Inquilab Logo

موجود ہ حالات مسلمانوں اورمسلم قائدین کیلئے لمحۂ فکریہ

Updated: October 22, 2020, 9:54 AM IST | Khalid Shaikh

آج ملک جن حالات سے گزررہا ہے اسے دیکھتے ہوئے مسلم مسائل میں انصاف کی توقع عبث ہوگی۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی لیڈر آپ کو چین سے جینے نہیں دیں گے۔

Babri Masjid - Pic : INN
بابری مسجد ۔ تصویر : آئی این این

 مودی ایک شاطر سیاستداں اور اچھے مقرر ہی نہیں غضب کے اداکاربھی ہیں خود کو مظلوم ظاہر کرنے کیلئے اپنی غریبی کا رونا رونے اور غریبوں کا ہمدرد اور مسیحا ظاہر کرنے میں انہیں کوئی عار نہیں ہوتا۔  ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ۱۸؍ گھنٹے کام کرتے ہیں۔کرنا بھی چاہئے کیونکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم ہیں۔  حیرت اس پر ہے کہ گزشتہ ۶؍ برسوںمیں انہوںنے چنندہ گودی میڈیا والوں کو ہی انٹرویو دیا۔ پریس کانفرنس سے انہیں الرجی ہے لیکن ایک فلم ایکٹر اکشے کمار کو انٹرویو دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ مزید حیرت یہ کہ انہوںنے وراٹ کوہلی سے فٹنس کا گُر جاننے کیلئے خود انٹرویولیا۔ غالباً و ہ ہندوستان کو فِٹ دیکھنا چاہتے ہیں، سُوَچّھ دیکھنا چاہتے ہیں جو اچھی بات ہے ۔ ’من کی بات‘ میں بھی وہ اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں لیکن اب اس کا جادو اترتا نظرآرہا ہے ۔ گزشتہ’ من کی بات‘ کو ’ڈسلائک‘ کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ یہ ایک اشاریہ ہے کہ ہرچیز کی زیادتی مزاج پر گراں گزرنے لگتی ہے۔ عوام کو بھاشن کی نہیں راشن کی ضرورت ہے وہ اپنے پردھان سیوک سے ملک کو لاحق سنگین مسائل کے بارے میں سننا چاہتے ہیں جن پر مودی بھولے سے زبان نہیں کھولتے۔ کووڈ۔۱۹؍ کو انہوںنے رام بھروسے چھوڑ دیا ہے ۔ بیروزگاری ، مہنگائی ، غربت ، بھکمری اور معاشی ابتری کا کوئی حل ان کے پاس نظر نہیں آتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ایک فلم ایکٹر کو انٹرویو دینے اور کرکٹر سے انٹرویو لینے کا ان کے پاس وقت ہوتا ہے لیکن ہاتھرس میں ایک دلت دوشیزہ کے ساتھ ہونے والی درندگی جس پر پورا ملک کراہ اٹھتا ہے، ان کی زبان سے متوفّیہ کے خاندان کے لئے ہمدردی کا ایک لفظ نہیں نکلتا ۔
  دراصل ہندوستان میں دلتوں اور مسلمانوں کا پرسان حال کوئی نہیں۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں انہیں ووٹ بینک کی طرح استعمال کرتی ہیں اور ہندوتوا معاملے میں بی جے پی کی ’’بی ٹیم ‘‘بن گئی ہیں۔ بی جے پی لیڈروں کو دلتوں اور پچھڑی جاتیوں کے ہندو ہونے کا خیال الیکشن کے موقع پر آتا ہے۔ بقیہ دنوں میں وہ ان کے لئے اچھوت رہتے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو سنگھ پریوار اور بی جے پی لیڈروں کو ان سے بغض للہی ہے۔ صدیوں پر محیط ہندوستان کا اسلامی دور ان کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ اسلامی آثار و تاریخی یادگاروں کو وہ غلامی کی میراث سمجھتے ہیں اس لئے انہیں مٹانا چاہتے ہیں یا ہندوانا چاہتے ہیں۔ عدلیہ کی مدد سے حکومت نے پہلے ہی بابری مسجد کی زمین ہتھیالی ۔ اس کے بعد مسجد مسماری کے ملزمین کو کلین چٹ دلادی۔ دونوں ہی فیصلے اکثریت نواز ی کی بدترین مثال اور جمہوریت ، سیکولرزم اور آئینی اقدار پر بدنما داغ ہیں۔   سپریم کورٹ نے البتہ رعایت برتی کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں تعمیر کی گئی اور اس کی مسماری غیر قانونی اور مجرمانہ سازش کا  نتیجہ تھی۔ لیکن سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے ساری حدیں پھلانگ دیں۔ عدالت نے مسماری کو منصوبہ بند سازش ماننے سے انکار کردیا، اسے نامعلوم غیر سماجی عناصر کی برہمی کا نتیجہ قرار دیا اور ناکافی ثبوت کی بنا پر تمام ملزمین کو کلین چٹ دیدی ۔ ستم بالائے ستم عدالت نے یہ کہا کہ ملزمین کارسیوکوں کو مسجد بچانے کی نصیحت کررہے تھے۔ کورٹ میں مسجد مسماری کے ثبوت کے طورپر ۱۰۰؍ آڈیوٹیپس پیش کئے گئے، مقدمے میں ۳۵۱؍ افراد نے گواہی دی اور ۸۰۰؍ سے زائد دستاویزی ثبوت مہیا کئے گئے۔ ان سب کو عدالت نے خارج کردیا۔ ہم عدالت کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے ۔ زمینی ملکیت ہندوؤں کے حوالے کرنے کے بعد یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔دیکھا جائے تو کیس کو کمزور بنانے میں سی بی آئی نے عدالت کے سامنے خاطر خواہ ثبوت پیش نہیں کئے اور ثابت کردیا کہ سپریم کورٹ کی اصطلاح میں وہ ’پنجرے میں بند طوطے ‘ کی طرح ہےجو صرف اپنے آقا کی بولی سمجھتا اور بولتا ہے۔
  آج ملک جن حالات سے گزررہا ہے اسے دیکھتے ہوئے مسلم مسائل میں انصاف کی توقع عبث ہوگی۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی لیڈر آپ کو چین سے جینے نہیں دیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دلت اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف بیداری کا ثبوت تو دے جاتے ہیں لیکن مسلمانوں اور ان کے قائدین میں اس کی رمق پائی نہیں جاتی ۔
 خبر یہ بھی ہے کہ متھرا کی ایک مقامی عدالت نے اُس پٹیشن کو سماعت کے لئے منظور کرلیا۔ جس میں سری کرشن جنم بھومی سے متصل شاہی عید گاہ ہٹانے کی درخواست کی گئی ہے اوراس سلسلے میں مسجد کمیٹی، یوپی سنی وقف بورڈ سمیت چار فریقین کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اگلی سماعت ۱۸؍ نومبر کو ہوگی۔ اس طرح کی ایک پٹیشن اکتوبر کے اوائل میں متھرا کے ایک سِول  کورٹ میں داخل کی گئی تھی جسے ۱۹۹۱ء کے عبادتگاہ قانون کے تحت رد کردیا گیا تھا۔ تازہ پٹیشن داخل کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ شاہی عید گاہ سترہویں صدی میں کرشن جنم بھومی پر بنائی گئی ۔ سپریم کورٹ کی طرف سے مسجد ۔ مندر اراضی ملکیت کے فیصلے کے بعدمشہور منادر سے ملحق مساجد کو ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ جس میں متھرا کی شاہی عیدگاہ اور کاشی وشوناتھ کے قریب بنی مساجد سرفہرست ہیں۔ بات اس پر ختم نہیں ہوتی ۔ بی جے پی لیڈر چھوٹے بڑے وقفے سے شہریت قانون اور این آر سی کا موضوع بھی اٹھاتے رہتے ہیں۔ حالات کیا رخ اختیارکریں گے، کہا نہیں جاسکتا؟
 مودی نے وزیراعظم بننے کیلئے اور بننے کے بعد جتنے وعدے کئے ان پر کھرے نہیں اترے لیکن انہوںنے ملک کو آر ایس ایس کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ضرور گامزن کردیا ہے اور فرقہ وارانہ ماحول کو اس قد ر مسموم کردیا کہ اس سے چھٹکارا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ بی جے پی حکومتیں، ان کا آئی ٹی سیل اور ہندو توا وادیوں کا سوشل میڈیا بریگیڈ ہر معاملے کو کھینچ تان کرہندو مسلم اینگل تلاش کرتا ہے جس میں گودی میڈیا اس کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔ ہاتھرس جیسے معاملے میں ۴؍ صحافیوں کی گرفتاری میں یوپی کے وزیراعلیٰ کو پاپولرفرنٹ آف انڈیا کا ہاتھ نظر آتا ہے وہ اسے بین الاقوامی سازش قراردیتے ہیں جس کا مقصد یوپی حکومت کو بدنام کرنا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ آدتیہ ناتھ اتنے بڑے لیڈر کب سے ہوگئے کہ ان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر سازش ہونے لگی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK