Inquilab Logo

رام نومی کے موقع پربہار میں فرقہ وارانہ فسادات کی سازش

Updated: April 10, 2023, 3:58 PM IST | Professor Mushtaq Ahmed | Mumbai

اس وقت ملک میں ایک خاص نظریے کو فروغ حاصل ہے، شدت پسندی کی کوشش بھی کامیاب ہو رہی ہے اور اس کا سیاسی فائدہ بھی ایک خاص سیاسی جماعت کو مل رہا ہے۔ اسلئے جہاں کہیں امن وسکون کے ساتھ ترقیاتی رفتار تیز ہوتی ہے وہاں فرقہ واریت کی چنگاری کو شعلہ بنانے کی سازش بھی شروع ہو جاتی ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

بہار سیاسی طورپر ایک حسّاس ریاست ہے اور جب سے نتیش کمار کی قیادت میں عظیم اتحادکی دوبارہ حکومت تشکیل پائی ہے اس کے بعد سے ریاست کی فضا کو مکدر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ظاہر ہے کہ اس وقت ملک میں ایک خاص نظریے کو فروغ حاصل ہے اور شدت پسندی کو مستحکم کرنے کی کوشش قدرے کامیاب بھی ہو رہی ہے اور اس طرح  اس کا سیاسی فائدہ بھی ایک خاص سیاسی جماعت کو مل بھی رہا ہے۔ اس لئے جہاں کہیں امن وسکون کے ساتھ ترقیاتی رفتار تیز ہوتی ہے وہاں فرقہ واریت کی چنگاری کو شعلہ بنانے کی سازش بھی شروع ہو جاتی ہے۔
  ریاست بہار میں بھی اس طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں یہ اور بات ہے کہ نتیش کمار ایک زمینی سیاست داں ہیںاوروہ اس طرح کی شطرنجی چالوں سے کما حقہٗ واقف ہیں اس لئے ریاست میں جو طاقت فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ان پر نتیش کمار بھی نظر رکھتے ہیں۔ لیکن گزشتہ دن رام نومی کےموقع پر ریاست کے دو شہروں میں مقامی انتظامیہ کی لا پروائی کی وجہ سے گھات لگائے  بیٹھے فرقہ پرستوں کو موقع مل گیا اور ریاست میں کشیدگی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ اگرچہ ریاست کے کسی دوسرے حصے میں اس طرح کی سازش کامیاب نہیں ہوسکی۔ خیال رہے کہ پوری ریاست میں تقریباً دو ہزار رام نومی کے اکھاڑے نکلتے ہیں اور روایتی طورپر جلوس بھی گلی کوچوں سے گزرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ حالیہ دنوں میں رام نومی کے جلوس میں بھی اشتعال انگیزی کو جگہ ملنے لگی ہے اور بالخصوص جہاں کہیں مسلمانوں کی آبادی ہوتی ہے وہاں ان مواقع پر حسّاسیت میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس لئے حکومت کی جانب سے بھی مقامی سطح پر ضلع انتظامیہ کی نگرانی میں امن کمیٹی تشکیل دی جاتی رہی ہے اور امن وشانتی کا ماحول قائم رکھنے کے لئے برادرِ وطن کے سرکردہ افراد بھی اس کمیٹی میں شامل رہتے ہیں۔
  نتیش کمار جب سے عظیم اتحاد کی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں اسی وقت سے یہ اندیشہ لاحق ہے کہ ریاست میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جا سکتی ہے۔ اس لئے نتیش کمار کے ساتھ ساتھ عظیم اتحاد کے دوسرے لیڈران بھی عوامی جلسوں میں اکثر یہ اپیل کرتے رہے ہیں کہ ریاست میں ترقی کے کاموں میں تیزی اسی وقت آئے گی جب امن وامان کا ماحول رہے گا لیکن باوجود لاکھ کوششوں کے ریاست بہار کے ضلع نالندہ کے شہر بہار شریف اور ساسارام میں جس طرح رام نومی کے جلوس کے بہانے فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کی کوشش کی گئی، وہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ معلوم ہوتا ہے کیوں کہ اب جبکہ ان دونوں شہروں میں ضلع انتظامیہ نے حالات کو قابو میں کرلیا ہے تو یہ حقیقت چھَن کر سامنے آرہی ہے کہ مقامی لوگوں سے زیادہ باہری لوگ اشتعال انگیز نعرے اور پھر سنگباری کے بعد فرقہ وارانہ فساد کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں پیش پیش تھے۔بالخصوص بہار شریف کی جس مسجد کو شر پسندوں نے نشانہ بنایا وہاں کے امام صاحب نے ذرائع ابلاغ میں یہ وضاحت کی ہے کہ وہاں کی ضلع انتظامیہ کی لاپروائی کی وجہ سے کچھ شرپسندوں نے مسجد کو نقصان پہنچایا اور ایک تاریخی مدرسہ عزیزیہ کو بھی نذر آتش کردیا۔ امام صاحب نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اس واردات کے بعد مقامی وارڈ کونسلر جو غیر مسلم ہیں ،انہوں نے ہی آکر امام صاحب اوردیگر لوگوں کی حفاظت کی۔ غرض کہ واقعات رونما ہونے کے گھنٹوں بعد تک پولیس انتظامیہ جائے واردات پر نہیں پہنچی اور فرقہ پرست اپنے منصوبے کو پورا کر نے میں کامیاب ہوگئے۔  
 بہر کیف! اب ان دونوں شہروں کے حالات آہستہ آہستہ معمول پر آرہے ہیں اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے فرقہ وارانہ فسادات کو انجام دینے والے شرپسندوں کی گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں لیکن ان دونوں واقعات نے نتیش کمار کی قیادت والی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج کھڑا کیا ہے کہ آخر کس طرح یہ سازش کامیاب ہوئی ۔ ریاست کے چیف سیکریٹری اور ڈی جی پی صاحبان نے بھی مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعہ ان دونوں شہروں کے حالات کے معمول پر آنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور تمام تر سازش کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ دراصل ریاست بہار میں ایک غیر یقینی سیاسی صورتحال ہے کہ ایک ایسی طاقت جو عظیم اتحاد کے درمیان پھوٹ ڈالنا چاہتی ہے وہ طرح طرح کے افواہوں کو فروغ دے رہی ہے اور نتیش کمار کی شبیہ کو مسخ کرنا چاہتی ہے ۔ چوں کہ آئندہ سال پارلیمانی انتخاب ہونا ہے اور پھر اس کے بعد ریاستی اسمبلی کا انتخاب بھی ہوگا، اسلئے ابھی سے ہی ریاست کی فضا کو قدرے مکدر بنانے کی طرح طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ اشتعال انگیز اور نفرت آمیز نعرے بازیاں ہو رہی ہیں ، جذباتی تقریریں کی جا رہی ہیں ، متنازعہ مسائل کھڑے کئے جا رہے ہیں۔
  ایسے حالات میں صرف حکومت یا ضلع انتظامیہ ہی نہیں بلکہ ہر امن پسند شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کی سازشوں کو ناکام کرنے کے تئیں بیدار رہیں اوربر وقت اعلیٰ حکام کو حالات کی اصل صورت سے آگاہ کریں۔مقامی سطح پر اگر ضلع انتظامیہ کے حکام تساہلی برتتے ہیں تو اس کی بھی اطلاع کریںکیو ں کہ اگر بر وقت اس طرح کی سازشوں کو ناکام نہیں کیا گیا تو ممکن ہے کہ اس طرح کے حالات دوسرے شہروں میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ بالخصوص برادرِ وطن کے ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر سماجی پلیٹ فارم سے ایسے مشتبہ لوگوں کے حرکات وسکنات سے مقامی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ریاست کے اعلیٰ حکام کو بھی آگاہ کریں کہ اس پر نکیل کسا جا سکے۔
  کیوں کہ یہ حقیقت تو واضح ہو چکی ہے کہ ایک خاص نظریے کے لوگ اپنے مفاد میں اس طرح کے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کا خاطر خواہ سیاسی فائدہ انہیں مل سکے لیکن اگر بر وقت کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جائے گا تو اس کے منصوبے پر پانی پھیرا جا سکتا ہے اور ریاست میں امن وسکون کا ماحول بحال رہے گا۔ اقلیتی طبقے کے دانشوروں کو بھی پہل کرنی ہوگی کہ ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے ایسے افراد ہیں جو جذباتی بیان بازی کے ذریعہ ماحول کو کشیدہ بنا دیتے ہیں ایسے لوگوں کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ کسی سازش کے شکار نہ ہوں کیوں کہ ملک میں جس طرح کی فضا بنائی جا رہی ہے ایسے حالات میں جذباتیت سے پرہیز کرتے ہوئے سنجیدہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ ایسا کرنا ہی ملک وقوم کے مفاد میں ہے۔
  حکومت اور انتظامیہ پر صرف اور صرف بہتان و الزام تراشی سے بھی پرہیز کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے تعاون سے ہی فرقہ پرستوں کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہئے کہ وقتاً فوقتاً ضلع انتظامیہ اور حکومت کے اعلیٰ حکام سے بھی رابطہ قائم کر زمینی حقیقت سے انہیں آگاہ کیا جا سکے اور یہ عمل جمہوری طریقے سے انجام دیا جانا چاہئے کیوں کہ ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ کسی بھی ملک میں اقلیت طبقے کے لئے اس طرح کے حالات پیدا کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے آئین میں اقلیت طبقے کے حقوق کی پاسداری کی وکالت کی گئی ہے مگر شرط یہ ہے کہ اقلیت طبقہ بھی جمہوری تقاضوں کو پورا کرنے میں کوتاہی نہیں برتے اور اپنے کردار واعمال سے دوسروں کے جذبات کو مجروح نہ کریں۔ اگر ہمارے معاشرے میں اس طرح کی فکر ونظر کی بالا دستی ہوگی تو ممکن ہے کہ ہم بہت سی آفتوں سے خود کو بچا سکیں گے اور کسی بھی طرح کی سازشوں کو قبل از وقت ناکام کرسکیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK