Inquilab Logo

دین کی دعوت اور ذرائع ابلاغ کا کردار

Updated: December 02, 2022, 12:22 PM IST | Dr. Asi Khurram JahaNagiri | Mumbai

اپنے عہد کے ذرائع ابلاغ سے فائدہ اُٹھانا صرف مصلحت کا تقاضا نہیں ، بلکہ اسلامی تعلیمات اور حضورؐکے اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے

As Islam has become a comprehensive religion for the living world, therefore, there are rules and laws regarding the mass media; picture; INN
اسلام چوں کہ رہتی دنیا تک لئے ایک جامع دین بن کر آیا ہے، اس لئے اس میں ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بھی ضابطہ اور قانون موجود ہے؛تصویر؛ آئی این این

ذرائع ابلاغ سے مراد وہ تمام ذرائع ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ اردو میں ذرائع ابلاغ اور انگریزی میں اسے میڈیا کہتے ہیں۔’’ابلاغ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی پہنچانا ہے۔ اسلامی روایت میں اسی مادہ سے لفظ ’’تبلیغ‘‘ ہے، جو کسی اچھی بات اور بالخصوص دینی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن نے ’’ابلاغ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے، جو ’’ابلاغ‘‘ یعنی پیغام پہنچا دینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
ارشادِ ربّانی ہے:’’ اے پیغمبر ﷺ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ لوگوں تک پہنچا دو۔‘‘ (سورۃالمائدہ)۔ فرمایا گیا: ’’آپﷺ دعوت دیجئے، اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ۔‘‘ (سورۂ نحل) سورۂ آل عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کےلیے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘
دین اسلام پوری دنیا اور تمام نوع انسانی کے لئے ہے، اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق و مالک ہے اور اس کائنات کا ذرہ ذرہ ایک ذات کی گواہی دیتا ہے۔ اس دین کو جو بھی شخص قبول کرتا ہے اس کے ذمہ اس پیغام حق کا دوسروں تک  پہنچانا  واجب ہے۔ اسلام چوں کہ رہتی دنیا تک لئے ایک جامع دین بن کر آیا ہے، اس لئے اس میں ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بھی ضابطہ اور قانون موجود ہے۔
اسلام کے جس آفاقی پیغام کے ابلاغ و ترسیل کا امت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے، کیا اس کی وسیع اور عالمی پیمانے پر دعوت اور اشاعت، سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کے سہارے کے بغیر ممکن ہے؟  نت نئی ایجادات،  روزمرہ کا معمول بن گیا ہے جس کے نتیجے میں زندگی کے تمام شعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کو ہر امیرغریب کے گھر پہنچا دیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ جب  نبوت سے سرفراز فرمائے گئے تو آپ ﷺنے اس کے اعلان اور ایمان کی دعوتِ عام کرنےکے لئے خاص طور پر صفا کی چوٹی کا انتخاب فرمایا۔ یہ محض کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ، بلکہ اہل مکہ کا طریقہ تھا کہ جب بھی کسی اہم بات کی خبر دینی ہوتی، صفا کی چوٹیوں پر چڑھ کر آواز لگاتے، یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی کہ کوئی اہم بات پیش آئی ہے ، جس سے لوگوں کو باخبر کرنا مقصود ہے ، اس لئے تمام اہل مکہ اہتمام کے ساتھ جمع ہوجاتے اور گوش برآواز ہوکر اس اعلان کو سنتے۔ گویا یہ اس زمانے میں مکہ کا سب سے بڑا ذریعۂ ابلاغ تھا، جس طرح آج کسی خبر کو پہنچانے کے لئے ذرائع ابلاغ کا سہارا لیا جاتا ہے،  اسی طرح اس دور میں صفا کی پہاڑی سے اعلان کئے جاتے تھے۔
سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺحج کے موقع پر بھی دعوتِ اسلام دیا کرتے تھے، حالاںکہ اس زمانے میں حج میں بہت سی منکرات اور برائیاں اہل مکہ نے اپنی طرف سے شامل کرلی تھیں، یہاں تک کہ بعض لوگ احترام کے نام پر کعبہ کی بے احترامی کرتے تھے ، منیٰ اور عرفات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا  کے بجائے لوگ اپنے آباء و اجداد کی تعریف کے نغمے گاتے اور اشعار پڑھتے تھے، عکاظ کا میلہ تو خالص تجارتی میلہ تھا اور شراب و کباب کی محفلیں آراستہ کی جاتی تھیں جو عیش کوشیوں اور سرمستیوں، بلکہ بدمستیوں کے لوازم میں سے ہیں  لیکن اس میلے میں بھی آپ ﷺ پہنچتے اور لوگوں تک حق کی دعوت پہنچاتے۔ اہل مدینہ حج کے اجتماعات کی ہی برکت سے اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے اورپھر ایسے جاں نثار ہوئے کہ تاریخ عالم میں ایسی جاں نثاری اور خود سپردگی کی مثال نہیں ملتی۔ 
ان اجتماعات میں جانا اور وہاں دعوتِ حق پہنچانا اس زمانے کے طاقتور ترین اور وسیع الاثر ذرائع ابلاغ سے استفادہ کی بہترین مثال ہے۔  اس لئے اپنے عہد کے ذرائع ابلاغ سے فائدہ اُٹھانا اور ان تک رسائی حاصل کرنا صرف مصلحت کا تقاضا نہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات اور رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔
 اسلام نے فرد کے ساتھ ادارے اور ذرائع ابلاغ کو جتنی آزادیاں دی ہیں، ان میں ایک اہم حق احتجاج کا حق بھی ہے۔ ذرائع ابلاغ کو جہاں کہیں بھی ظلم اور نا انصافی ملے، اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہئے اور مظلوموں کی حمایت میں  انسانی غیرت اور حمیت کا ثبوت دینا چا ہئے۔ قرآن کریم کی آیت ہے : اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو، اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے۔ (سورۃ النساء) ۔  حدیث شریف ہے: ظالم و جابر حکمراں کے سامنے کلمہ حق کہنا اَفضل ترین جہاد ہے۔ (ترمذی) اسلام نے کسی کی نجی زندگی میں تو مداخلت سے منع کیا ہے، لیکن اگر کسی شخص کی حرکت و عمل سے مفادِ عامہ پر ضرب پڑتی ہو تو ایسے جرم کا پردہ فاش کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں کسی کی ٹوہ میں لگنے سے منع کیا گیا ہے،لیکن اگر کسی مشتبہ شخص کے بارے میں معتبر ذرائع سے معلوم ہوجائے کہ وہ کوئی خطرناک کام کرنے جارہا ہے، تو اس کے جرم کو طشت ازبام کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK