آسٹریلیا میں بونڈی بیچ فائرنگ کے واقعے کے بعد اسلامو فوبیا کے واقعات میں نمایاں اضافہ رپورٹ کیا گیا ہے، حالانکہ ابھی تک حملہ آوروں کا مسلم سماج سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا ہے۔
EPAPER
Updated: December 24, 2025, 6:04 PM IST | Canberra
آسٹریلیا میں بونڈی بیچ فائرنگ کے واقعے کے بعد اسلامو فوبیا کے واقعات میں نمایاں اضافہ رپورٹ کیا گیا ہے، حالانکہ ابھی تک حملہ آوروں کا مسلم سماج سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا ہے۔
سڈنی کے بونڈی بیچ پر ہونے والی فائرنگ کے بعد آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ اور ان کے اہل خانہ کو آن لائن پلیٹ فارمز پر اسلاموفوبک تبصروں اور نسل پرستانہ بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بدسلوکی کرنے والے افراد، ان کی اہلیہ اور چھوٹے بچوں کو پرتشدد گالیوں اور نازیبا القابات سے نشانہ بنارہے ہیں۔
عثمان خواجہ کی اہلیہ ریچل خواجہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر موصول ہونے والے پیغامات کے اسکرین شاٹس شیئر کئے۔ ان پیغامات میں ان کی بیٹیوں کو ”مستقبل کے اسکول بلاسٹرز“ کہہ کر پکارا گیا، انہیں ”دہشت گردوں کا خون“ کہا گیا اور خاندان کو ’واپس پاکستان جانے‘ کیلئے کہا گیا ہے۔ واضح رہے کہ عثمان خواجہ پاکستانی نژاد مسلمان ہیں۔ انہوں نے بچپن میں آسٹریلیا ہجرت کی تھی۔
ریچل خواجہ نے کہا کہ یہ نفرت ان کیلئے نئی نہیں ہے لیکن بونڈی فائرنگ واقعہ کے بعد اس میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے لکھا، ”کاش میں یہ کہہ سکتی کہ یہ سب نیا ہے، لیکن افسوس کہ ہمیں ہمیشہ سے اس طرح کے پیغامات ملتے رہے ہیں۔ اب پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم اکٹھے اور متحد رہیں۔ چاہے وہ یہود دشمنی ہو، اسلامو فوبیا ہو یا نسل پرستی، ہمیں کسی بھی صورت میں اسے قبول نہیں کرنا چاہئے۔“
عثمان خواجہ نے ان بدسلوکی کے واقعات کا براہ راست جواب نہیں دیا۔ تاہم، انہوں نے بونڈی بیچ حملے کی عوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے یہودی برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے اس تشدد کو ”انتہائی تباہ کن“ قرار دیا تھا اور متاثرین کے لواحقین سے تعزیت کی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل پر۷؍ اکتوبر کے حملے کے بعد نیتن یاہو کی پہلی فکرخود کو جوابدہی سے بچانے کی تھی
واضح رہے کہ آسٹریلیا میں بونڈی بیچ فائرنگ کے واقعے کے بعد اسلامو فوبیا کے واقعات میں نمایاں اضافہ رپورٹ کیا گیا ہے، حالانکہ ابھی تک حملہ آوروں کا مسلم سماج سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا ہے۔ عثمان خواجہ کو اس سے قبل فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی حمایت پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کے بارے میں ان کا موقف رہا ہے کہ یہ یہود دشمنی نہیں بلکہ اسرائیلی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی مخالفت پر مبنی ہے۔