Inquilab Logo

اقلیتوں کے آئینی حقوق اور معاشرتی ترجیحات

Updated: January 14, 2024, 3:58 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

شمالی ہند میں اقلیت طبقے کو تعلیم کے تئیں نہ صرف سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے بلکہ تقاضۂ عہد کے مطابق اپنے تعلیمی اداروں کو معیار ووقار کے لحاظ سے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

وطن عزیز میں سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ دیگر اقلیتوں میں سکھ،عیسائی ، بودھ، جین، پارسی اور یہودی بھی ہیں۔ ہمارے آئین میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو خصوصی مراعات دئیے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں الگ الگ اقلیتیں اپنی مذہبی، لسانی اور تہذیبی وثقافتی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے برادرِ وطن کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حالیہ کچھ برسوں میں وطن عزیز کی فضا قدرے مکدّر ہوئی ہے اور اقلیتوں کے تئیں ذہنی تعصبات وتحفظات میں اضافے بھی ہوئے ہیں۔
  واضح ہو کہ عالمی سطح پر ہر سال ۱۸؍دسمبر کو یومِ حقوق اقلیت منایا جاتا ہے۔ اپنے وطن میں بھی سرکاری او ر غیر سرکاری اداروں میں اقلیتوں کے آئینی حقوق پر سمینار ومذاکرے منعقد ہوتے ہیں۔ جہاں تک ہندوستان میں یومِ حقوق اقلیت منانے کا سوال ہے تو۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء سے منایا جا رہا ہے ۔ ہم سب اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا علمبردار ہے اور ہمارے آئین میں آرٹیکل ۲۵؍سے۳۰؍ تک میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کی وکالت کی گئی ہے اور اسی آئینی اختیارات کی بدولت ملک کی اقلیتوں کے ہزاروں تعلیمی ادارے چل رہے ہیں اور جب کبھی اقلیتوں کے آئینی حقوق کو پامال کرنے کی مذموم کوششیں ہوتی ہیں تو اقلیتیں عدالتِ عظمیٰ کا رخ کرتی ہیں اور اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کی خاطر آخری دم تک قانونی جنگ لڑتی ہیں ۔حال کے دنوں میں بھی کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے اقلیتوں کے آئینی حقوق پر کاری ضرب لگی ہے اور اس کے خلاف متاثرہ افراد عدالت تک پہنچے ہیں۔  جہاں تک موجودہ مرکزی حکومت کا سوال ہے تو وزیر اعظم اپنا عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن سے یہ نعرہ دے رہے ہیں کہ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ ظاہرہے کہ جب سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کرنے کی وکالت ہو رہی ہے تو ان سب میں اقلیتیں بھی شامل ہیں۔
ملک کی دیگر اقلیتوں کو دیکھیں تو وہ اتنے مسائل سے نبرد آزما نہیں ہیں جتنے کہ مسلم اقلیت ہیں۔ دراصل ملک کی دیگر اقلیتیں یعنی سکھ، عیسائی، پارسی، بودھ اور جین نے اپنے معاشرتی ترجیحات کے خطوط مرتب کر رکھے ہیں اور ان خطوط میں اولیت تعلیم ہے جب کہ مسلم اقلیت نے اپنے معاشرتی ترجیحات میں تعلیم کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔ ہماری پسماندگی کا خلاصہ خواہ سچر کمیٹی ہو یا جسٹس مشرا کمیشن میں عیاں ہوتا رہتا ہے اور ہم  اپنی پسماندگی کا سارا ٹھکرا حکومت کے سر پھوڑتے رہتے ہیں۔ جب کہ دیگر اقلیتوں نے اپنی ترجیحات میں نہ صرف تعلیم کو اولیت دی ہے بلکہ قومی سطح پر ان کے تعلیمی اداروں کی شناخت ایک معیاری اور عصری تقاضوں سے لیس اداروں کے طورپر ہوتی ہے ۔ جب کہ مسلم اقلیت کے تعلیمی اداروں کی فہرست دیکھ کر نہ صرف مایوسی ہوتی ہے بلکہ ان کے معیار ووقار پر بھی رونا آتا ہے۔ البتہ حالیہ دو تین دہائیوں میں جنوبی ہند کی مسلم اقلیت نے اس شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں لیکن شمالی ہند کی حالت بد سے بد تر ہے ۔ بالخصوص بہار، اترپردیش ، مغربی بنگال، راجستھان، جھارکھنڈ ، مدھیہ پردیش ، چھتیں گڑھ اور اڑیسہ میں ہمارے حصے میں کیا کچھ ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ہمارے معاشرے میں نہ جانے کب سے یہ مفروضہ عام ہوگیا کہ تعلیم کودینی اور دنیاوی تعلیم میں منقسم کردیا گیا جب کہ تعلیم غیر منقسم حقیقت ہے اور اسلام نے کبھی بھی تعلیم کو دنیاوی اور دینی تعلیم کا تصور نہیں دیاکہ آپؐ نے جب یہ فرمایا تھا ’’اطلبوالعلم ولو  بالصین‘‘ یعنی تعلیم حاصل کرنےکیلئے اگر چین بھی جانا پڑے تو جائو۔ظاہر ہے کہ اس وقت چین میں قرآن وحدیث کی تعلیم نہیں ہو رہی تھی بلکہ جدید تکنیکی تعلیم کیلئے چین مشہورتھا اور صنعت وحرفت میں اس کا بول بالا تھا۔  تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ ہمارے مدارس کے فارغین نے منطق، فلسفہ ، لسانیات، حکمت اور طب جیسے شعبے میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ برسوں میں تعلیم کے تئیں مسلم معاشرے میں قدرے بیداری آئی ہے مگر منزل ابھی بہت دور ہے۔  ملک کی دیگر اقلیتوں کے مقابلے مسلم اقلیت تعلیم کے شعبے میں اپنی موجودگی کا احساس کرانے میں ناکام ہے۔ حال ہی میں مجھے ایک خاص مقصد کے تحت شمالی بہار کے سیمانچل جن میں مسلم اکثریت والے اضلاع ارڑیہ، پورنیہ ، کشن گنج، کٹیہار اور سوپول کا دورہ کرنے کا موقع ملااور لو گ باگ سے گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ان مسلم اکثریت والے اضلاع میں آبادی کے لحاظ سے تعلیمی اداروں کا بڑا فقدان ہے۔ البتہ کشن گنج میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ نے اپنی کوششوں سے ایک بڑا تعلیمی کیمپس بنایا ہے جس میں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے الگ الگ مدارس ،پرائمری اسکول، ہائی اسکول کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے لئے کالج بھی قائم کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے ایک پرائیوٹ یونیورسٹی بنام ’’امام بخاری یونیورسٹی‘‘ بھی قائم کی ہے ۔ اس ٹرسٹ کے روحِ رواں ڈاکٹر مطیع الرحمٰن کی ہمت کو داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے آندھیوں کے زور پر چراغ جلانے کا کام کیا ہے ۔ کشن گنج جیسے مسلم اکثریت والے ضلع میں ایک ہی کیمپس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کو پورا کرنے والے تکنیکی ادارے بھی قائم کئے ہیں اور یونیورسٹی بنانے کا جو ان کا خواب ہے وہ بھی پورا ہونے والا ہے۔دوسرا یک ادارہ مظفرپور ضلع کے سگھہڑی رام پور میں مدرسہ دارالملت ہے جس کے احاطے میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری نصابوں کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے اور سو طلبہ کیلئے  حکومت بہار کی جانب سے ہاسٹل تعمیر ہو اہے۔گزشتہ دنوں وہاں امتیاز احمد کریمی کی کوششوں سے سہ روزہ تعلیمی اجلاس منعقد ہوا جس میں مدارس کے اساتذہ کیلئے تربیتی پروگرام کا بھی اہتمام  تھا جس میں امیر شریعت بہار ، جھارکھنڈ واڑیسہ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے نہ صرف شرکت کی بلکہ تربیتی پروگرام میں دینی تعلیم کو معیاری بنانے کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کو بھی اپنانے کی وکالت کی ۔ ظاہر ہے کہ مولانا رحمانی عصری علوم بالخصوص کمپیوٹر سائنس کے ماہر ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اس اجلاس میں اس بات کی تلقین کی کہ ہمارے تعلیمی اداروں کو معیاری تعلیمی ادارہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
مختصر یہ کہ شمالی ہند میں اقلیت طبقے کو تعلیم کے تئیں نہ صرف سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے بلکہ تقاضۂ عہد کے مطابق اپنے تعلیمی اداروں کو معیار ووقار کے لحاظ سے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر اس دورِ عا لمیت میں ہماری شناخت مستحکم نہیں ہو سکتی اور ہمارے معاشرے کی تصویر وتقدیر نہیں بدل سکتی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK