Inquilab Logo

گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا کرکٹ

Updated: August 04, 2020, 10:35 AM IST | Hasan Kamal

اب ہار جیت کھیل کا حصہ نہیں ، کھلاڑیوں کے بازار بھائو گرنے چڑھنے کا حصہ بن گیا ہے ، جس کے سبب ٹیم اسپرٹ کے بجائے انفرادی خود غرضی، خود نمائی اور خود فروختگی در آئی ہے ۔ہر بھجن سنگھ کا شری سنت کو الٹے ہاتھ کا طمانچہ مارنا اس کی مثال ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ ہر بھجن اور شری سنت سنگھ کا واقعہ کسی نہ کسی صورت میں دوہرایا ہی جاتا رہے گا۔

Harbhajan and Sreeshant - Pic : INN
ہربھجن اور سری شانت ۔ تصویر : آئی این این

ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے قدرے زباں دراز اور بد تمیز ، لیکن مقبول گیند باز شری سنت  میدان میں ایک کھلاڑی سے بدکلامی کریں ، وہ بھی ایک پاکستانی کھلاڑی سے اور سارے ہندوستانی تماش بین ’’شری سنت ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگائیں اور اس وقت تک لگاتے رہیں ، جب تک میچ ختم نہ ہو جائے۔ کیا  اس پر یقین آتا ہے؟ نہیں نا! لیکن یہ سب ہوا ہے اور جے پور میں ہوا ہے  جو راجستھان کی راجدھانی ہے ۔،راجستھان ، جہاں بی ،جے ، پی کی سرکار ہے ۔ کیا یقین آتا ہے کہ شری سنت ایک میچ جیتنے کے بعد ہر بھجن کو چڑائیں اور ہربھجن سنگھ ان کے منہ  پر زناٹے کا تھپڑ رسید کریں اور شری سنت سنگھ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں؟ کرکٹ کی شکل اتنی بدل جائے گی کل تک یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ، لیکن شکل بدل چکی ہے اور اتنی بدل چکی ہے کہ اب اس کا اپنی اصلی  شکل پر لوٹنا محال ہے۔  ’’شریف انسانوں‘‘ کا یہ کھیل پہلے صرف  طلباء اور اُن بزرگوں کی دلچسپی کا مرکز ہوا کرتا تھا ، جو اپنی طالبعلمی کے زمانے میں کرکٹ کھیل چکے تھے ۔ ایک زما نے میں لڑکیوں کو اس کھیل سے خدا واسطے کا بیر ہوا کرتا تھا ۔ لیکن آج لڑکیاں تو لڑکیاں سن رسیدہ خواتین خانہ بھی میچ ہورہا ہو تو چولھے ہانڈی کو بھول جاتی ہیں ۔ کرکٹ کے کھیل نے کئی مراحل پار کئے ۔ پہلے یہ  پانچ روزہ ٹیسٹ میچ کا گیم تھا ۔  پھر وَن ڈے میچوں کا سلسلہ شروع ہوا اور کھیل صرف ایک دن میں سمٹ کر رہ گیا ۔ اور اب ٹوینٹی ٹوینٹی میچوں نے اسے صرف چند گھنٹوں کا معاملہ بنا دیا ۔ ڈے اینڈ نائٹ میچوں نے اس کی رونق اور بڑھا دی۔ سنیما ہائوس خالی دکھائی دینے لگے اور فلم ساز یہ کوشش کرنے لگے کہ انکی فلمیں اس عرصہ میں نمائش کے لئے نہ پیش کی جائیں جب وَن ڈے میچ چل رہے ہوں ۔ کرکٹ رفتہ رفتہ شوق سے جنون میں بدلنے لگا اور پھر سیاست دانوں کو خیال آیا کہ اسے سیاست کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے وطن دوستی کو آڑ بنا کر پچیں کھودنا شروع کر دیں تاکہ ’’دشمن ملک ‘‘ کی ٹیم انکی  جنم بھومی پر قدم رکھ کر اسے ناپاک نہ کر سکے ۔ اس بات پر فرقہ وارانہ فسادات ہونے لگے کہ فلاں شہر یا فلاں محلے میں فلاں فرقہ کے لوگوں نے فلاں ٹیم کی جیت پر یا فلاں ٹیم کی ہار پر پٹاخے چھوڑے تھے ۔ پھر ایک نیا نعرہ سنائی دیا ’’کرکٹ ہمارا دھرم ہے ، سچن ہمارا بھگوان ہے‘‘۔ پھر اس میں سٹّہ اور جوا شامل ہو گیا ۔ میچ فکسنگ ایک لعنت بن گئی اور کئی معروف کھلاڑی اس کی چوکھٹ پر بلی بھی چڑھائے گئے۔
   لیکن انڈین پریمیئر لیگ(’آئی پی ایل ) نے کایا ہی پلٹ  دی۔کرکٹ اربوں روپوں کا دھندا بن گیا ۔ اداکار اور صنعت کار تھیلے بھر بھر کر میدان میں کود پڑے ۔ اور آج یہ جنون اپنے عروج پر ہے ۔ میچ کے دوران میدان میں ترنگا لے کر ایک چھور سے دوسرے چھور تک بھاگتے اور ’’گنپتی بپّا موریا‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے نوجوانوں کے جھنڈ کی جگہ ’’سازو دف و چنگ پر رقص کناں مہوشاں‘‘ اور میدان میں اچھلتے ہوئے شاہ رخ خانوں اور پریتی زینٹا ئوں نے لے لی ۔ سنا ہے کہ کچھ لوگوں  نے  ، ان مہوشوں کے تھرکنے پر سخت اعتراض کیا ہے اور اس عریانیت کو ’’بھارت کی سبھیتا اور سنسکرتی‘‘ کے خلاف قرار دیا ہے ۔ بڑی خوشی ہوئی یہ سن کر ، لیکن میرے بھائی کہاں کہاں روکوگے اس عریانیت کو؟ ٹی، وی   پر ، سنیما کے پردے پر ، سڑکوں اور شاہراہوں پر یہ عریانیت آج کہاں نظر نہیں آتی؟، ہندوستانیوں کے ایک طبقہ نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کسی اور چیز میں مغربی ممالک کو مات دے سکیں، نہ دے سکیں، عریانیت میں تو مغرب کو چھٹی کا دودھ یاد دلا کر چھوڑیں گے ۔ آئی پی ایل کے طفیل کھلاڑیوں کی بولیاں لگنے لگیں ،ایک ایک کرکٹر کروڑوں میں بکا۔ نیلام میں کھلاڑیوں کو کھڑا کرکے تو بولیاں نہیں لگائی گئیں ، (لگائی جاتیں تو شاید شائقین کو اور بھی مزا آتا)لیکن دنیا بھر کے کھلاڑیوں کی  عدم موجودگی میں بولیاں لگائی گئیں اور ہر بکنے والا اپنے نیلام پر خوش و خرم نظر آیا ۔ ویسے غلاموں کی نیلامی کا چلن کب کا ختم ہو چکا ہے ۔ کرکٹ اب وطن دوستی کی علامت بھی نہیں رہ گیا  ۔ لوگ کنفیوژن کا شکار  ہیں ۔ انکی سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر ایک ہندوستانی بولر کی گیند پر دوسرا ہندوستانی چھکا مارے تو داد دی جائے یا افسوس کیا جائے ۔ کرکٹ میں اپنے ملک کی ٹیم کا حوصلہ بڑھانا خاص تفریح تھا۔ اب ایک ہی ٹیم میں ملکی اور غیر ملکی سارے کھلاڑی موجود ہیں کس سے پیار کیا جائے اور کس کی ہوٹنگ کی جائے ۔ 
    ان میچوں کا عوامی سطح پر زبردست استقبال ہوا ہے ۔ اس کا ثبوت   میدان کے باہر ’’ہائوس فُل‘‘ کا بورڈ بھی ہے اور میچ کے دوران دکھائے جانے والے اشتہارات کی بھر مار بھی۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کے ناقد نہیں ہیں ۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کھیل میں پیسہ شامل ہو جائے تو بہت اچھی بات ہے ، اس سے ہمارے بچوں اور نوجوانوں کی کھیل کی طرف رغبت بھی بڑھے گی اور جو بچے پڑھنے لکھنے میں بہت تیز نہیں ہیں ، ان کے سامنے ایک متبادل راستہ بھی بن جائے گا۔ لیکن کھیل پیسے کا ہو جائے تو اس سے کئی خرابیاں بھی جنم لے سکتی ہیں ۔ اس سے کھیل کی روح مرجھا جائے گی ۔ اسی طرح ان میچوں کے مثبت اور منفی ہونے میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے ۔ جہاں تک مثبت پہلو کا سوال ہے ، پہلامثبت پہلو یہ ہے کہ کرکٹ کے ساتھ جو عصبیت اور فرقہ واریت وابستہ ہو گئی تھی ، ایک ہی ٹیم میں ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کی موجودگی نے اسے یکسر ختم کر دیا ہے ۔ دوسرایہ ہے کہ قومی ٹیم میں زیادہ سے زیادہ ۱۶ کھلاڑی ہی لئے جا سکتے تھے ، جس کے سبب کئی مستحق کھلاڑی یا تو دل مسوس کر رہ جاتے تھے  لیکن اب کئی ٹیمیں بن جانے سے بہت سے کھلاڑیوں کو موقع مل سکتا ہے ۔ منفی پہلو یہ ہے کہ اب ہار جیت کھیل کا حصہ نہیں ، کھلاڑیوں کے بازار بھائو گرنے چڑھنے کا حصہ بن گیا ہے ، جس کے سبب ٹیم اسپرٹ کے بجائے انفرادی خود غرضی، خود نمائی اور خود فروختگی در آئی ہے ۔ہر بھجن سنگھ کا شری سنت کو الٹے ہاتھ کا طمانچہ مارنا اس کی مثال ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ ہر بھجن اور شری سنت سنگھ کا واقعہ کسی نہ کسی صورت میں دوہرایا ہی جاتا رہے گا۔ دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ اس بار تو شاہ رخ خان ، پریتی زینٹا اور دوسرے اداکاروں کی موجودگی نے لوگوں کی دلچسپی بھی بڑھا دی ہے اور خرید و فروخت کی قوت بھی ۔ لیکن اگر کل اگر یہ اداکار نہ ہوئے یا انکی اپنی مقبولیت میں کمی آگئی ، کیا تب بھی عوام کی دلچسپی اور خرید اروں کی قوت یونہی برقرار رہے گی؟ تیسرا منفی پہلو یہ ہے کہ کرکٹ کے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کے سبب دوسرے کھیل خصوصاََہاکی ، فٹ بال اور اولمپک میں شامل میدانی کھیل بری طرح نظر انداز ہو رہے ہیں اور اسے کسی بھی حال میں اچھا نہیں کہا جا سکتا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK