Inquilab Logo

اپنے فنکار کی توقیر بڑھا، دِل نہ دُکھا

Updated: January 04, 2020, 12:31 PM IST | Shahid Latif

اہل اقتدار نے اپنے فنکاروںکی ہمیشہ ناقدری کی۔ اِنہیں سچے فنکاروں سے ہمیشہ بَیر رہا۔ اُن فنکاروں سے جو سچ بولتے اور اقتدار کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ مشہور ترقی پسند شاعر فیض نے کس پس منظر میں نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کہی اور اُسے کس پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاج میں کہیں فیض تو کہیں حبیب جالب گونج رہے تھے
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاج میں کہیں فیض تو کہیں حبیب جالب گونج رہے تھے

اِن دِنوں فیض احمد فیض کی نظم ویبقیٰ لوجہ ربک (ہم دیکھیں گے) موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ فیض، اُردو کے ممتاز اور ترقی پسند شاعر ہیں۔ جو لوگ ترقی پسند تحریک، زبان، ادب اور مطالبۂ سماجی انصاف سے واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ پورا کا پورا ترقی پسند ادب مزاحمت اور احتجاج پر مبنی ہے۔ صرف اُردو میں نہیں، ترقی پسند ادب جس کسی زبان میں لکھا گیا، ہر اُس زبان میں مزاحمتی اور احتجاجی لہجہ غالب ہے۔ صرف اُردو کی بات کی جائے تواس زبان نے بھلے ہی محبوب کے لب و رخسار اور قدوقامت و گیسو کو موضوع بنایا ہو مگر یہیں تک محدود رہنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ پوری شاعری گواہ ہے کہ شاعر محبوب سے کلام کرنے کے باوجود واقعات و حادثات زمانہ سے بے نیاز نہیں رہتا۔ غالب نے ستم ہائے روزگار کے باوجود محبوب سے غافل نہ رہنے کا اعلان کیا تھا مگر اُردو شاعری نے اس ترتیب کو اُلٹ کر بھی نہایت خوبصورتی سے برتا ہے چنانچہ فیض ہی نے دُنیا سے یہ بھی گلہ کیا تھا کہ اس نے شاعر کو محبوب کی یاد سے غافل کردیا اور غم روزگار میں اُلجھا دیا جو پیکر محبوب سے زیادہ دلفریب ہے۔ ساحر بھی ترقی پسند شاعر تھے جنہوں نے تاج محل کو مظہر الفت اور وادیٔ رنگیں قرار دینے کے باوجود اصرار کیا کہ اس کا محبوب کہیں اور ملنے آیا کرے کیونکہ جس راہ پر سطوت شاہی کے نشاں ثبت ہوں‘‘ شاعر اُس راہ سے اُلفت بھری روحوں کے سفر کو بے معنی سمجھتا ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ اُردو شاعری میں احتجاج کی لے ہمیشہ غالب رہی ہے۔ جو لوگ اس نظم کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اُنہیں ایسا کرنے کے بجائے اپنی کم علمی کے علاوہ کاہلی پر بھی آنسو بہانا چاہئے کہ اعتراض کرنے یا تنازع کھڑا کرنے سے پہلے اُنہوں نے یہ تک جاننے کی زحمت نہیں کی کہ ’’ویبقیٰ لوجہ ربک ‘‘ (ہم دیکھیں گے) فیض نے کب اور کس دور میں لکھی اور اس کی شان نزول کیا تھی۔ اِس بہانے وہ اُردو کی ایک شاندار نظم سے واقف ہوجاتے اور ممکن تھا کہ اُن میں اُردو کے دیگر شعراء کو پڑھنے کی بھی تحریک پیدا ہوتی! تب اُنہیں معلوم ہوتا کہ اقبال کا احتجاج تو خداوندان ارضی و مجازی تک محدود نہیں بلکہ خداوند حقیقی سے تھا جب اُنہوں نے ’’ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں‘‘ کے ذریعہ اپنی شکایات کو رب العالمین کے حضور پیش کرنے کی جرأت کی تھی۔ ’’شکوہ‘‘ کے ڈیڑھ دو سال بعد ’’جواب شکوہ‘‘ منظر عام پر نہ آتی تو گستاخی پر محمول کیا جاتا۔ مقصد قوم کو جھنجھوڑنا تھا۔ ’’شکوہ‘‘ پر اقبال کے پڑھنے والوں کو شکوہ ضرور رہا ہوگا مگر اقبال کا اصل مقصد ، جیسا کہ یہ مضمون نگار سمجھتا ہے،’’جواب شکوہ‘‘کیلئے فضا بندی تھا جس میں ’’شکوہ‘‘ کے برعکس، جہاں بندہ، خدا سے ہم سخن ہے، ’’جواب شکوہ‘‘ میں خدائے واحد بندے سے ہم کلام ہے اور اُس کی یاد دہانی کرا رہا ہے کہ وہ اپنی سستی، کاہلی، بے علمی، بے دینی، کور نگاہی اور مفاد پرستی کی وجہ سے راندۂ درگاہ بنا ہوا ہے اور بہتان خدا پر باندھتا ہے ورنہ عالم یہ ہے کہ ’’کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں=ڈھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں۔
 بتایا جارہا ہے کہ فیض کی نظم میں استعمال ہونے والا لفظ ’’بُت‘‘ تفتیش کے مراحل سے گزر رہا ہے اور اس کے ذریعہ شاید یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کیا یہ نظم کمیونل ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ نہیں معلوم کہ یہ لفظ ’’بُت‘‘ تو محبوب کیلئے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ غالب نے ’’نقش ناز، بت طنازبہ آغوش رقیب‘‘ میں بُت طناز کو ناز و انداز سے چلنے اور شوخی و بے باکی کا مظاہرہ کرنے والے محبوب کیلئے استعمال کیا تھا۔ پنڈت دیاشنکر نسیم نے ’’لائے اُس بُت کو اِلتجا کرکے‘‘ میں بھی لفظ بُت کا استعمال کیا تھا، کیا پنڈت جی کو بھی کمیونل سمجھا جائے گا؟ 
 معترضین اور مخالفین کو اُردو نثراور شاعری کا مطالعہ کرکے یہ جاننے کی فکر کرنی چاہئے کہ یہ زبان کمیونلزم کی کتنی دشمن اور انسانیت نیز بھائی چارہ کی کتنی دوست ہے۔ جگر نے ’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘ کے ذریعہ اسی لئے سمجھایا تھا کہ اہل سیاست باز رہیں، محبت اور باہمی رشتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں جو کہ اُن کا شیوہ ہے۔ ہر اہل علم وفن کی طرح جگر بھی دیکھ رہے تھے کہ اہل سیاست دلوں کو تقسیم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ اسی لئے اُنہیں احتجاج میں بھی کمیونلزم دکھائی دے جاتا ہے۔ 
 شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاج میں کہیں فیض تو کہیں حبیب جالب گونج رہے تھے۔ ہندی کے مشہور شاعر دُشینتکمار کا شعر ’’میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں ہے=ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئے‘‘ بھی مظاہرین کی اولین پسند بنارہا۔ اس سے جوش احتجاج کو جلا ملی تو کئی نوجوان مظاہرین نے خود ہی شعر و نغمہ سے استفادہ شروع کردیا۔ اس دوران ورون گرووَر کی نظم ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘ کو ملنے والی شہرت سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ عامر عزیز کی نظم تو خوب چلی جس کا ایک ایک مصرعہ احتجاج ہے (مَیں انکار کرتا ہوں/ کہ انکار کرنا انقلاب کی اُور بڑھتا پہلا قدم ہے/ مَیں قدم پیچھے ہٹانے سے انکار کرتا ہوں.......‘‘۔ دراصل اہل اقتدار بھول جاتے ہیں کہ اُنہوں نے بھی کبھی شعروادب کی پناہ گاہ میں سر چھپایا تھا۔ یاد کیجئے جب یوپی اے اقتدار میں تھی، اُس وقت کی اپوزیشن لیڈر سشما سوراج نے ’’تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا=مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تری رہبری کا سوال ہے‘‘ کے ذریعہ شعروادب ہی کا سہارا لیا تھا۔ اسی لئے اہل اقتدار کو چاہئے کہ شاعری، افسانہ اور دیگر فنون لطیفہ کو بخش دیں کہ جذبات و احساسات کے ان پیمانوں کے ذریعہ ہر فنکار ظلم و جبر اور نا انصافی کے خلاف آواز اُٹھا کر انسانیت کا پرچم لہراتا ہے۔ اسی لئے مہذب معاشروں میں شاعروں، ادیبوں اور دیگر فنکاروں کو ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا، صاحبان اقتدار پر اُن کی تنقید کو اس طرح سناگیا جیسے کوئی احسان مند اپنے محسن کی باتوں کو جذبۂ استحسان کے ساتھ سنتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK