Inquilab Logo

جمہوریتیں ایک دم سے نہیں، بتدریج ختم ہوتی ہیں!

Updated: April 07, 2024, 3:53 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

اس کالم میں بارہا اُن عالمی جدولوں کا حوالہ دیا جاچکا ہے جن میں بحیثیت ملک ہماری ساکھ کمزور ہورہی ہے خواہ وہ جمہوری قدروں کا معاملہ ہو یا انسانی حقوق کا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

فریڈم ہاؤس کی رپورٹ برائے ۲۰۲۴ء کے مطابق بنگلہ دیش ’’جزوی آزاد‘‘ ملک ہے۔ ادارہ نے ہندوستان اور پاکستان کو بھی اسی زمرہ میں رکھا ہے۔ مشہور جریدہ ’’دی اکنامسٹ‘‘ نے بنگلہ دیش کو یک جماعتی ملک (وَن پارٹی اسٹیٹ) قرار دیا ہے۔ بلاشبہ وہاں پارلیمنٹ بھی ہے اور کئی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں لیکن جو سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے وہی منظر عام پر نہیں ہے، اس کی لیڈر خالدہ ضیاء پر الزامات تھے جن کے بعد اُنہیں سزا ہوئی، وہ اب بھی نظر بند ہیں۔ جنوری ۲۴ء میں بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہوئے جن میں برسراقتدار جماعت (عوامی لیگ) کو پارلیمنٹ کی ۳۰۰؍ میں سے ۲۲۴؍ نشستیں (دو تہائی) حاصل ہوئیں۔ اس سے قبل کے الیکشن میں خالدہ ضیاء نے ایک عبوری حکومت کی سرپرستی میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اس مطالبہ کو مسترد کردیا۔ یہاں حکومتی مشنری کے غلط استعمال کے الزامات بے شمار ہیں جن میں اپوزیشن کے لیڈروں کو پریشان کرنا اور اُنہیں جیل میں ڈال دینا وغیرہ عام واقعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی عمل کے ذریعہ عوام کی منتخب کی ہوئی حکومت کے ہوتے ہوئے بنگلہ دیش کو ’’جزوی آزاد‘‘ قرار دیا گیا۔ 
 ہندوستان نے بنگلہ دیش کے انتخابات کی ستائش کی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے ٹویٹ کیا تھا: ’’وزیر اعظم شیخ حسینہ سے گفتگو کی اور اُنہیں پارلیمانی الیکشن میں مسلسل چوتھی مرتبہ کامیابی کیلئے مبارکباد پیش کی۔ انتخابات کے کامیاب انعقاد پر مَیں بنگلہ دیش کے عوام کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ ‘‘ مگر، امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا ردعمل مختلف تھا۔ اس نے کہا: ’’امریکہ، بہت سے مشاہدین کے اس خیال کے ساتھ ہے کہ جو انتخابات ہوئے وہ آزاد نہیں تھے، غیر جانبدار نہیں تھے اور ہمیں افسوس ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ ‘‘ اس کے بعد کے مہینے میں، یعنی فروری ۲۴ء میں، پاکستان میں انتخابات ہوئے۔ اِس وقت پیش رو وزیر اعظم عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ تب بھی امریکہ نے کہا: ’’ہم قابل اعتبار عالمی اور مقامی مشاہدین کے اس تاثر کے ساتھ ہیں کہ ان انتخابات کے دوران اظہار رائے کی آزادی، ملنے جلنے اور یکجا ہونے کی آزادی اور پُرامن طریقے سے عوام کا اکٹھا ہونا (پیس فل اسمبلی) کی راہ مسدود کرنے کی کوشش کی گئی، ہم انتخابی تشدد، عوام پر لائی جانے والی روک ٹوک اور میڈیا سے وابستہ افرادکی انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسیز تک رسائی میں رکاوٹوں کی مذمت کرتے ہیں۔ ‘‘ اس کے علاوہ بھی امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے چند باتیں کہیں جن کا مفہوم یہی تھا جو بیان کیا گیا۔ واضح رہنا چاہئے کہ پاکستان نے بھی بنگلہ دیش کی طرح اپوزیشن سے پاک جمہوریت کو راہ دینے کی کوشش کی مگر اُسے اتنی کامیابی نہیں ملی۔ جیل میں ہونے کے باوجود عمران خان کی پارٹی نے ایک تہائی ووٹ حاصل کرلئے۔ برصغیر میں اس طرح کی باتیں عام ہیں، یہاں بھی الیکشن کے بعد ایجنسیوں کے استعمال کے ذریعہ اراکین پارلیمان کو سمجھایا جائیگا کہ وہ ہوش سے کام لیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ۱۹۷۷ء کے اُن انتخابات میں جو پاکستان میں منعقد ہوئے تھے، حکمراں جماعت کو کامیابی ملی تھی، یہ تب کی بات ہے جب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کافی مقبول تھیں مگر اس مقبولیت کے باوجود انتخابات کو کلین چٹ نہیں ملی اور انہیں غیر جانبدار یا آزاد نہیں کہا گیا۔ اپوزیشن کمزور تھی مگر اس نے کافی احتجاج کیا تھا۔ اس دور کے حالات و واقعات کا خمیازہ پاکستان کو بعد کی چار دہائیوں میں بھگتنا پڑا تھا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ وہی جمہوریتیں صحتمند کہلاتی ہیں جن میں جمہوری اداروں کو آزادی کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کا موقع ملے مثلاً الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ۔ جب تک یہ ادارے مرکز کی حکمراں جماعت کے دخل در معقولات سے پاک نہیں رہیں گے تب تک جمہوریت مستحکم نہیں ہوگی۔ اگر اپوزیشن محسوس کرتا ہے کہ اُس کی راہیں مسدود کی جارہی ہیں، الگ الگ ٹیموں کیلئے الگ الگ ضابطے ہیں اور امپائر جانبدار ہے تو جمہوریت کا استحکام مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ باتیں سب جانتے ہیں مگر افسوس کہ اِن کے اعادے کی ضرورت پڑتی ہے۔ 
 ہندوستانی جمہوریت ۲۰۱۴ء سے پھسلن پر آئی اور اسی پھسلن کا نتیجہ ہے کہ آج کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کے جدول برائے جمہوریت (ڈیموکریسی انڈیکس) پر ۲۰۱۴ء میں ہم ۲۷؍ ویں مقام پر تھے۔ ۲۰۲۰ء میں ہمیں ’’خام جمہوریت‘‘ (فلاڈ ڈیموکریسی) قرار دیا گیا۔ پچھلے سال اس رینکنگ میں ہمارا مقام ۴۱؍ واں ہوگیا۔ یہ ’’نریندر مودی کی قیادت میں جمہوریت کے تسلسل کے ساتھ گھسٹنےاور اُن کی تیار کردہ اُن پالیسیو ں کا نتیجہ ہے جن کے ذریعہ مسلم مخالف جذبات پیدا کئے گئے اور مذہبی رسہ کشی پیدا کی گئی۔ ‘‘ 
 ایک اور ادارہ ہے جو ’’سویکس‘‘ (CIVICUS) کہلاتا ہے۔ ۲۰۱۷ء میں اس کی ہندوستان کے بارے میں ریٹنگ ’’رکاوٹ کی نذر‘‘ ہوگئی تھی مگر اس کے بعد ’’دباؤ کی نذر‘‘ (Repressed) رہی۔ مارچ ۲۲ء میں اس ادارہ کا کہنا تھا کہ ’’ہندوستان اُن ملکوں میں شامل ہوگیا ہے جہاں شہری آزادی زوال پزیر ہے‘‘ اور مودی ’’اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کیلئے سخت اقدام کررہے ہیں۔ ‘‘ 
 فریڈم ہاؤس بھی کہہ چکا ہے کہ ’’بی جے پی نے سرکاری اداروں کو سیاسی مخالفین کو ہدف بنانے کیلئے استعمال کیا ہے۔ ‘‘ 
 یونیورسٹی آف گوتھن برگ کی وی ڈیم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں ’’گزشتہ دس سال میں سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلی دیکھی گئی۔ ‘‘ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مودی کی قیادت میں ہندوستان نے جمہوری ملک کی اپنی حیثیت گنوا دی اور اب محض ’’انتخابی جمہوریت‘‘ بن کر رہ گیا۔ اس طرح وہ اُن ملکوں کی صف میں شامل ہوگیا جن میں ہنگری اور ترکی کا نام آتا ہے۔ 
 ایسے ہی دھیرے دھیرے جمہوریتیں ختم ہوتی ہیں۔ زوردار آواز یا چیخ کے ذریعہ نہیں بلکہ سسکیاں لے لے کر۔ طویل مدت میں جمہوری اداروں کو بتدریج کمزور کیا جاتا ہے۔ جمہوریت ایک بار کمزور ہوجائے تو پھر اسے طاقت دینا خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK