Inquilab Logo

دہلی الیکشن میں نفرت کی سیاست کا افسوس ناک مظاہرہ

Updated: February 02, 2020, 3:40 PM IST | Jamal Rizvi

پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر نے انتخابی مہم کے دوران جس طرح کی اشتعال انگیز تقریریں کیں، ان سے سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔

بی جے پی ۔ تصویر : پی ٹی آئی
بی جے پی ۔ تصویر : پی ٹی آئی

ملک کی قومی راجدھانی دہلی میں آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات میں عوامی مسائل کی جگہ نفرت اور تشدد کا سیاسی کاروبار اپنے عروج پر ہے ۔الیکشن کمیشن کے ذریعہ دہلی کے اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے کچھ دنوںبعد ہی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بڑے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس بار دہلی اسمبلی کا الیکشن کام کی بنیاد پر لڑا جائے گا۔ وہ اور ان کی پارٹی اب بھی اس دعوے پر قایم ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی حریف بی جے پی نے دہلی کی انتخابی مہم کو جس نہج پر موڑ دیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد نے عوام کے مسائل کو کہیں پس پشت ڈال دیا ہے ۔بی جے پی کے لیے انتخابی سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کا یہ ایک ایسا حربہ ہے جسے وہ ہر سطح کے انتخاب میں استعمال کرتی ہے ۔ مرکز اور ملک کی مختلف ریاستوں میں اقتدار حاصل کرنے میں یہ حربہ اس کے لیے بہت سود مند ثابت ہوا ہے ۔اس طرز کی سیاست کے سہارے اسے اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی تو مل جاتی ہے لیکن عوام کے مسائل کا کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز حل فراہم کرنے میں اس کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدام عموماً نہیں کیا جا تا۔ یہ پارٹی حصول اقتدار کے بعد زندگی کے بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایسے معاملات اور موضوعات کی قومی سطح پر تشہیر کرتی ہے جو فرقہ واریت پر مبنی اس کی سیاست کو فائدہ پہنچاتے ہیں لیکن اس تشہیر سے ملک کے سماجی اور معاشی نظام کو کئی طرح کے نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
 دہلی کے اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس پارٹی نے ایک بار پھر یہی حربہ استعمال کیا ہے۔ اس حربہ کو کارگر بنانے کے لیے بی جے پی لیڈروں نے الیکشن کمیشن کے اصول اور ضابطوں کو بھی پوری طرح نظر انداز کر دیا ہے ۔ دہلی کے مختلف اسمبلی حلقوں میں اپنے امیدواروں کے لیے ووٹ مانگنے کے دوران بعض بی جے پی لیڈروں نے جس طرح کی اشتعال انگیز تقریریں کیں اور اپنے سامعین کے جذبات بھڑکانے کے لیے جس طرح کے نعرے لگوائے اسے ایک مہذب اور قومی اتحاد و یکجہتی پر محکم یقین رکھنے والے سماج میں کسی طور بھی درست نہیں قرار دیا جا سکتا۔اس ملک کی معاصر سیاست کا یہ ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی پارٹیاں عوامی مسائل کے تدارک پر اپنی حکمت عملی کی تشہیرسے زیادہ دلچسپی ان جذباتی قسم کے معاملات میں ظاہر کرتی ہیں جو عوام کے درمیان فرقہ واریت کے رجحان کو بڑھاوا دیتے ہیں۔اس طرز سیاست کی مقبولیت کے لیے اگر سیاسی پارٹیوں کی متعصبانہ حکمت عملی ذمہ دار ہے تو ساتھ ہی عوام کا وہ غیر سنجیدہ رویہ بھی ،جو اپنی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اقتدار کو آمادہ کرنے سے زیادہ قوم اور مذہب کے نام پر نفرت اور تشدد کو زندگی کے ایک رجحان کے طور پر تسلیم کرنے میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے ۔ عوام کے اس رویہ کا فائدہ وہ سیاسی پارٹیاں اٹھاتی ہیں جن کی سیاست صرف تعصب اور فرقہ واریت کو فروغ دینے سے پروان چڑھتی ہے ۔دہلی کے اسمبلی الیکشن میں سیاست اور عوام کے اس رویہ کو بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
 دہلی میں کیجریوال حکومت کی پانچ سالہ میعاد کا اگر غیر جانب دارانہ طور پر جائزہ لیا جائے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کیجریوال حکومت نے دہلی کے عوام کیلئے تعلیم، صحت اور بجلی پانی جیسے بنیادی مسائل کا ٹھوس اور نتیجہ خیز حل تلاش کرنے کے سلسلے میں اہم کام کیے ہیں۔دہلی جیسے بڑے اور کسی حد تک گنجان آبادی والے شہر کے غریب اور متوسط طبقہ کے لیے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کو آسان بنانا کیجریوال حکومت کی ترجیح رہی ہے اور اس کو عملی شکل دینے میں اس حکومت نے جو اقدامات کیے انھیں یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔اگر آئندہ ہونے والے اسمبلی الیکشن میں عوام کے بنیادی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرنے کو سیاسی موضوع بنایا جاتا تو یقینا اس سے دہلی کے لوگوں کا کچھ بھلا ہو سکتا تھا ۔ لیکن انتخابی مہم میں سیاسی پارٹیوں خصوصاً بی جے پی کی طرف سے جن موضوعات کی تشہیر کی جارہی ہے ان سے عوام کے معیار زندگی میں کسی مثبت تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی۔
  بی جے پی کے دو اہم لیڈروں پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر نے انتخابی مہم کے دوران جس طرح کی انتہائی اشتعال انگیز تقریریں کیں ان سے سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے متاثر ہونے کا امکان قوی تر ہو جاتا ہے۔ الیکشن میں کامیابی کے لیے سماجی اتحاد میں دراڑ پیدا کرنے والے سیاسی لیڈروں کے ذریعہ مذہب اور قوم کے حوالے سے جس طرح کے نازیبا بیانات جاری کیے جا رہے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے طے شدہ انتخابی ضابطوں کے خلاف ہیں۔اپنے سیاسی حریف کوزیر کرنے کے لیے تمام انسانی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دینا اس سیاسی زوال کی علامت ہے جس کا عوام اور سماج کے مفاد اور مسائل سے کوئی سروکار نہیںہوتا۔ دہلی کی انتخابی مہم میں بی جے پی کی طرف سے اہم رول ادا کرنے والے پرویش ورما نے کیجریوال کو آتنک وادی کہنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان کے اس انتہائی غیر اخلاقی بیان پر الیکشن کمیشن نے انھیں کچھ دنوں تک پرچار کرنے سے روک دیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی لیڈروں کے ایسے نازیبا بیانات کی پاداش میں انھیں کچھ مدت کے لیے انتخابی مہم سے روک دینے سے سیاسی ماحول میں کسی مثبت اور خوشگوار تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے ؟ اس سوال پر غور کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ایسے لیڈروں پر الیکشن کمیشن کی کارروائی کے بعد جب دوبارہ انھیں عوام سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے تو اس وقت بھی ان کے رویہ میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں نظر آتی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ انھوں نے الیکشن کمیشن کی کارروائی سے کوئی درس حاصل کیا ۔ایسا لگتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران فرقہ وارانہ منافرت کی سیاست کرنے والے لیڈروں کے لیے یہ طرز تشہیر ایک عام سیاسی رجحان کی حیثیت اختیار کر گئی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زندگی کے بنیادی مسائل سے مسلسل جوجھتے رہنے والے عوام کا ایک طبقہ بھی اس رجحان کو بہت آسانی سے قبول کر لیتا ہے۔ دہلی کے اسمبلی الیکشن کی انتخابی مہم میں سیاسی لیڈروں اور عوام کے اس رویہ کا مظاہرہ ملکی سیاست کا افسوس ناک روپ ظاہر کرتا ہے ۔
 دہلی کا اسمبلی الیکشن ایسے وقت میں ہورہا ہے جبکہ مرکزی حکومت کے متنازع شہریت کے قانون پر ملک گیر سطح پر جاری عوام کا احتجاج اور نام نہاد دیش بھکتوں کی اس قانون کے لیے حمایت کے سبب مذہب، قوم اور وطن کے حوالے سے سماج ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہے ۔ اس متنازع قانون کے احتجاج میں شاہین باغ کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہو گئی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بی جے پی لیڈروں کے ذریعہ شاہین باغ کی منفی تشہیر کچھ اس انداز میں کی جا رہی ہے کہ جیسے وہاں احتجاج میں شامل افراد اس ملک کی سالمیت کے لیے ایک بڑ ا خطرہ ہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شاہین باغ کے احتجاج میں شامل خواتین اور مرد اس ملک کی صدیوں پرانی اتحاد و یکجہتی کی روایت کو باقی رکھنے کی ضمانت اقتدار سے چاہتے ہیں ۔ ان کا یہ مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ تمام ہندوستانیوں کو ایک انسانی برادری کے طورپر دیکھتے ہیں اور ان کے درمیان مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ ان مظاہرین کے تئیں اقتدار کی سر د مہری،اقتدار اور عوام کے رابطہ کی افسوس ناک صورت پیش کرتی ہے ۔ اور اب اس سے بھی دو قدم آگے جاکر بی جے پی لیڈروں نے شاہین باغ کے احتجاج کو ایک ایسی علامت کے طور پر مشتہر کرنا شروع کر دیا ہے جو اس ملک  کے امن اور خوشحالی کے لیے خطرہ ہے ۔ ملک کے وزیر داخلہ سمیت بی جے پی کے دیگر لیڈروں کے ذریعہ جس طرح شاہین باغ کی منفی تشہیر کی جارہی ہے اس سے ممکن ہے کہ انھیں کسی حد تک سیاسی فائدہ حاصل ہو جائے لیکن وسیع پیمانے پر اس سے جو سماجی نقصان ہوگا وہ اس سیاسی فائدے کے مقابلے کہیں زیادہ ہوگا۔ 
 دہلی کا اسمبلی الیکشن ایسا سیاسی اکھاڑہ بن چکا ہے جس میں عوامی مسائل کے بجائے نفرت اور تشدد کی سیاست کا کاروبار اپنے شباب پر ہے ۔ایسے پراگندہ ماحول میں کسی مثبت تبدیلی کی توقع صرف عوام سے کی جا سکتی ہے اور وہ اس طرح کہ ایسے لیڈروں کے انتخابی جلسوں کا پوری طرح بائیکاٹ کیا جائے جو فرقہ وارانہ نفرت کے سہارے اپنی سیاست چمکانے میں یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لیڈروں کی تائید کرنے کی بجائے انھیں یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں سماجی آہنگی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اس بنیاد کو مزید مستحکم اسی وقت بنایا جا سکتا ہے جبکہ مذہب اور قوم سے اوپر اٹھ کر مجموعی طور پر ملک کی فلاح اور ترقی کے بارے میں سوچا جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK