Inquilab Logo Happiest Places to Work

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

Updated: August 14, 2020, 10:02 AM IST | Mudassir Ahmed Qasmi

اسلامی تعلیمات سے یہ بات واضح ہے کہ جب بھی ،جہاں بھی اور جس کو بھی ہمارے تعاون کی ضرورت ہو ہم بڑھ چڑھ کر تعاون پیش کریں ۔

Mosque - Pic : INN
مسجد ۔ تصویر : آئی این این

دو سروں کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ انسانی جبلت میں شامل ہے۔ چنانچہ فطرت کے اسی تقاضے کے مطابق ایک ماں نو مہینے تک اپنے بچے کو کوکھ میں پالتی ہے،ڈاکٹر اپنی پریشانیوں کو نظر انداز کرکے مریضوں کا علاج کرتا ہے، استاد اپنی راحت کو چھوڑ کر شاگرد کو لائق و قابل بناتا ہے اور پولیس مشکل وقت میں عوام کے لئے شب بیداری کرتی ہے۔ یہ دوسروں کے لئے کچھ کر گزرنے بالفاظ ِ دیگر انسانیت کے لئے قربانی دینے کی چند مثالیں ہیں۔ یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اپنے لئے جینے کے آسان اور پُر لطف راستے کو چھوڑ کر لوگ دوسروں کے لئے جینے کے مشکل اور پُرخطر راستے کو کیوں اپنا تے ہیں؟ اس کا انتہائی آسان اور سادا جواب یہ ہے کہ لامحدود خوشی اور انسانیت کیلئے عظیم کامیابیاں دوسروں لئے قربانی کے اسی بے لوث جذبے سے ملتی ہیں نہ کہ خود غرضی سے۔ 
دوسروں کے لئے ہماری قربانیاں کبھی چھوٹی اور کبھی بڑی ہو سکتی ہیں اور مال،صحت ووقت کے اعتبار سے اس کی شکلیں بھی مختلف ہوسکتی ہیں؛ بہرصورت ہماری قربانی انسانیت کیلئے ہمارے  تعاون کا ایک اہم حصہ ہے اور اِس تعاون سے صرف ہمیں ہی قلبی اطمینان نہیں ہوتا ہے بلکہ جس کے لئے ہم نے کچھ کیا ہے اس کو بھی یقینی فائدہ پہنچتا ہے گویا کہ یہ دُہرے فائدے کی کلید ہے؛ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کے لئے جذبہ قربانی سے معمور شخص اپنا قیمتی اثاثہ مال،وقت اور صحت خرچ کرکے بھی افسوس کی وادی میں نہیں پھرتا بلکہ خوشی کے دوش پر ہمیشہ سوار رہتا ہے۔ 
مذکورہ بالا تمہید کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے مطالعے سے ہم پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام میں دوسروں کے تعاون پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے۔ مزید برآں اسلام نے انسانیت کے لئے کام کرنے کی ترغیب دینے اور جذبہ قربانی کو پروان چڑھانے کے لئے دونوں جہان میںانعامات کا وعدہ کیا ہے؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے۔‘‘ (سورہ سبا :۳۹)
 اسی طرح ایک حدیث میں انتہائی خوش اسلوبی سے دوسروں کے لئے قربانی دینے کے بیش بہا فوائد بتلائے گئے ہیں۔ نبی اکرم  ﷺ  کا ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی پریشانیاں دور کرے گا اور جو کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے گا اللہ اس کیلئے دنیا و آخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا اور اللہ بندے کی اس وقت تک مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔‘‘ (مسلم)
اسلام کی یہ خوبصورتی ہے کہ کسی خاص عمل کی طرف راغب کر نے کے لئے صرف اس کا فائدہ نہیں بتلاتا بلکہ اُس عمل کو آسان بنانے کے لئے رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کے طریقے سکھلاتا ہے چنانچہ یہ ظاہر ہے کہ دوسروں کے لئے کچھ کر گزرنے کے لئے سب سے پہلے خود غرضی کے خول سے با ہر آنا ہوتاہے، ملاحظہ فرمائیں کہ کس خوش اسلوبی سے ذیل کی حدیث میں خود غرضی کے خول سے باہر آنے کی تعلیم دی گئی ہے:نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ’’ تم میں سے کوئی شخص (کامل) مومن نہیں ہوسکتا،جب تک کہ اپنے بھائی کیلئے وہی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔‘‘ (بخاری) اس حدیث کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ کا دوسروں کے لئے کچھ کرنے یا دینے کا عمل اسی وقت مقبول اور محبوب ہے جب کہ آپ اپنی پسندیدہ چیز کو دوسروں پر نچھاور کرتے ہیں بصورتِ دیگر آپ کا عمل ناپسندیدہ اور ایک اعتبار سے انسانیت کی توہین ہے۔ 
اسلامی تعلیمات سے یہ بات واضح ہے کہ جب بھی، جہاں بھی اور جس کو بھی ہمارے تعاون کی ضرورت ہو ہم بڑھ چڑھ کر تعاون پیش کریں ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔‘‘ (ترمذی) اس تعلیم کے حوالے سے جب ہم اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں تو بسا اوقات بڑا افسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص بسترِ مرگ پر پڑا  ہوا ہے اور اسے خون کی سخت ضرورت ہے لیکن اس کے اہلِ خانہ اس ضرورت کو پورا نہیں کر پا رہے ہیں تو اِس صورتِ حال میں ہم میں سے کتنے افراد ہیں جو آگے بڑھ کر خون کا عطیہ پیش کرتے ہیں؟ یقیناً کچھ لوگ ضرور آگے آتے ہیں جو لائق صد تحسین ہیں لیکن اکثر لوگ ایسے موقع سے دامن جھاڑ لیتے ہیں اور ہمیں اپنی صحت کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے۔ غور فرمائیںکہ ایسے مواقع پر ہماری صحت زیادہ اہم ہے یا کسی کی زندگی!
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب ہم کسی کے لئے کچھ کریں تو اُس سے بدلے کی توقع نہ رکھیں یعنی ہم بے لوث ہو کر دست ِ تعاون دراز کریں؛کیونکہ اگر ہم بدلے کی توقع رکھتے ہیں تو یہ حقیقی قربانی اور تعاون نہیں بلکہ یہ ایک قسم کی سودے بازی اور خود غرضی ہے۔جہاں تک بے لوث خدمت اور تعاون کے فائدہ کا سوال ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا حصہ دونوں جہانوں کے رب اللہ رب العزت کے پاس محفوظ ہے،جس کا نفع اس دنیا میں بھی ہمیں مختلف شکلوں میں ملے گا اور آخرت کا بدلہ تو تصور سے بھی بالاتر ہے۔
یاد رکھئے! دوسروں کے لئے کچھ کرنے کے واسطے بہت مالدار،فارغ البال اور تنو مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کے پاس جس قدر مالیت، طاقت اور صحت ہے اسی کو بروئے کار لائیں، اس طرح آپ اپنے حصے کی ذمہ داری بھی ادا کر لیں گے اور آپ کا قطرہ دوسروں کے قطروں سے مل کر خدمتِ خلق کا عظیم سمندر بن جائے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK