چین کے تعلق سے جو طبی خبریں میڈیا رپورٹس میں شامل ہیں، فکر میں مبتلا کرنے والی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ شمالی چین میں اکتوبر نومبر میں بچوں کے بیمار ہونے بالخصوص نمونیا اور انفلوئنزا میں مبتلا ہونے کے واقعات گزشتہ تین سال کے اوسط کیسیز سے کافی زیادہ ہیں۔
سیاسی عزم نہیں تو عوامی عزم بدعنوانی کے خاتے کیلئے کافی ہوسکتا ہے مگر وہ بھی مفقود ہے۔تصویر:آئی این این
چین کے تعلق سے جو طبی خبریں میڈیا رپورٹس میں شامل ہیں، فکر میں مبتلا کرنے والی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ شمالی چین میں اکتوبر نومبر میں بچوں کے بیمار ہونے بالخصوص نمونیا اور انفلوئنزا میں مبتلا ہونے کے واقعات گزشتہ تین سال کے اوسط کیسیز سے کافی زیادہ ہیں۔ عالمی تنظیم ِصحت (ڈبلیو ایچ او) نے حکومت ِچین سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کیسیز کی تفصیل فراہم کرے۔ چین اس درخواست کو شرف قبولیت بخشے گا یا نہیں، اس کی فراہم کردہ رپورٹ معاملات کو سمجھنے میں کارگر ہوگی یا نہیں، یہ کہنا مشکل ہے۔ اس کا انداز ہ ڈبلیو ایچ او کو بھی ہوگا۔ ۲۰۱۹ءمیں چینی حکومت نے کورونا وائرس کے تعلق سے عالمی تنظیم ِ صحت سے بہت سی باتیں اور حقائق چھپائے تھے۔ اس لئے، کوئی ایسا طریقۂ عمل (میکانزم) ہونا چاہئے جس کے تحت ڈبلیو ایچ او کو آزادانہ طور پر سرگرم ہونے کا اختیار حاصل ہو۔ دُنیا ایک بار دھوکہ کھا چکی ہے۔ بار بار کیسے کھا سکتی ہے؟
کورونا وائرس بھی نظام ِ تنفس کو بُری طرح متاثر کرتا تھا اور فی الحال شمالی چین میں نمونیا اور انفلوئنزا کے اثرات کا تعلق بھی نظام تنفس ہی سے ہے اس لئے یہ شبہ ہوتا ہے کہ کہیں کورونا ہی کی نسل کا کوئی جرثومہ تو متحرک نہیں ہوگیا ہے؟ عالمی طبی ماہرین کی ٹیمیں چین جاکر حالات کا جائزہ لے سکیں اس کیلئے بیجنگ کا اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے تاکہ وہ حقیقت حال دُنیا کے سامنے رکھیں اور کسی بھی حقیقت کو چھپانے سے گریز کریں۔ اس سلسلے میں دُنیا کے مقتدر ملکوں بالخصوص عالمی اداروں کو کووڈ۱۹؍ کے دور کے حوالے سے گفتگو کرنی چاہئے کہ کس طرح بیجنگ کی لاپروائی کی وجہ سے کورونا اس قدر بے قابو ہوا کہ چین کے بعد متعدد ملکوں میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ ہر طرف بیماری کا خوف، پریشانی، اسپتالوں کی زبوں حالی، آکسیجن کی قلت اور ریمیڈیسیور کیلئے ہونے والی بھاگ دوڑ نے انسانیت کو نہ صرف ہراساں کیا بلکہ ناگفتہ بہ مسائل پیدا کردیئے۔ کووڈ کے دور سے بڑی مشکلوں سے باہر نکلنے والی دُنیا اَب کورونا کے حالات کا دسواں حصہ بھی جھیل نہیں سکتی۔ اُس دور میں طبی مسائل ہی خوفناک نہیں تھے، کووڈ نے معیشت کو بھی تباہ کردیا تھا۔
خیر، چین سے ملنے والی یہ بہت ابتدائی رپورٹیں ہیں اور ان سے کسی بھی خانے میں تشویش میں مبتلا نہیں ہوا جاسکتا البتہ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کے موسمی تغیرات اور ان کے اثرات سے غافل نہ رہیں۔ نومبر کا مہینہ قریب الختم ہے اور ملک کے اکثر حصوں میں اب تک موسم ِ سرما شروع نہیں ہوا ہے۔ موسمی تغیرات کا معاملہ یہ ہے کہ ایک ہی موسم (گرما) تمام موسموں پر حاوی ہوگیا ہے۔ بارش کی ابتداء جتنی تاخیر سے ہوتی ہے اُتنے دن گرمی مسلط رہتی ہے۔ سردی دیر سے شروع ہو تب بھی گرما ہی کو جھیلنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے اس کا سبب زمین کی روزافزوں حدت ہے جس کا موسموں کے مزاج پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ ہم اس کالم میں لکھ چکے ہیں کہ ۲۰۲۳ء حالیہ تاریخ کا گرم ترین سال ہونے کو ہے۔ اِن موسمی تغیرات کا انسانی زندگی پر لازماً اثر پڑتا ہے ۔
ایسے میں جسم کے دفاعی نظام کو مستحکم رکھنا ایسا نسخہ ہے جس سے انسان بہت سی مشکلات سے محفوظ رہتا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کووڈکے دور میں دفاعی نظام یا قوت مدافعت کا موضوع چھایا رہتا تھا۔ اس کی ضرورت صرف کووڈ کے دور میں نہیں تھی، ہر دور میں رہتی ہے خواہ وہ عام حالات ہوں یا طبی اعتبار سے مشکل حالات ۔