Inquilab Logo

شورائیت، اسلام کی پیش کردہ اقدار میں نمایاں مقام رکھتی ہے

Updated: May 06, 2022, 3:13 PM IST | Dr. Muhammad Rifat | Mumbai

اسلام کی تعلیم کا تقاضا ہے اور انسانی تجربہ بھی یہ سبق دیتا ہے کہ اجتماعی امور کے فیصلے شورائیت پر مبنی ہوں۔ اس کےکچھ آداب بھی ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا چاہئے

While giving advice, every participant of the meeting should see to it that his suggestions are in accordance with the Qur`an and Sunnah.Picture:INN
مشورہ پیش کرتے ہوئے، ہر شریکِ مجلس کو دیکھنا چاہئے کہ اُس کی تجاویز قرآن و سنت کی پابند ہوں۔ تصویر: آئی این این

اجتماعی معاملات میں اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ فیصلے، مشورے سے کئےجائیں۔ اس ہدایت کا ماخذ سورہ شوریٰ کا یہ فقرہ ہے:
’’یعنی اہلِ ایمان، اپنے کام باہم مشورے سے انجام دیتے ہیں۔‘‘(شوریٰ: ۳۸)شورائیت، اسلام کی پیش کردہ اہم اقدار میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اجتماعی زندگی کے فائدے اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب اسلامی تعلیمات کو ملحوظ رکھا جائے۔ چنانچہ شورائیت کا اہتمام، اجتماعیت کو استحکام بخشنا ہے اور افراد کے باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانا ہے۔ اس کے برعکس، اگر شورائیت کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں تو افراد گھٹن محسوس کرتے ہیں اور اجتماعی فرائض کی انجام دہی مشکل ہوجاتی ہے۔ شورائیت کی قدر کو عملی جامہ پہنانا، اسلام کی تعلیم کا تقاضا ہے اور انسانی تجربہ بھی یہ سبق دیتا ہے کہ اجتماعی امور کے فیصلے شورائیت پر مبنی ہوں اور اسی کے تحت ہوں۔ 
آداب
 شورائیت کے عمل کو مؤثر، مفید اور نتیجہ خیز  بنانے کے لئے، شورائیت کے آداب کی طرف توجہ ضروری ہے۔ ان آداب کو شورائیت کی اخلاقیات سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ شورائیت کے آداب یہ ہیں: اخلاص، رجوع الی اللہ، فکری اساس کی درستگی، تقویٰ، دیانت، تدبر و خوض، شائستگی اور تکریم انسانیت۔ ان اخلاقیات کا شعور نہ ہو، ان کے تقاضے واضح نہ ہوں یا ان کا استحضار نہ ہو تو شورائیت کا عمل، محض ایک رسمی کارروائی بن سکتا ہے اور اُس کے فائدے محدود یا معدوم ہوجاتے ہیں۔ امت ِ مسلمہ کی اصلاح کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اُمت کی اجتماعی زندگی میں شورائیت کی قدر، جلوہ فرما نظر آئے اور اس کے اجتماعی ادارے، شورائیت کا اہتمام کریں۔ ضوابط کے تحت ترتیب دی گئی مجالس ِشوریٰ کی کارروائیوں کے علاوہ اجتماعی فضا میں غیر رسمی مشوروں کی بھی گنجائش ہو اور اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اُمت ِ مسلمہ کی موجودہ کیفیت ہمیں احتساب اور تلافی کی طرف متوجہ کرتی ہے۔
اخلاص
ہر نیک عمل میں اخلاص مطلوب ہے یعنی نیکی، اللہ کی رضا کے حصول کے لئے انجام دی جانی چاہئے۔ جب افراد، کسی اہم معاملے کے سلسلے میں مشورے کے لئے جمع ہوں تو فرداً فرداً اُن سب کو اخلاص کا اہتمام کرنا چاہئے یعنی وہ جو کچھ کہیں وہ اس لئے ہو کہ انہیں اللہ کو راضی کرنا ہے۔ مشورے کے موقع پر جن باتوں کی یاد دہانی کرائی جائے اُن میں اخلاص کی تلقین مناسب ہے۔ فطری طور پر انسان ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ انسانوں کا اجتماع، کسی نہ کسی اجتماعی رجحان یا مزاج کا حامل ہوتا ہے اور افراد کو اس مزاج کے مطابق فکر و عمل اپنانے کی خاموش ترغیب دیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ اجتماعی مزاج ہر صورت میں حق اور راستی کا عکاس ہو۔ اس لئے افراد کی ذمہ داری ہے کہ اللہ سے اپنے تعلق کو تازہ کریں اور تازہ رکھیں تاکہ وہ اجتماعی کیفیت سے بلند ہوکر، حق کو پہچان سکیں۔ عقل کی یہ راست روی اُسی وقت ممکن ہے جب قلب میں صرف اللہ کی رضا جوئی کا جذبہ موجزن ہو اور انسانوں کے ممکن ردِ عمل سے قلب بے نیاز ہو۔ افراد، اخلاص کی اس کیفیت کے حصول کی کوشش کریں تو توقع کی جاسکتی ہے کہ اللہ کی توفیق سے ان کی باہمی مشاورت، صحیح نتیجے تک پہنچے گی۔
رجوع الی اللہ
اخلاص کا تقاضاہے کہ انسان، اللہ کی طرف رجوع کرے اور اس سے صحیح فہم و ادراک اور مؤثر قوتِ اظہار کا طالب ہو۔ اجتماعی امور میں مشوروں کے دائرے میں عموماً وہ تدابیر شامل ہوتی ہیں جو منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سوچی جاتی ہیں۔ اسلامی مزاج یہ ہے کہ ضروری تدابیر سوچنے اور ان پر عمل کرنے کے ساتھ، اہلِ ایمان اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں کہ وہ تدابیر کو نتیجہ خیز، مؤثر اور مفید بنائے۔ تدابیر پر عمل سے قبل، خود سوچنے اور مشورہ کرنے کے مرحلے میں بھی اللہ کی طرف رجوع کا اہتمام ضروری ہے۔ اس کی عملی شکل یہ ہے کہ مشورے کے لئے جمع ہونے والے، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ زیر بحث معاملے میں امرِ حق اُن کو صحیح صحیح نظر آجائے اور وہ تدابیر سوجھ جائیں جو پیشِ نظر مقصد کے لئے مناسب ہوں۔ یہ واقعہ ہے کہ انسان کی عملی مساعی کی طرح اُس کے فکر کی پرواز بھی محدود ہوتی ہے۔ وہ معاملے کے ہر پہلو پر ضروری توجہ نہیں کرپاتا، معلومات کو باہم ترتیب دینے میں کامیاب نہیں ہوتا یا صحیح نتائج اخذ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ مسئلہ واضح بھی ہوجائے تو حل سمجھ میں نہیں آتا۔ فہم و ادراک کی منزلیں طے ہوجائیں تب بھی اظہارِ خیال کیلئے موزوں الفاظ نہیں ملتے۔یہ ساری مشکلات حل کرنے کیلئے اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ جب مخلص افراد، محض اللہ کی رضا کے لئے جمع ہوں اور اپنی کوشش کے ساتھ، اللہ سے دعا بھی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ اُن کی رہنمائی نہ کرے۔’’اور جو لوگ ہمارے لئے جدوجہد کریں گے، ہم ضرور اُن کو اپنی راہیں دکھائیں گے۔ بیشک اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
(العنکبوت:۶۹)
درست فکری اساس
جب لوگ مشورے کے لئے جمع ہوں تو اُن کی رایوں میں اختلاف کا ہونا فطری بات ہے۔ افراد کے ذوق اور مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ زیر  بحث معاملے میں اُن کی معلومات کا یکساں ہونا لازم نہیں اور ہر شخص ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مساوی درجے پر نہیں ہوتا۔ ان اسباب کی بنا پر رائیں مختلف ہوجاتی ہیں۔ اختلاف کے نکات متعین ہوجانے کے بعد شرکائے مشاورت کو رایوں کے اس تنوع سے استفادہ کرتے ہوئے کوشش کرنی چاہئے کہ زیر بحث معاملے کے تمام پہلو اُن کی گرفت میں آجائیں۔ اختلافِ آراء کی افادیت یہی ہے کہ اس کے ذریعے، زیر گفتگو موضوع کے تمام گوشے روشنی میں آجاتے ہیں اور ایسے نتائج اخذ کرنا ممکن ہوجاتا ہے جن میں ہر گوشے کی رعایت کی گئی ہو۔تاہم بحث و گفتگو اور موضوع کے جامع فہم کے حصول کے بعد، تدابیر سوچنے اور ان پر متحد الخیال ہونے کے لئے درست اساس اور کسوٹی کی ضرورت ہے۔ اسلام کے نزدیک، قرآن و سنت یہ کسوٹی فراہم کرتے ہیں۔ مشورہ پیش کرتے ہوئے، ہر شریکِ مجلس کو دیکھنا چاہئے کہ اُس کی تجاویز قرآن و سنت کی پابند ہوں۔ ہر شریکِ مجلس کے علاوہ پوری مجلس کو بھی اس کا اہتمام کرنا چاہئے کہ اُس کے فیصلے، قرآن و سنت کی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ انسانوں نے محض تجربے سے مشورے کا جو سبق سیکھا ہے، وہ مشورے کا ایسا طرز سکھاتا ہے جو الٰہی ہدایت کا پابند نہیں ہوتا۔ ایسے مشورے انسانوں کو تباہی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ اس طرز کے برعکس، اسلام مشورے کے عمل کو اسلامی آداب کا پابند رکھتا ہے اور مشورے کے نتائج کو اسلامی حدود کا تابع بناتا ہے۔
تقویٰ
اُصولاً ہر مسلمان یہ مانتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ قرآن و سنت، منبعِ ہدایت ہیں اور اُمتِ مسلمہ کے فکر و عمل کی اساس ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اصول یاد رہے اور اس اصول کو اختیار کرتے ہوئے، مشورہ کرنے والے اہلِ ایمان ایسے فیصلے کرسکیں جو قرآن و سنت کی تعلیم کے مطابق ہوں۔ مبنی بر ہدایت، فیصلوں تک پہنچنے کے لئے عقلی و عملی تربیت و کاوش کے علاوہ قلب کی تربیت اور احساسِ ذمہ داری بھی درکار ہے۔ ان کیفیات کو تقویٰ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جو اہلِ ایمان، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں، اُن کے بارے میں توقع کی جاسکتی ہے کہ اللہ انہیں بصیرت عطا کرے گا، جو درست فیصلوں کی طرف اُن کی رہنمائی کرے گی۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہیں فرقان (حق و باطل میں فرق کرنے والی کسوٹی) عطا کرے گا اور تمہاری برائیاں تم سے دور کردے گا اور تمہاری مغفرت فرمائے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ (انفال:۲۹)تقویٰ  کا تقاضا یہ بھی ہے کہ مجلسِ مشاورت میں سنجیدگی کے ساتھ شرکت کی جائے اور بلااجازت وہاں سے نہ اٹھا جائے:’’مومن تو بس وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور جب کسی اجتماعی معاملے کے سلسلے میں اُس کے ساتھ ہوتے ہیں تو بلا اجازت، چلے نہیں جاتے۔ جو لوگ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں، وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس جب وہ اپنے کسی کام کے لئے اجازت چاہیں، تو ان میں سے جسے چاہو اجازت دے دیا کرو۔ اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کیا کرو۔ بے شک اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK