Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈیپ فیک نئی مصیبت

Updated: November 20, 2023, 1:17 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ٹیکنالوجی کے بارے میں یہ بحث، کہ ٹیکنالوجی رحمت ہے یا زحمت، شاید کبھی نہ تھمے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے فوائد بھی کم نہیں ہیں اور نقصانات بھی۔ سوچئے اب تک ہم اسی بحث سے نجات نہیں پاسکے تھے کہ نئی نسل کو ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے کیسے روکیں مگر اب اس کے ہولناک مظاہر سے پوری دنیا ششدر ہے۔

It is very important to know what a "deep fake" is. Photo: INN
’’ڈیپ فیک‘‘ کیا ہے اس کے بارے میں جاننا ازحد ضروری ہے۔تصویر:آئی این این

ٹیکنالوجی کے بارے میں  یہ بحث، کہ ٹیکنالوجی رحمت ہے یا زحمت، شاید کبھی نہ تھمے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے فوائد بھی کم نہیں  ہیں  اور نقصانات بھی۔ سوچئے اب تک ہم اسی بحث سے نجات نہیں  پاسکے تھے کہ نئی نسل کو ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے کیسے روکیں  مگر اب اس کے ہولناک مظاہر سے پوری دنیا ششدر ہے۔ مصنوعی ذہانت کا اثرورسوخ روز بہ روز بڑھ رہا ہے اور غیرمعمولی ہوتا جارہا ہے۔ اسی کی ایک نئی اور تباہ کن شکل ڈیپ فیک ہے جس کے ذریعہ کسی کو بدنام اور رسوا کردینا، کسی کو سرعام تماشا بنا دینا یا کسی کے نام، چہرے اور آواز کے ساتھ اس سے کوئی غلط بات کہلوا دینا آسان ہوگیا ہے۔ کل تک  فوٹو شاپ کے ذریعہ کسی کے جسم پر کسی اور کا سر اور چہرا لگایا جارہا تھا مگر اب ایک چہرے کو دوسرے کے جیسا بناکر کچھ اس طرح سے پیش کرنا ممکن ہوگیا ہے کہ دیکھنے والا شناخت نہ کرسکے کہ یہ کوئی اور ہے۔ یہی ’’ڈیپ فیک‘‘ ہے جس کے خلاف گزشتہ دنوں  وزیراعظم مودی نے متنبہ کیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ڈیپ فیک کے ذریعہ ایک ویڈیو میں  انہیں  گربہ کھیلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ بقول وزیراعظم وہ ڈیپ فیک کو سماج میں  انتشار پھیلانے والا محسوس کرتے ہیں  جس کیلئے سماج میں  بیداری لانا ازحد ضروری ہے۔
 وزیراعظم کا متنبہ کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی ضرورت تھی۔ اس انتباہ کے ذریعہ عوام ایک بڑی مصیبت سے آگاہ ہوسکیں  گے جو واقعی سماج کو شدید کرب اور بے چینی میں  مبتلا کرسکتی ہے۔ اسے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ ڈیپ فیک کو مسترد کرنے کا شعور اور ذمہ داری عوام میں  نہیں  پیدا ہوئی اور ڈیپ فیک ویڈیو وائرل ہوتے رہے یعنی ان کی مقبولیت بڑھتی رہی تو یہ دشمنی نکالنے کا ہتھیار بھی بن سکتے ہیں  اور کسی سے بدلہ لینے کا بھی۔ ان کے سبب بلیک میل کرنے کا رجحان بڑھ سکتا ہے اور کسی کو بدنام کرنے یا کسی کا تمسخر اڑانے کی ذہنی بیماری وبا کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ یہ سب ایسے دور میں  ہورہا ہے جس میں  بدی اور برائی تیزی سے اور حیران کن طریقے سے بڑھی ہے۔ کوئی نہیں  جانتا تھا کہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی (آئی ٹی) سماج پر اس طرح اثرانداز ہوگی کہ اسے اگلتے بنے گا نہ نگلتے بنے گا۔ آئی ٹی ہی سے اے آئی کا راستہ ہموار ہوا اور اب اے آئی سے ڈیپ فیک کے امکانات پیدا ہوئے۔ مشکل یہ ہے کہ آئی ٹی یا اے آئی کی حوصلہ شکنی ممکن نہیں  ہے۔ آج لوگ باگ، خواہ وہ کسی ملک کے ہوں ، موبائل اور انٹرنیٹ کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں  کہ ایسا لگتا ہے ان کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ اس لئے بھی ادھوری ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں  میں  ٹیکنالوجی کی رہنمائی، بالادستی اور حاکمیت قبول کرکے خود کو پیچھے کرلیا ہے۔ اب تو ہمیں  قریب ترین لوگوں  کے فون نمبر تک یاد نہیں  رہتے جبکہ ہمارا حافظہ گوگل پر انحصار کا عادی ہوگیا ہے۔
 ٹیکنالوجی فائدہ پہنچا رہی ہے مگر کب کس نقصان سے دوچار کردے گی کچھ کہا نہیں  جاسکتا۔ آج بینکوں  میں  پیسے جمع کرنا، نکالنا یا پیسے ادا کرنا نہایت آسان ہوگیا ہے مگر کھاتے دار بینک فراڈ اور سائبر کرائم کا شکار نہیں  ہوں  گے اس کی ضمانت بینک بھی نہیں  دیتے، ان کی جانب سے حفاظتی تدابیر ہی کھاتے داروں  کو بتائی جاتی ہیں ۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ ٹیکنالوجی نے سہولتیں  تو غیر معمولی عطا کی ہیں  مگر مسائل سے دوچار بھی کیا ہے۔ڈیپ فیک کا خطرہ عام لوگوں  کو کم ہے مگر جن پر وہ بھروسہ کرتے ہیں ، جنہیں  عزیز رکھتے ہیں  اور جنہیں  وہ اپنا آئیڈیل مانتے ہیں  ان کے ساتھ ڈیپ فیک کے ذریعہ کب کون سی حرکت اور شرارت ہوگی کہا نہیں  جاسکتا۔
 وزیراعظم کا متنبہ کرنا اپنی جگہ اہم ہے مگر اس نئی مصیبت کے خلاف انہیں  عالمی لیڈروں   سے گفتگو بھی کرنی چاہئے اور ایک بین الاقوامی میکانزم بنانے کی جانب پیشقدمی کرنی چاہئے۔

tech news Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK