ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ”میرا خیال ہے کہ حماس دراصل کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میرے خیال میں وہ مرنا چاہتے ہیں۔“
EPAPER
Updated: July 26, 2025, 8:02 PM IST | Washington/Tel Aviv
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ”میرا خیال ہے کہ حماس دراصل کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میرے خیال میں وہ مرنا چاہتے ہیں۔“
اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا کہ حماس کے ساتھ ”غزہ جنگ بندی مذاکرات“ تعطل کا شکار ہو گئے ہیں، دونوں لیڈروں نے گروپ پر غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کو مسترد کرنے کا الزام لگایا۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اشارہ دیا کہ اسرائیل اب یرغمالیوں کو آزاد کرانے اور غزہ پٹی میں حماس کے اقتدار کو ختم کرنے کے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ”متبادل راستوں“ پر عمل پیرا ہو سکتا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ”اسرائیل قطر اور مصر کی ثالثی میں ہفتوں کے مذاکرات کے بعد اپنے موقف پر سختی سے جما ہوا ہے۔“ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ”میرا خیال ہے کہ حماس دراصل کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میرے خیال میں وہ مرنا چاہتے ہیں۔ اور بات اس مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں آپ کو کام مکمل کرنا پڑے گا۔“
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ بندی مذاکرات: امریکہ اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بلالئے
جنگ بندی مذاکرات کا خاتمہ
حماس کی جانب سے ایک جنگ بندی تجویز کا جواب جمع کرانے کے چند گھنٹے بعد، اسرائیل اور امریکہ نے جمعرات کو قطر میں جاری مذاکرات سے اپنے وفود کو واپس بلا لیا۔ اس منصوبے کے تحت ۶۰ دن کیلئے لڑائی روکنے، غزہ میں مزید انسانی امداد کی اجازت دینے اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے باقی ۵۰ یرغمالیوں میں سے کچھ کو آزاد کرنے کی تجاویز شامل تھیں۔ اس بات پر اختلافات برقرار ہیں کہ اسرائیلی فوجیوں کو کتنا پیچھے ہٹنا چاہئے اور اگر کوئی مستقل معاہدہ نہیں ہوتا تو ۶۰ دن کی جنگ بندی کے بعد کیا ہو گا۔ نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی، قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بین گویر نے مذاکرات سے اسرائیل کے انخلاء کا خیرمقدم کیا اور حماس کی ”مکمل تباہی“ اور غزہ کیلئے امداد پر مکمل پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ سے فلسطینیوں کو ختم کرکے مکمل یہودی علاقہ بنائیں گے: اسرائیلی وزیر
محصور علاقے میں انسانی بحران مزید سنگین
مذاکرات میں تعطل ایسے وقت میں آیا ہے جب بین الاقوامی امدادی ایجنسیاں غزہ کی تقریباً ۲۲ لاکھ افراد پر مشتمل آبادی میں بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کے بارے میں خبردار کر رہی ہیں۔ اسرائیل کی مہینوں سے جاری ناکہ بندی کی وجہ خوراک اور ضروری سامان ختم ہو رہا ہے۔ غزہ کے صحت حکام نے ۲۴ گھنٹوں میں بھوک سے مزید ۹ اموات کی اطلاع دی جبکہ حالیہ ہفتوں میں درجنوں افراد بھوک کی تاب نہ لا کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
جمعہ کو اسرائیل نے کہا کہ وہ ممالک کو غزہ میں خوراک ہوائی جہاز سے گرانے کی اجازت دے گا۔ حماس نے اس اقدام کو ”پبلسٹی اسٹنٹ“ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور مستقل امداد کی فراہمی کیلئے ایک کھلی زمینی راہداری کا مطالبہ کیا۔ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے سربراہ اسماعیل الثوابتہ نے کہا کہ ”بھوکے شہریوں کو ہوائی نمائش کی ضرورت نہیں؛ انہیں خوراک کے ٹرکوں کی ضرورت ہے۔“
یہ بھی پڑھئے: غزہ کی ۸۵؍ فیصد آبادی ناقص تغذیہ کے ۵؍ ویں اور سب سے خطرناک مرحلہ میں: ماہرین
دریں اثنا، غزہ میں جاری اسرائیلی فضائی حملوں میں جمعہ کو کم از کم ۲۱ افراد ہلاک ہوئے جن میں غزہ شہر میں بے گھر خاندانوں کو پناہ دینے والے ایک اسکول کے ۵ افراد بھی شامل ہیں۔ وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ محصور علاقے میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی اسرائیلی جنگی کارروائیوں میں اب تک تقریبا ۶۰ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔