• Fri, 12 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کعبۃ اللہ سے قلبی لگاؤ کے باوجود آپؐ نے مدینہ میں اس نام سے کسی مسجد کی بنیاد نہیں رکھی!

Updated: December 12, 2025, 5:11 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

یہی رسول اللہ ﷺ کا اسوہ ہے، اسی میں حکمت ومصلحت ہے، اور اپنے جذبات کی پیروی یا اپنے سیاسی مفاد کے لئے کوئی راستہ اختیار کرنا مسلمانوں کے شایان شان نہیں ہے، یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ اس وقت مرشد آباد میں بابری مسجد کے نام سے مسجد کی بنیاد رکھنا بالکل اسی نوعیت کا عمل ہے، یہ لوگوں کو اسلام کی اہانت پر اُکسانا ہے، مسجدوں کی عزت ووقار کو پامال کرنے کی بالواسطہ کوشش ہے اور یہ ہر گز دین داری اور اللہ سے وفا شعاری نہیں ہے۔

The Islamic concept is that the piece of land on which a mosque is built will remain a mosque until the Day of Judgment. Picture: INN
اسلامی تصور یہ ہے کہ زمین کے جس ٹکڑے پر مسجد بن جاتی ہے، وہ قیامت تک مسجد باقی رہتی ہے۔ تصویر:آئی این این
مسجدیں زمین میں اللہ کے گھر ہیں، یہ بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے (شعب الایمان، حدیث نمبر: ۲۶۸۲) اللہ کے گھر سے مراد نہ تو یہ ہے کہ اللہ کی ذات مسجد میں محدود ہے نہ ہی یہ کہ ذات الٰہی کا کوئی مجسمہ علامتی طور پر مسجدوں میں رکھا جاتا ہے؛ بلکہ یہ اللہ کی عبادت کی جگہ ہے۔ جن مذاہب میں مظاہر قدرت کی عبادت کی جاتی ہے، ان کے یہاں عبادت گاہ میں مورتی رکھی جاتی ہے، جس کی سب سے بڑی مثال ہندو بھائیوں کے یہاں موجود ہے۔کسی انسان سے مسجد کی خصوصی مالکانہ نسبت نہیں ہے، چاہے اس نے مسجد کی تعمیر کی ہو اور مسجد کے لئے زمین دی ہو، اس کو اس کا اجرو ثواب حاصل ہوگا؛ لیکن مسجد سے تمام مسلمانوں کا حق یکساںطور پر متعلق ہوگا، ہاں شناخت کے لئے مسجد کے نام رکھے جاسکتے ہیں۔ کبھی یہ نام مسجد کی عظمت وتقدس کے اظہار کے لئے ہوتا ہے، جیسے مسجد حرام (مکہ مکرمہ) جس کا ذکر خود قرآن مجید میں ہے، (بنی اسرائیل:۱) کبھی نام مقام کی نسبت سے ہوتا ہے، بیت المقدس چوں کہ مکہ مکرمہ سے کافی دور تھا؛ اس لئے وہاں جو مسجد تعمیر کی گئی، اس کو ’’مسجد اقصیٰ‘‘ کا نام دیا گیا (بنی اسرائیل: ۱)،کبھی مسجد کا نام کسی عظیم شخصیت کی نسبت سے ہوتاہے، جیسے مدینہ منورہ کی مسجد نبویؐ جس کو خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی  قرار دیا ہے: صلاۃ فی مسجدی ھذا (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۱۱۹۰) ۔  مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کے بعد آپؐ نے سب سے پہلے جس مسجد کی بنیاد رکھی، وہ قباء کے مقام پر تھی، قرآن مجید نے اس مسجد کو کوئی خاص نام نہیں دیا ہے؛ بلکہ مسجد بنانے والوں کے جذبہ اخلاص کا ذکر فرمایا گیا کہ اس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے: (توبہ: ۱۰۸) چوں کہ مسجد حرام، مسجد نبویؐ اور مسجد اقصیٰ کے بعد اس مسجد کی خصوصی حیثیت ہے اور اس میں نماز پڑھنے کا خصوصی اجروثواب ہے؛ اس لئے تعارف کے طور پر اس کو مسجد قباء کہا جانے لگا۔
جیسے افراد کی شناخت کے لئے ناموں کی ضرورت ہوتی ہے، مقامات، شہروں، محلوں اور کالونیوں کی پہچان کے لئے نام رکھے جاتے ہیں، جب مساجد کی کثرت ہوئی تو ان کو مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بعض مسجدیں قبیلہ کی طرف منسوب ہوئیں، مدینہ میں ایک قبیلہ بنو زریق کا آباد تھا، وہاں کی مسجد ’’مسجد بنو زریق‘‘ کہلائی، خود حدیث میں اس کا ذکر موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ثنیۃ الوداع سے مسجد بنو زریق تک گھوڑ دوڑ کی جاتی تھی، جس کا مقصد اپنی حفاظت اور دفاع کے لئے تیار رہنا تھا۔ یہ ذکر خود حدیث کی مشہور کتاب صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت میں ہے (حدیث نمبر: ۲۸۶۸)اور اس سے امام بخاریؒ نے استدلال کیا ہے کہ کسی قبیلہ کی طرف نسبت کر کے مسجد کا نام رکھا جا سکتا ہے: باب ھل یقال مسجد فلان (حدیث نمبر: ۴۱۰) بخاری کے شارح حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس حدیث سے یہ بات اخذ کی ہے کہ کسی مخصوص گروہ کی طرف نسبت کر کے مسجد کا نام رکھا جا سکتا ہے، ( فتح الباری، باب غایۃ السباق للخیل المضمرۃ: ۶؍ ۹۵) بخاری ہی کے ایک اور شارح علامہ بدالدین عینیؒ نے اس حدیـث سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بانی ٔ مسجد کے نام پر بھی مسجد کا نام رکھا جا سکتا ہے، اور مسجد کے مصلیوں کے نام پر بھی (عمدۃ القاری:۴؍۱۵۹)
اگرچہ افرادواشخاص اور قبائل کے نام پر مسجد کا نام رکھنا متفق علیہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک بڑے فقیہ ومحدث امام ابراہیم نخعیؒ مسجد بنانے والے یا نماز پڑھنے والے کی طرف نسبت کو مکروہ قرار دیتے تھے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’مسجدیں اللہ کے لئے ہیں۔‘‘ (سورہ جن: ۱۸) لیکن ان کی اس رائے سے عمومی طور پر اتفاق نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسجدیں حقیقی طور پر اللہ کی ملکیت ہیں، اور بانی ٔ مسجد یا مصلیان مسجد کی طرف مسجد کی نسبت کرنا اس حیثیت سے نہیں ہے کہ وہ اس کے مالک ہیں؛ بلکہ یہ صرف تعارف اور شناخت کے لئے ہے، جیسا کہ ذکر کیا گیا، خود قرن اول میں متعدد مسجدیں قبائل کی طرف منسوب تھیں، جیسے مسجد بنی عمرو بن عوف، (مسند احمد، حدیث نمبر: ۴۵۶۸) مسجد بنی عبد اشہل (سنن ابن ماجہ عن عبد اللہ بن عبدالرحمنؓ، حدیث نمبر: ۱۰۳۱) اس لئے بانی کی طرف نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے (احکام القرآن ابن عربی: ۴؍ ۲۷۷) اس کے بعد سے بہت سی مسجدوں کے تعارف کیلئے شخصیتوں سے نسبت کر کے نام رکھے گئے ہیں۔
اس سلسلے میں مسلمانوں کا عمومی رجحان یہ رہا ہے کہ اہم، مقدس دینی شخصیات سے مسجدوں کو منسوب کیا جائے؛ اسی لئے صحابہ، اہل بیت، محدثین، فقہاء اور صوفیاء کی ممتاز شخصیات سے مسجدیں موسوم کی جاتی رہی ہیں، غالباً پہلی مسجد جو صحابی سے منسوب کی گئی، مسجد عائشہؓ ہے، جو مکہ سے قریب تنعیم کے مقام پر واقع ہے، اور دنیا بھر میں ہزاروں مسجدیں خلفاء راشدین اور اہل بیت اطہار کے ناموں سے موجود ہیں۔
عموماً مسلمانوں نے بادشاہوں اور حکمرانوں کے نام پر مسجدوں کے نام رکھنے سے گریز کیا ہے؛ کیوں کہ فرمانروائے ملک وقوم میں صلاح کا پہلو کم ہوتا تھا اور فساد کا زیادہ؛ البتہ عوام کسی خاص حکمراں کے عہد اقتدار میں بننے والی مسجد کواس سے منسوب کر دیتے ہیں، جیسے دکن میں مسجد عالمگیری اور مسجد قطب شاہی کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ 
خوشامدی لوگ ہر دور میںہوتے ہیں، اس لئے ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نے مسجد بنائی اور حکمرانِ وقت کو خوش کرنے کے لئے مسجد کا نام اس کے نام پر رکھ دیا، یہ بات باعث تعجب نہیں ہے، ایسی ہی مسجدوں میں ایک ایودھیا میں بننے والی بابری مسجد ہے، میر باقی بابر کا گورنر تھا، اس نے ایودھیا میں ایک مسجد تعمیر کرائی اور اس کو ’’بابری مسجد‘‘ کا نام دیا۔ یہ کئی سو سال پہلے کا واقعہ ہے مگر ۱۹۹۰ء کے دور میں  اس پر جو طوفان اٹھایا گیا ، وہ اتنا صدمہ انگیز، غیر انسانی اور نامنصفانہ ہے، جس نے فرقہ پرستوں کی دہشت گردی کو طشت از بام کر دیا۔ اب اس کے بدلے میں اسی نام سے کسی اور مسجد کا بنانا بالکل بے معنی ہے۔ اولاً تو یہ سمجھنا ہی درست نہیں ہے کہ وہ مسجد ختم ہوگئی، اس لئے اب اسی نام سے دوسری مسجد بنا کر اس کو زندہ رکھنا چاہئے۔ اسلامی تصور یہ ہے کہ زمین کے جس ٹکڑے پر مسجد بن جاتی ہے، وہ قیامت تک مسجد باقی رہتی ہے، تو چاہے اس مسجد کے تعمیری ڈھانچے کو گرا دیا گیا ہو؛ لیکن یہ شرعاً مسجد ہی ہے، جیسے کعبۃ اللہ میں بت رکھنے سے وہ بت خانہ نہیں بنا، اسی طرح اس مسجد میں بت رکھنے سے یہ مندر نہیں بنا۔ اللہ کی قدرت ہے کہ وقت کا پانسہ کبھی دس سال میں کبھی پچاس سال اور کبھی سو دو سو سال میں پلٹتا ہے تو ہمیں بحیثیت مسلمان یہ عزم رکھنا چاہئے کہ جب بھی حالات موافق ہوں گے، ظلم کی گھٹائیں چھٹ جائیں گی، اور وقت اس کو مسجد کی شکل دینے کے حالات پیدا کرے گا تو ہم دوبارہ سابق مسجد کی شکل کی طرح ہی اسے خدائے واحد کی عبادت سے آباد کریں گے۔
لیکن یہ بات کہ اسی نام سے دوسری مسجد بنا لی جائے سراسر احمقانہ اور اپنے مقدمہ کو کمزور کرنا ہے۔ کعبۃ اللہ کو مشرکین مکہ نے صدیوں شرک سے آلودہ رکھا، رسول اللہ ﷺ  جب مکہ مکرمہ میں اپنی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھتے ہوں گے تو آپؐ کو کس درجہ تکلیف ہوتی ہوگی لیکن آپؐ نے اسے برداشت کیا۔ 
 
مدینہ منورہ جاتے ہوئے مسجد قباء کی بنیاد رکھی اور مدینہ پہنچ کر مسجد نبویؐ کی بنیاد رکھی؛ لیکن کعبۃ اللہ سے اپنی محبت وتعلق کے اظہار کے لئے آپؐ نے مدینہ منورہ میں کوئی کعبۃ اللہ تعمیر نہیں کیا۔ یہی رسول اللہ ﷺکا اسوہ ہے، اسی میں حکمت ومصلحت ہے۔ اپنے جذبات کی پیروی یا اپنے سیاسی مفاد کیلئے کوئی راستہ اختیار کرنا مسلمانوں کے شایان شان نہیں ہے، یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ اس وقت مرشد آباد میں بابری مسجد کے نام سے مسجد کی بنیاد رکھنا بالکل اسی نوعیت کا عمل ہے، یہ لوگوں کو اسلام کی اہانت پر اُکسانا ہے، مسجدوں کی عزت ووقار کو پامال کرنے کی بالواسطہ کوشش ہے اور یہ ہر گز دین داری اور اللہ سے وفا شعاری نہیں ہے۔
مسلمانوں کو احوال وقرائن کی روشنی میں بھی صورت حال کو سمجھنا چاہئے، ایک ایسا شخص جس کا دینی کاموں سے تعلق نہیں، جو اسلام دشمن اور مسلمان دشمن تنظیم کے ٹکٹ پر الیکشن جیت چکا ہے، اس سے کیا یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ یہ کام دینی جذبہ کے تحت کر رہا ہے؟ یہ انتہائی درجہ کی ناسمجھی ہے، صرف خوبصورت نعروں پر ریجھ جانا فراست ایمانی کے مغائر ہے۔ خلیفۂ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہد میں مسلمانوں میں ایک فرقہ کا ظہور ہوا، جو جمہور صحابہ کو کافر ٹھہراتے تھے، اور ان کے قتل کو جائز سمجھتے تھے، بہت سے صحابہ ان کے ہاتھوں سے شہید ہوئے، اس میں ایک حصہ شامیوں کا تھا، جب حضرت علیؓ نے ان سے جہاد کیا تو انہوں نے مسلمانوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اپنے نیزوں پر قرآن مجید کو اُٹھالیا، حضرت علیؓ نے لوگوں کو سمجھایا کہ یہ ایک حیلہ ہے، اس سے دھوکہ نہیں کھاؤ؛ لیکن بہت سے سادہ لوح مسلمان اس سے متاثر ہوگئے، اگر لوگوں نے اس سازش کو سمجھ لیا ہوتا تو اہل شام کا فتنہ ختم ہو جاتا اور بنو امیہ خلیفہ ٔ برحق کے سامنے سر جھکا لئے ہوتے؛ لیکن ایسا ہو نہیں پایا، بعد کے ادوار میں بھی خوارج کے گروہ نے قرآن مجید کا نام لے کر بہت سے مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا؛ اس لئے ہمیشہ مسلمانوں کو اور بالخصوص مسلم قائدین اور رہنماؤں کو ایسے خوش کن نعروں سے چوکنا رہنا چاہئے، جو سانپ کی طرح خوبصورت ہوتا ہے؛ لیکن اس کے اندر زہر کی تھیلی چھپی ہوتی ہے۔ اس وقت یہ نام نہاد مسجد مسلمان دشمنوں کے اشارہ پر کھڑی کی جا رہی ہے اور بظاہر بی جے پی نے اپنے سیاسی اور انتخابی مفاد کیلئے کچھ غرض مند اور سیاسی عہدے کے حریص نام نہاد مسلمانوں کو اس کے لئے اُکسایا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ملک بھر کی مسلم تنظیموں اور قابل ذکر مسلم شخصیتوں نے اپنے آپ کو اس فتنے سے دور رکھا ہے، ضرورت ہے کہ خاص کر مغربی بنگال اور ا س کے مضافات میں آباد مسلمان ایسی سازشوں کو سمجھیں اور اس کو ناکام ونامراد بنا دیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK