• Fri, 12 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

علم اللہ کے حضور جوابدہی کے احساس کی صفت کو پروان چڑھاتا ہے

Updated: December 12, 2025, 5:08 PM IST | Dr. Yusuf Al-Qaradawi | Mumbai

علم کے بغیر عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے غلط راستے پر چلنے والا۔ جو شخص علم کے بغیر عمل کرتاہے وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرتا ہے۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این

شرعی طور پر اہم ترین ترجیح میں سے ایک یہ ہے کہ علم عمل پر مقدم ہے، کیوں کہ علم پہلے ہوتا ہے اور عمل بعد میں۔ علم عمل کا رہنمااورمرشد ہوتاہے۔ معاذؓ بن جبل سے روایت ہے: 
’’علم امام ہے اور عمل اس کا مقتدی۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ  نے اپنی صحیح کی کتاب العلم میں ایک باب کا عنوان اَلْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ(علم قول او رعمل پرمقدم ہے) رکھاہے۔ بخاری کے شارحین کہتے ہیں کہ اس سے امام بخاریؒ  کا مطلب یہ ہے کہ قول اور عمل کی صحت کے لئے علم شرط ہے۔ یہ دونوں اس کے بغیر معتبر نہیں ہیں۔ اس لئے یہ ان پر مقدم ہے۔ یہاں تک کہ یہ اس نیت کی بھی تصحیح کرتاہے جو عمل کی صحت کے لئے  ضروری ہے۔ بخاری کے شارحین کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ  نے اسی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیاہے، تاکہ جب یہ کہاجاتاہے کہ عمل کے بغیر علم کا کوئی فائدہ نہیں تو اس سے کسی کے ذہن میں یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ علم کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے  اس کی طلب کی بھی ضرورت نہیں۔ 
امام بخاریؒ نے اپنی بات کی دلیل کے طور پر متعدد آیات اور احادیث ذکر کی ہیں، جو ان کے مُدعا کی بخوبی وضاحت کرتی ہیں:
’’جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اپنے گناہوں کی بخشش مانگو اور مومنین اور مومنات کے گناہوں کی بھی۔‘‘ ( سورہ محمد: ۱۹) 
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمؐ کو سب سے پہلے حصولِ علم کا حکم دیاہے اور اس کے بعد استغفار کی تاکید کی ہے، جو کہ ایک عمل ہے۔ اور یہاں خطاب اگرچہ رسولؐ اللہ سے ہے، مگرساری اُمت اس خطاب میں شامل ہے۔ دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:’’یقیناً اللہ کے بندوں میں اس کی خشیت رکھنے والے وہی ہیں جو علم رکھتے ہوں۔‘‘ (سورہ فاطر:۲۸)
وہ علم ہی ہے جو ایک انسان میں اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس کی صفت کو پروان چڑھاتا ہے اور اس کی وجہ سے آدمی عمل پر آمادہ ہوجاتاہے۔  احادیث میں سے ایک یہ ہے: 
’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے،  اسے دین کی گہری سمجھ عطا فرماتاہے۔ ‘‘ (صحیح بخاری مع فتح الباری)
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ دین کو درست طور پر سمجھے گا تو عمل بھی کرے گا اور صحیح عمل کرے گا۔ قرآن کی سب سے پہلی وحی جو نازل ہوئی وہ اقرأ تھی [یعنی پڑھئے] اور قرأت علم کی کنجی ہے۔ عمل کے احکام اس کے بعد نازل ہوئے، جیسے: 
’’اے چادر اوڑھنے والے، اُٹھو اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سناؤ، اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان کرو،   اور اپنا دامن صاف رکھو۔ ‘‘ (سورہ المدثر:  ۱-۴) 
علم ایک ترازو ہے: پھر علم اس وجہ سے بھی عمل پر مقدم ہے کہ یہ اعتقادات میں حق اور باطل کے درمیان، اقوال اور اعمال و معیارات میں صحیح اور غلط کے درمیان، سنت اور بدعت کے درمیان، صحیح اور فاسد کے درمیان، حلال اور حرام کے درمیان، اچھے اور بُرے کے درمیان، مقبول اور نامقبول کے درمیان اور اہم اور کم اہم یا غیر اہم کے درمیان تمیز کرتاہے۔ 
علم کے بغیر عمل کا نقصان: جس مسئلہ کے بارے میں ہم گفتگو کررہے ہیں، اس کی اصل بنیاد بھی علم ہی پر ہے۔ اسی کے ذریعے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ کس کا حق مقدم ہے اور کس کو مؤخر کیاجاسکتاہے۔ اگر ہمیں اس چیز کا علم نہ ہو تو پھر ہم اندھیرے میں تیر چلائیں گے۔ 
خلیفۂ راشد عمر بن عبدالعزیزؒ نے ایک موقع پر یہ خوبصورت بات کہی:  ’’جو شخص علم کے بغیر عمل کرے گا وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرے گا۔‘‘ (جامع بیان العلم وفضلہ، ابن عبد البر)
علم کے بغیر عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے غلط راستے پر چلنے والا۔ جو شخص علم کے بغیر عمل کرتاہے وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرتا ہے۔ لہٰذا علم کی طلب اتنی رکھو کہ اس کی بنا پر عبادت کو نقصان نہ ہو اور اس حد تک عبادت کرو جو علم کے لئے مضر نہ ہو۔ 
قیادت اور علم: قرآن کریم کے مطابق ہر قسم کی قیادت کیلئے علم شرط ہے، خواہ وہ سیاسی و انتظامی قیادت ہو، جیسے یوسف علیہ السلام کی قیادت پرشاہِ مصر نے کہا: ’’ اب آپ ہمارے ہاں قدر ومنزلت رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔ ‘‘ (سورہ یوسف: ۵۴)
اس پر یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا:  ’’ملک کے خزانے میرے سپرد کردیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور [ان معاملات کا] علم بھی رکھتاہوں۔ ‘‘ (سورہ یوسف:۵۵)
یہاں یوسف ؑنے اپنی خاص اہلیتوںکے بارے میں بتایا جو آپؑ کو اس عظیم کام کااہل ثابت کررہی تھیں، جس میں اس دور کے مطابق مالی اور اقتصادی امور، زراعت، منصوبہ بندی اور رسد کے انتظامات شامل تھے۔ 
’’اور [ان معاملات کا] علم بھی رکھتاہوں۔ ‘‘ سے مراد وہ قابلیت ہے جو دو اُمور کی تھی: ایک حفاظت یعنی امانت، اور دوسرا علم۔ یہاں علم سے مراد تجربہ اور کافی معلومات ہیں۔
یہ دونوں صفات سورۂ قصص میں شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی زبان سے نکلی ہوئی صفات کے مطابق ہیں، جو اس نے موسیٰ علیہ السلام کو بطور ملازم رکھنے کے لئے اپنے والدمحترم کو بتائی تھیں: 

’’بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھ لیں وہی ہو سکتاہے، جو مضبوط اور امانت دار ہو۔ ‘‘ (سورہ القصص:۲۶)۔ پھر یہی معاملہ سیاسی و فوجی قیادت کے بارے میں بھی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بادشاہ مقرر کیا تو اس کی وجہ یہ بتائی: ’’اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیاہے اور اس کو علمی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔ ‘‘ (البقرۃ :۲۴۷) 
عدل کیلئے علم کی شرط:  عدالتی امور میں بھی علم ہی اہلیت کا معیار ہے۔ شریعت نے ’قاضی‘ کے لئے بھی وہی شرط لگائی ہے جوکہ ’خلیفہ‘ کے لئے مقرر ہے، یعنی وہ ’مجتہد‘ ہو۔ یہاں اس بات پر اکتفا نہیں کیاگیا کہ وہ محض اتنا علم رکھتا ہو جو اسے دوسروں کی تقلید سے بے نیاز نہ کرسکے۔ علم کی اصل حقیقت یہ ہے کہ آدمی حق کو دلیل کے ساتھ پہچانے، نہ کہ انسانوں میں سے کسی فرد کے ساتھ موافقت کو اپنے اوپر لازم سمجھ لے۔ جس نے کسی دلیل کے بغیریا کسی بے اصل یا بے سروپا دلیل کے ساتھ اپنے جیسے ایک انسان کی پیروی کی تو یہ علم ناقص ہے جو قضاء اور خلافت کے لئے ناکافی ہے۔ 
علم کے بغیر فتویٰ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے اس شخص کی تردید اور نفی فرمائی ہے جس نے آپؐ کے دور میں فتویٰ دینے میں جلدبازی سے کام لیا تھا اور ایک ایسے شخص پر غسل لازم قرار دیا تھا جو زخمی تھا۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’اسے اس کے ساتھیوں نے ہلاک کیا ہے، اللہ انہیں ہلاک کرے۔ جب انہیں علم نہیں تھا تو کسی سے پوچھا کیوں نہیں؟ مرضِ جہل کا علاج یہ ہے کہ پوچھا جائے۔ اس کے لئے تو تیمم ہی کافی تھا۔ ‘‘ (صحیح الجامع الصغیر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فتویٰ کو اس شخص کے قتل کے مترادف ٹھہرایا اور انھیں ان الفاظ میں بددُعا دی: قَتَلَہُمُ اللہ [اللہ انھیں ہلاک کرے]۔ معلوم ہوا کہ جہالت کا فتویٰ کبھی ہلاک کرے گا اور کبھی تخریب کا ذریعہ بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن قیمؒ وغیرہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے کہ ’’کوئی شخص علم کے بغیر دین میں فتویٰ دینے کا مجاز نہیں‘‘۔ارشادِ ربانی ہے: ’’اور یہ بھی ممنوع ہے کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو۔ ‘‘ (الاعراف:۳۳) 
اللہ اعلم (اللہ بہتر جانتا ہے ):
  حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں: اگر میں وہ بات کہوں جو مجھے معلوم نہ ہو تو کون سا آسمان ہوگا جو مجھ پر سایہ کرے گا اور کون سی زمین ہوگی جو مجھے پناہ دے گی۔   اور حضرت علیؓ بن ابی طالب نے فرمایا کہ اس بات سے میرا سینہ ٹھنڈا ہوتا ہے، یہ بات آپؓ  نے تین بار دُہرائی…کہ آدمی سے ایک مسئلہ پوچھاجائے اور وہ اسے معلوم بھی ہو مگر وہ کہے: اللہ اعلم یعنی اللہ بہتر جانتاہے۔ 
سیّد التابعین حضرت سعید بن مسیبؒ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ جب کوئی فتویٰ دیتے تو یہ ضرور کہتے: ’اے اللہ! مجھے محفوظ فرما اور مجھ سے لوگوں کو محفوظ فرما۔‘‘(ابن  قیم إعلام الموقعین)
داعی اور معلم کے لئے علم کی ضرورت: جب قضا اور فتویٰ کے لئے علم ضروری ہے تو دعوت و تربیت کے لئے بھی اس کی ضرورت مسلّم ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’آپ ان سے صاف کہہ دیجئے  کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھتے ہوئے اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔ ‘‘  (یوسف:۱۰۸)
لہٰذا، ہرداعی الی اللہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی دعوت علی الوجہ البصیرت ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی دعوت سے پوری طرح آگاہ ہو۔ جس چیز کی طرف وہ دعوت دے رہاہو، اسے اس نے خوب سمجھا ہو۔ اسے معلوم ہو کہ وہ کس چیز کی طرف دعوت دے رہاہے، کس کو دے رہاہے، کیوں دے رہاہے اور کیسے دے رہاہے؟ 
دعوت اور تعلیم کے میدان میں علم کے ذریعے جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں، ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ معلم لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرے، انہیں مشکل میں نہ ڈالے، انہیں خوش خبری سنائے، اور انہیں متنفر نہ کرے۔ جیسا کہ ایک متفق علیہ حدیث میں آیاہے: ’’آسانی پیدا کرو، مشکل میں نہ ڈالو، خوشخبری سناؤ متنفر نہ کرو۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK