Inquilab Logo

مرکز اور ریاستوں کا تال میل

Updated: April 30, 2022, 10:16 AM IST | Mumbai

وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے اپنی بجٹ تقریر میں زرعی اصلاحات نافذ کرنے، طبی پیش رفتوں کو مستحکم کرنے، سیاحت کو فروغ دینے اور بیرونی سرمایہ کاری کو قابل ذکر حدوں تک پہنچانے کےلئے جس خصوصیت کو ضروری قرار دیا تھا اُسے ہم مرکز اور ریاستوں کے مابین بہتر تعلقات کہہ سکتے ہیں۔

Nirmala Sitharaman .Picture:INN
وزیر مالیات نرملا سیتا رمن۔ تصویر: آئی این این

وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے اپنی بجٹ تقریر میں زرعی اصلاحات نافذ کرنے، طبی پیش رفتوں کو مستحکم کرنے، سیاحت کو فروغ دینے اور بیرونی سرمایہ کاری کو قابل ذکر حدوں تک پہنچانے کےلئے جس خصوصیت کو ضروری قرار دیا تھا اُسے ہم مرکز اور ریاستوں کے مابین بہتر تعلقات کہہ سکتے ہیں۔ انگریزی میں اسے ’’کوآپریٹیو فیڈرل ازم‘‘ کہا جاتا ہے۔ وزیر مالیات نے کو آپریٹیو کو آپریشن کا لفظ استعمال کیا تھا۔ دو روز قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس پر زور دیا۔ وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کا موضوع کووڈ کی صورت ِحال کے جائزے سے متعلق تھا مگر اس میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے اضافہ کا سوال بھی آگیا۔ اس پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جن ریاستوں میں اپوزیشن برسراقتدار ہے وہاں کی حکومتوں نے ’’وَیٹ‘‘ کم کرکے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں نہیں کم کی ہیں جس کے سبب اُن ریاستوں میں تیل مہنگا ہے جبکہ دیگر ریاستوں (جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے) کی حکومتوں نے عام آدمی کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے ویٹ کم کیا جس کے نتیجے میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔  یہ بات درست ہے مگر اپوزیشن کی ریاستوں کے اپنے دلائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت پیٹرول اور ڈیزل پر جو ایکسائز ڈیوٹی عائد ہوتی ہے وہ کم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے مگر چاہتی ہے کہ ریاستی حکومتیں ویٹ کردیں۔ اُنہیں اندیشہ ہے کہ اگر ویٹ کم کردیا گیا تو ریاستوں کو ملنے والے محصولات کم ہوجائینگے یعنی اُن کی آمدنی متاثر ہوگی چنانچہ عوامی کاموں کی تکمیل کیلئے اُنہیں قرض لینا پڑے گا۔ ریاستی حکومتوں کو یہ گلہ بھی ہے کہ جی ایس ٹی میں اُن کی حصہ داری کے بطور جو رقومات اُنہیں ملنی چاہئے وہ بروقت نہیں ملتیں۔ انہیں یہ شکایت بھی ہے کہ مرکزی ٹیکسوں میں ان کا جو حصہ ہے وہ مرکز کم کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر راجستھان حکومت یہ شکایت کرچکی ہے کہ مرکز نے سینٹرل ٹیکسیز کی وہ رقم جو واجب الادا تھی، اُس میں سے ۱۰؍ ہزار کروڑ روپے کم کردیئے۔ تمل ناڈو نے ۸؍ ہزار کروڑ روپے اوراُڈیشہ نے ۹؍ ہزار کروڑ روپے کم کئے جانے کی شکایت کی تھی۔ مرکز نے ریاستوں سے وعدہ کیا تھا کہ نئے ٹیکس نظام کے مکمل طور پر نافذ ہونے اور حالات کے معمول پر آجانے تک ریاستوں کو محصولات کا جو خسارہ اُٹھانا پڑے گا اُس کی بھرپائی مرکز کرے گا مگر اس سلسلے میں بھی ریاستی حکومتیں مطمئن نہیں ہیں۔ ستمبر ۲۰۲۱ء تک مرکز کی جانب سے ریاستوں کی ۵۲؍ ہزار کروڑ کی بھرپائی باقی تھی۔ بھرپائی کے باب میں جس کی مدت جون ۲۲ء میں ختم ہورہی ہے، متعدد ریاستیں مثلاً کیرالا، چھتیس گڑھ، دہلی اور مغربی بنگال، مطالبہ کرچکی ہیں کہ اسے مزید پانچ سال کیلئے بڑھایاجائے۔  دراصل کوآپریٹیو فیڈرل ازم کا تعلق مرکز اور ریاستی حکومتوں کے درمیان بہتری کے تال میل سے ہے۔ اگر چہ باہمی تعلقات میں مرکز کو برتری حاصل ہے مگر اس برتری کے ساتھ زیادہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ ریاستوں کو ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ اُن کے پاس آمدنی کے محدود ذرائع ہیں جبکہ مرکز کے ذرائع ِ آمدنی اتنے محدود نہیں ہیں۔ہمارے خیال میں اگر مرکز دوستانہ تعلقات کو ترجیح دے اور ریاستوں کی دشواریوں کو بھی سمجھے تو اس سے بہتر تال میل کے امکانات ازخود پیدا ہوں گے اور فیڈرل ازم یعنی وفاقیت کو تقویت حاصل ہوگی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK