Inquilab Logo

برادرانِ وطن میں قرآن مجید کا صحیح تعارف پیش کیا جائے

Updated: March 26, 2021, 10:54 AM IST | Mohammed Iqbal Mulla

قرآن مجید کی ۲۶؍ آیات کے سلسلے میں انتہائی گھناؤنے اور جھوٹے الزامات لگا کر، ایک نام نہاد مسلمان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی کہ ان آیات کو، نعوذ باللہ قرآن میں سے نکال دیا جائے۔

Quran - Pic : INN
قرآن شریف ۔ تصویر : آئی این این

قرآن مجید کی ۲۶؍ آیات کے سلسلے میں انتہائی گھناؤنے اور جھوٹے الزامات لگا کر، ایک نام نہاد مسلمان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی کہ ان آیات کو، نعوذ باللہ قرآن میں سے نکال دیا جائے۔
پچھلےچند دنوں سے ملک میں مسلمانوں کے اندر شدید رنج وغم، اضطراب اوربےچینی کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ برہمی کا اظہارپُر امن اور اخلاقی حدود میں احتجاج کے ذریعے ہورہا ہے،جلسے، مذمتی بیانات اور علماء کرام کے بیانات اور انٹرویوز کا سلسلہ جاری ہے۔
ان کوششوں کےساتھ موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کو کرنے کے اصل کا م کی طرف  پوری توجہ کرنی چاہئے۔  ان حالات میں برادران وطن کے اندر قرآن مجید کے بارے میں کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں ۔ قرآن مجید کس طرح کی کتاب ہے؟ کیا واقعی اس میں بعض تعلیمات  اس طرح کی ہیں؟ قرآن مجید کی اصل تعلیم کیا ہے؟  قرآن مجید کی ۲۶؍آیات کے سلسلے میں جو اعترضات کئے جارہے ہیں آخر اس کی حقیقت کیا ہے؟
برادران وطن اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی کتاب ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ غرض یہ کہ  جو سوالات ان کے ذہنوں میں پیدا ہوئے ہیں  وہ جو اب چاہتے ہیں ۔ مسلمانوں کی مذکورہ تمام کوششیں قابل قدر ہیں لیکن برادران وطن کے سوالات کا جواب اس میں نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی سامنے رکھیں کہ اگر سپریم کورٹ اپیل کو خارج کر دیتا  ہے  تب بھی ان سوالات کا جواب  دینا بہت ضروری ہے۔ برادران وطن سب سے زیادہ توحید اور قرآن مجید سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس ملک میں برادران وطن کی بہت بڑی تعداد قرآن مجید کا احترام بھی کرتی ہے۔ اس لئے ذیل میں ایک مختصر سی تمہید کے بعد  ایک پروگرام  دیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ مسلمان اس پروگرام پر غور کرکے  اجتماعی  طور پر عمل درآمدکرینگے۔
قرآن مجید دنیا میں اللہ کی ایک ہی محفوظ کتاب ہدایت ہے۔ دنیا کے ہر انسان کی سب سے بڑی ضرورت اور  زندگی کیلئے خدائی ہدایت اور عظیم الشان رہنمائی ہے۔ آج یہ عظیم اور قیمتی نعمت صرف اور صرف قرآن مجید میں ہے۔اسی لئے قرآن مجید تمام انسانوں کے لئے ہے۔
قرآن مجید کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسائل کا یقینی اور واحد حل ہے۔ یہ کوئی نعرہ یا کوئی دعویٰ نہیں ہے بلکہ  تاریخ کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ آج سے چودہ سو پچاس سال قبل جب قرآن مجید کا نزول ہو رہا تھا تو دنیا میں مذاہب کی کمی نہیں تھی اور مذہبی کتابیں موجود تھیں لیکن ساری دنیا بد امنی اور چھوٹی بڑی جنگوں، ظلم ناانصافی اور تشدد کا شکار تھی۔  ناانصافی، استحصال اور انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی توہین اور تذلیل عام تھی۔ معاشی ظلم و استحصال، فقروفاقہ اور  مرضِ جہالت پوری دنیا میں ایک عام بات تھی ۔ انسان اشرف المخلوقات ہو کر بھی ہر جگہ ذلیل اور  رسوا تھا۔ یہ صورتحال سب سے پہلے عرب میں  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآن کے نزول کے ساتھ تبدیل ہونا شروع ہوئی اور پھر ساری دنیا کے حالات  بدل گئے۔ اس کے بعد جہاں بھی انسانوں تک قرآن مجید کی تعلیمات پہنچتی گئیں، وہاں لوگوں نے قرآن کی تعلیمات کو قبول کیا اور حالات بدلتے  گئے۔اس لئے اس حقیقت کو یاد رکھنا چاہئے کہ آج امن و انسانیت، عدل و انصاف،  معاشی خوشحالی اور  انسانی حقوق کا تحفظ صرف  اورصرف قرآن مجید کی تعلیمات کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔ 
قرآن مجید کی تیسری اہم  خصوصیت  یہ ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد  ابدی زندگی میں نجات حاصل کرنے اور جہنم کی خوفناک آگ سے بچنے  اور اللہ کی رضا و خوشنودی یعنی جنت کو پانے کے سلسلے میں  واضح رہنما ئی اس کتاب میں ہے۔ قرآن مجید میں دلائل کے ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی  کے سلسلے میں پوری رہ نمائی کی گئی ہے۔ قرآن مجید کا شاید ہی کوئی صفحہ آخرت کے تذکرے سے خالی ہوگا۔
آج اس بات کی شدید ضرورت ہے۔ برادرانِ وطن کو قرآن مجید کا صحیح تعارف کرایا جائے اور قرآن مجید کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو صاف کیا جائے ۔ ۲۶؍ آیات ِقرآنی کا پس منظرکیا ہے؟ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور ہدایت کیا  ہے اور یہ کس کے لئے ہے؟ کیوں ہے؟  ان سب باتوں کی وضاحت بہترین طریقے سے ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کی بنیادی تعلیم ِ توحید و رسالت اور آخرت کے بارے میں بھی بتانا چاہئے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی عالمی انسانی قدریں اور  اخلاقی قدریں  اور تعلیمات کیا ہیں؟ اسے لوگوں تک پہنچانے بھی ضروری ہے۔
پروگرام کا عملی خاکہ
ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں میں درج ذیل کاموں کے لئے ایک مہم کے طورپر کوشش کرنے کی ضرورت ہے:
۱) مسلمان مل جل کران پروگراموں کو اس طرح کریں کہ ہر شہر یا گاؤں کےتمام مسلمانوں کی طرف سے شہر کے تمام برادران وطن کے لئے پروگرام بن جائے۔ چنانچہ دعوت نامہ درج ذیل اداروں کی جانب سے جاری کیا جاسکتا ہے: مسجد کمیٹی، مدرسہ کمیٹی، قرآن کمیٹی، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کمیٹی، درگاہ کمیٹی وغیرہ۔
۲) ایک پروگرام قرآن پر یچے کا ہو سکتا ہے جس  میں کسی عالم دین یا دینی تنظیم کے ذمہ دار کی صدارت  میں پروگرام کیا جائے، اس  میں برادران وطن کےمذہبی رہنماؤں کو بھی مختصر اظہار خیال کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ صدارتی تقریر میں قرآن مجید کے پیغام اور تعلیمات کو پیش کرنے کے بعد غلط فہمیاں  دور کرنی چاہئیں۔
۳) ایک ا ہم پروگرام جو مسلسل آنے والے دنوں  میں مسلمانوں کے ذریعے سے ہوسکتا ہے  یہ ہے کہ اہم وطنی شخصیتوں سے ملاقاتیں کر کے ترجمہ قرآن مجید، سیرت  رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے تعارف پر ایک کتاب  بطور تحفہ ان کو دی جائے۔  ملاقاتوں  کے  لئے کئی گروپس بنانا   ضروری ہوگا۔ یہ ملاقاتیں برادران  وطن کے مذہبی رہنما،پولیس تھانوں میں افسران ، عدالتوں میں وکلاء اور جج، تعلیمی اداروں، اسی طرح صحافی ، ادیب و دانشور  اور سیاسی رہنماؤں سے کی جائیں۔
۴) ۲۶؍آیات کے تعارف اور تلخیص کیلئے مختصر درس کا پروگرام بنایا جائے تاکہ برادران وطن کی غلط فہمیاں دور ہوں۔ اس کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کیا جائے۔
۵) سوامی لکشمی شنکر اچاریہ کی دو کتابیں ’’اسلام آتنک یا آدرش؟‘‘  اور ’’قرآن جینے کی کلا‘‘ قرآن مجید کے تعارف میں بہت مفید ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے بھی ریاستی زبانوں میں شائع ہوئے ہیں۔
۶) مقامی اخبارات میں ریاستی زبانوں میں قرآن مجید کی آیات کے ترجمے اور تعارفی مضامین معاوضہ دے کر شائع کرائے جا سکتے ہیں۔
۷) کسی چینل کے  ذمہ ّداروں سےبات کرکے قرآن مجید کی تلاوت اور ترجمہ کا پروگرام بنایا جائے۔ معاوضہ دیا جاسکتا ہے۔ چند سال قبل زی سلام ٹی وی میں روزانہ یہ پروگرام چلایا گیا۔ اس پروگرام کے انچارج نے بتایا کہ یہ ان کا سب سے زیادہ مقبول پروگرام تھا، غیر مسلم بھی اچھی خاصی تعداد میں اسےپسند کرتے تھے۔
۸) ان آیات کی مختصر تشریح پر مشتمل شارٹ ویڈیوز تیارکرکے سوشل میڈیا پر ڈالے جا سکتے ہیں۔
۹) خطبات جمعہ کے ذریعہ مسلمانوں کو متوجہ کیا جائے کہ وہ اپنی زندگی کو قرآنی تعلیمات کا چلتا پھرتا نمونہ بنائیں۔برادران وطن کے ساتھ قرآنی سلوک یعنی نرمی و محبت، اچھے اخلاق اور برتاؤ سے پیش آئیں۔  ان کی خدمت کریں۔ان پر یہ تاثر قائم ہوجائے کہ مسلمان ان کے حقیقی خیر خواہ ہیں۔  ان کے حوالے سے اپنی دعوتی ذمہ داری بلا تاخیر ادا کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK