!‘‘ پھر اُس نے ویٹر کو بلایا، اس سے ہاتھ ملایا اور جیب سے ۱۰۰؍ روپے نکال کر بطور ٹپ میز پر رکھ دیے۔ ویٹر خوش ہوگیا اور جھک کر شکریہ ادا کیا: ’’تھینک یو سر!‘‘
فاصلہ صرف جگہ، قیمت یا ماحول کا نہیں تھا، فرق صرف اس دل کا تھا جو انسانوں کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیتا ہے: ایک وہ جن کے ساتھ ہم پیسوں کے حساب سے پیش آتے ہیں، اور دوسرے وہ جن کے ساتھ ہم انسانیت بھول کر برتاؤ کرتے ہیں۔ اصل قیمت کبھی ٹماٹروں یا بل کی نہیں ہوتی، اصل قیمت رویہ رکھتا ہے اور افسوس کہ ہم اکثر سب سے سستے وہیں ہوتے ہیں جہاں ہمیں سب سے زیادہ انسان ہونا چاہئے۔
آج یہ واقعہ صرف ٹماٹر والے چاچا کا نہیں یہ ہمارے رویوں، سوچ اور دل کے ترازو کا آئینہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات صرف ایک بار نہیں ہوتے؛ روز ہوتے ہیں، مگر ہم انہیں معمول سمجھ کر گزرجاتے ہیں۔ ہم نے عجیب رواج بنا لیا ہے کہ جہاں اے سی ہال، نرم روشنی، مہنگا یونیفارم اور برانڈ کے نام کا بورڈ ہو وہاں ہزاروں روپے خرچ کرنا اپنی شان سمجھتے ہیں، مگر جہاں مٹی کی خوشبو، دھوپ میں جھلسا جسم اور محنت کی چمک ہو وہاں چند روپے بچانے کیلئے بحث و تکرار کرنا یا مول بھاؤ کرنا ہمیں ’’سمجھداری‘‘ لگتا ہے۔
کبھی ہم نے سوچا کہ جو شخص ہاتھ گاڑی دھکیل رہا ہے، جو سائیکل پر پھل لا رہا ہے، یا جو زمین پر چادر بچھا کر سبزیاں بیچ رہا ہے، کیا وہ حاجتمند نہیں؟ ضرور ہے، مگر اُس کی خاموشی، اُس کا وقار اور اُس کی نگاہیں بتاتی ہیں کہ وہ بھیک نہیں مانگتا، وہ رزقِ حلال کو عزت کے ساتھ کمانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے بھوکے بچوں کے پیٹ پر رحم نہیں چاہتا بلکہ اُن کے منہ تک پہنچنے والے لقمے میں عزت، خودداری اور حلال کا ذائقہ چاہتا ہے۔ ایسے لوگوں کو لفظوں کے تیر، لہجے کی تلخی اور رویوں کی سختی زیادہ ستاتی ہے، پیسوں کی کمی نہیں۔
ہم میں سے اکثر کہتے ہیں کہ بھیک دینے سے بہتر ہے کسی محنت کرنے والے کو دیا جائے۔ لیکن جب زندگی یہ موقع دیتی ہے کہ پندرہ روپے کا سامان خریدتے ہوئے بیس روپے دے کر کہہ دیں ’’رہنے دو بھائی‘‘ تو عجیب بات ہے کہ وہیں ہماری ’’سمجھداری‘‘ جاگ جاتی ہے۔ ہم چینج نہ ملنے پر بحث اور طعنوں پر اتر آتے ہیں، مگر بڑے ریسٹورنٹس میں ٹپ دیتے ہوئے اور چینج چھوڑتے ہوئے نہ دل تنگ ہوتا ہے نہ چہرے پر ناراضی آتی ہے۔ وہاں یہی رویہ ’’مہذب کلچر‘‘ کہلاتا ہے، مگر اسی چیز کو کسی محنتی غریب کے سامنے کرنا ہمیں ’’غلط‘‘ محسوس ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ خرچ کرنے سے انسان کی حیثیت نہیں بنتی، خرچ کرتے وقت دل کی کشادگی اُس کی انسانیت ظاہر کرتی ہے۔ اگر ہم ایک ویٹر کو مسکرا کر ۵۰؍ روپے ٹپ دے سکتے ہیں تو کیا کسی محنتی غریب کو کچھ پیسے زیادہ نہیں دے سکتے؟ ایسے لوگ خیرات نہیں مانگ رہے، وہ ہمارے اخلاق، نیت اور انسانیت کا امتحان لے رہے ہیں۔ اصل بھلائی اسی میں ہے کہ ہم وہ مدد کریں جو اعلان کی محتاج نہ ہو، وہ رویہ اختیار کریں جو دلوں کو جوڑ دے، اور وہ سخاوت اپنائیں جس کے تحت جو دینا ہے عزت کے ساتھ دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ہم اپنی خواہشات کیلئے ہزاروں روپے خرچ کر سکتے ہیں تو کیا کسی کے چولہے میں آگ جلانے کیلئے چند روپے دینا مشکل ہے؟ سچ یہی ہے کہ ہم ضرورت مندوں کی جیب نہیں بلکہ اپنے دل کی تنگی بڑھا دیتے ہیں۔ ہمیں کپڑے، برانڈ اور جگہ دیکھ کر نہیں بلکہ انسان دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے، کیونکہ کبھی کبھی ہم روپے نہیں گھٹاتے… ہم انسانیت گھٹا دیتے ہیں۔
اسلام میں عبادات کا تصور نہایت وسیع اور ہمہ گیر ہے، جو صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر اُس عمل تک پھیلا ہوا ہے جو اخلاص اور رضائے الٰہی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ عبادت صرف وہ نہیں جو مسجد کی دیواروں میں ہو، بلکہ وہ بھی ہے جو انسانیت کے دل میں اترتی ہو۔ ایک خالص سجدہ بھی نجات کا سبب بن سکتا ہے، جبکہ دکھاوے اور ریاکاری کے ہزار سجدے بھی اللہ کے نزدیک بے وزن اور بے حقیقت رہتے ہیں۔ انہی وسیع ترین شعبوں میں سے ایک عظیم شعبہ صدقہ ہے، مگر صدقہ کا مطلب صرف روپیہ پیسہ خرچ کرنا نہیں۔ صدقہ ایک ایسا جامع اور زندہ مفہوم ہے جو ہر اُس قول، فعل اور نیکی کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے جو اللہ کی رضا کیلئے کی جائے۔ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق: ’’تمہاری ہر نیکی صدقہ ہے۔‘‘ یعنی کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانا، کسی غمزدہ کو تسلی دینا، مظلوم کے حق میں آواز اٹھانا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا، اچھی بات کہنا، مسکرا کر ملنا، اور کسی ضرورت مند کی مدد کرنا، یہ سب صدقے کی صورتیں ہیں، چاہے ان میں مال خرچ ہو یا نہ ہو۔
صدقہ دراصل انسان کے باطن کو نرم کرتا ہے، دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے اور معاشرے کو جوڑنے والا اخلاقی نظام ہے۔ اللہ کی راہ میں دیا گیا مال کبھی کم نہیں ہوتا؛ بلکہ اس میں برکت بڑھتی ہے، انسان پر رحمت نازل ہوتی ہے اور گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔ کبھی یہ برکت رزق کی صورت میں لوٹتی ہے، کبھی سکون کی شکل میں، اور کبھی مصیبتوں کے ہٹ جانے کی صورت میں۔ اصل اہمیت صدقے کی مقدار میں نہیں بلکہ نیت کی پاکیزگی میں ہے۔ چاہے وہ مسکراہٹ ہو، درگزر ہو یا چند سکے،  اگر وہ صرف اللہ کیلئے ہوں تو وہ عبادت ہے، صدقہ ہے، اور قرب الٰہی کا زینہ ہے۔ یوں سمجھ لینا چاہئے کہ عبادت صرف سجدوں تک محدود نہیں، بلکہ اخلاق، خیرخواہی، دلجوئی اور انسانیت کے احترام تک پھیلی ہوئی ہے۔ جو دین عبادت کو صرف رسم نہیں بلکہ کردار بناتا ہے وہی دلوں کو بدلتا ہے اور زندگیوں کو روشنی میں تبدیل کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK