Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈاروِن کی تھیوری: انسان اور بندر

Updated: July 28, 2025, 3:53 PM IST | Waqar Qadri | Mumbai

 ایک شخص جنگل سے گزر رہا تھا۔ رات ہوگئی، سوچا کیوں نہ یہیں رات گزاری جائے۔ ایک اونچے سے درخت کا انتخاب کرکے، مچان بناکر اس نے رات بسر کرنے کی ٹھان لی۔ اسی درخت پر ایک بندر بھی تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ایک شخص جنگل سے گزر رہا تھا۔ رات ہوگئی، سوچا کیوں نہ یہیں رات گزاری جائے۔ ایک اونچے سے درخت کا انتخاب کرکے، مچان بناکر اس نے رات بسر کرنے کی ٹھان لی۔ اسی درخت پر ایک بندر بھی تھا۔ وہ بھی اس جانب آنکلا تھا. اس نے بھی صبح جانے کی ٹھان لی تھی۔ دونوں میں یہ طے پایا کہ آدھی رات تک بندر اور پھر انسان پہرا دے گا۔
 انسان سوگیا، بندر پہرا دیتا رہا۔ درمیان میں شیر آیا،اس نے بندر کی بڑی منت سماجت کی کہ وہ انسان ہے تو کیوں اس سے رشتہ جوڑے ہوئے ہے؟ اسے دھکا دے دے، تیرا میرا ساتھ تو جنگل کا ساتھ ہے۔بندر نے کہا: اس نے مجھ پر اعتبار کیا ہوا ہے۔ ایسا کرنے سے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔مجھ سے تم یہ امید نہ رکھو اور چلے جائو۔شیر ناامید ہوکر چلا گیا۔
 جب انسان کی پہرا دینے کی باری آئی تو شیر پھر چلا آیا اور انسان سے کہا : تیرا بندر سے کیا تعلق؟ تو تو اشرف المخلوقات کہلاتا ہے، میری روزی روٹی تو یہی جنگلی جانور ہیں۔ انسان شیر کی باتوں میں آکر بندر کو دھکا دینے گیا۔ بندر جھٹ سے اٹھ گیا اورسنبھل کر بول اٹھا : میں سویا نہیں تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ تو انسان ہے اور ضرور اپنی والی پر اتر آئے گا۔ اب تو بتا تیرا کیا کِیا جائے؟ میں تجھے دھکا دے کر شیر کے منہ کا نوالہ بنا دوں؟انسان نے بندر کی بڑی منت سماجت کی اپنے اجداد کے بندر ہونے کا واسطہ دیا۔ بندر آخر بندر تھا مان گیا یعنی اسے معاف کردیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ اب تو کسی سے یہ نہیں کہے گا کہ انسان پہلے بندر تھا۔(ایک لوک کتھا پر مبنی)n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK